حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے سامنے ایک شخص نے ، کسی
دوسرے کے متعلق کہا کہ وہ بڑا نیک اور شریف آدمی ہے تو آپ نے اس سے پوچھاکہ
کیا تم اس کیپڑوس میں رہے ہو ، اس نے کہا نہیں ، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تم
اس کے ساتھ کوئی کاروبار کیا ہے ، اس نے کہا کہ نہیں ، پھر پوچھا کہ کیا تم
نے اس کے ساتھ کبھی سفر کیا ہے ، جب اس نے اس پر بھی کہا کہ نہیں ، تو آپ
نے ڈانٹ کر کہا کہ پھر تم نے اسے مسجد میں سر اٹھاتے اور سرجھکائے دیکھا
ہوگا اور اس سے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ بڑا نیک اور شریف انسان ثابت ہو۔دراصل
یہی آج کی ہماری سیاسی پالیسیاں ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان
بن جاتے ہیں یا پھر نوجوانوں کے اذہان میں یہ بات سما جاتی ہے کہ فلاں ملک
سے ، فلاں قوم سے ہمیں کیا لینا دینا ، ہمارا ان سے کیا واسطہ ، ماضی چھوڑو
اور مستقبل کی جانب چلو۔زیادہ تر مخالفتبھارت کے معاملے میں الجھن پیدا
کرتی ہے کہ جب پاکستان میں ، پاکستان کا مطلب کیا ، کے مفہوم کو ہی تبدیل
کردیا گیا ہو تو موجودہ پاکستان و بھارت میں دشمنی کیوں بڑھائی جائے اور
ایسے پاکستان کا کیا فائدہ ، جس میں انھیں وہ آزادی نہیں ، جو ان کے تئیں ،
بھات یا امریکہ میں ہے۔مسئلہ یہ ہے جانوروں میں پہچان کیلئے فطرت نے ان خُو
ڈال دی ہے اور وہ چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتی ہیں کہ سامنے جو جانور آرہا ہے
وہ بکری ہی ہے شیر نہیں ، اور جب شیر سامنے آتا ہے تو یہ بات بھی با آسانی
سمجھ میں آجاتی ہے کہ شیر درندہ ہے جس کا کام ضرر پہنچانا ہے۔لیکن انسانوں
میں یہصورت حال مختلف ہے یہاں انسان دوسرے انسان کو اس کے افعال ، اقوال
اور عملی اقدامات سے ہی پہچان سکتا ہے کہ ان کے سامنے جو انسان کھڑا ہے وہ
کسی خونخوار درندے سے بھی زیادہ خطرناک ہے یا کسی بھی لومڑی سے بھی زیادہ
چالاک ۔ہمارے نوجوان انہیں بھی انسان ہی سمجھتے ہیں جو اپنے پیکروں کے
پیرہن میں مہیب و اثر دار یا مکار لومڑیاں ہیں۔
پہلے ہم اکھنڈ بھارت کے اساسی سیاس اصولوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ
آخر اس کی طرز سیاست میں تبدیلی واقع کیوں نہیں ہو رہی۔ہندوؤوں کی ساری
تاریخ ، اگر اس بھان متی کے تاریخ کہا جاسکے ، صرف ایک سیاسی فلاسفر پیدا
ہوا ہے ، نام تو اس کا چانکیہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو نہایت فخر سے ’
کوٹلیا کہتا تھا اور ہندو بھی اسے اسی لقب سے پکارتے ہیں ، کوٹلیاکے معنی
ہیں "مکار اور فریب کار"۔انہوں نے اصول سیاست پر ایک کتاب لکھی ، جس کا نام
ارتھ شاستر ہے۔ چونکہ یہ کتاب سنکسرت میں تھی جس کی وجہ سے ہندوجاتی ، اس
میں درج شدہ اصولوں سے فیضاب نہیں ہوسکتی تھی ، اسی لئے اس کا انگریزی
ترجمہ شائع کیا گیا جس میں سیاست کے جو اصول بطور ضابطہ ء ہدایت دیئے گئے
ہیں وہ قابلغور ہیں۔
پہلا اصول ۔ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔
دوسرا اصول: -ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا
ہے۔تمام ہمسایہ سلطنتوں پر ہمیشہ کڑی نگرانی رکھی جائے۔
تیسرا اصول:۔غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں۔
چوتھا اصول:۔جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر
رہے اورمکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
پانچواں اصول:۔دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ مشتعل رکھی جائے ، ہر بہانہ سے جنگ
کی چنگاریاں سلگائی جاتی رہیں ، جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے حتٰی
کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی بھی پروا نہ کی جائے۔
چھٹا اصول:۔دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پراپیگنڈا ، تخریبی کاروائیاں ، ذہنی
انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے ، وہاں اپنے آدمی ناجائز طریقہ سے
داخل کرکے ففتھ کالمبنایا جائے اور یہ سب کچھ مسلسل انداز سے کیاجائے
ساتواں اصول:۔ رشوت اور دیگر اسی قسم کے ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی
جائے اوردوسرے ملکوں کے آدمیوں کو خریدنے کی کوشش کی جائے
آٹھواں اصول:۔امن کا خیال تک بھی دل میں لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس
پر مجبور کیوں نہ کرے۔
عزیزان ِ من یہ ہیں مختصراََ الفاظ میں سیاست کے وہ اصول جو بھارت کے ایک
مہاتما نے انہیں دیئے ۔یہ مہاتما ان کے ست جگ کے زمانے کے پیداوار تھے ،
یعنی وہ زمانہ جس میں ( ان کے عقیدے کے مطابق بھارت میں ) سچائی کا دور تھا
، اس کے بعد کل جُگ میں ایک اور مہاتما پیدا ہوئے جنہیں گاندھی جی کہا جاتا
ہے۔ان کی کیفیت قائداعظم خود اس طرح بیان کرتے ہیں ، قائد اعظم نے مسلم
اسٹوڈینٹس فیڈریشن (جالندھرا کے اجلاس منعقدہ ۱۹۳۳ء) میں پبلک پلیٹ فارم
سے کہا تھا کہ "مشکل یہ ہے کہ گاندھی کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو زبان سے کہتے
ہیں اور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا ، اُسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔"اسی
طرح انہوں نے اگست ۱۹۴۵ء میں ایکجلسہمیں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ"ہمیں
جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے ، جب ان کے
( یعنی گاندھی کے) مفید مطلب ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے نمائندہ
نہیں ، وہ محض انفرادی حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں ، وہ کانگریس کے چار آنہ
کے ممبر بھی نہیں، اور جن ضرورت ہوتی ہے تو سارے ہندوستان کے واحد نمائندہ
بن جاتے ہیں ، جب اور حربوں سے کام نہی چلتا تو مرن بھرت رکھ لیتے ہیں ، جب
کوئی دلیل بن نہیں پڑتی تو "اندرونی آواز"کو بدل لیتے ہیں ، کہیئے کہ ایسے
شخص سے ہمکس طرح بات کرسکتے ہیں ، وہ تو ایک چیستان ہیں ، معمہ ہیں۔"
کوٹلیا کے طرز سیاست اور دوسرے مہاتما گاندھی کی سیمابی کیفیت نے ہی
پاکستان کے وجود ہمیشہ خطرے میں رکھا ہوا ہے ۔ حصول اقتدار کی ہوس میں
68سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کو واپس متحدہ ہندوستان بنانے کی خواہش
بھارت سے ختم نہیں ہو سکی اور اس کی یہی جبلت کشمیریوں کو حق خود اداریت
دینے میں حائل ہے کیونکہ ملک گیری کی ہوس کو وہ ٹھنڈی نہیں رکھنا چاہتے
۔کوٹلیا کی سیاست کے دوسرے اصول کے تحت پاکستان کے ساتھ بھارت کا سلوک
دشمنوں سے بھی بد تر ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جس میں
پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکے، افغانستان کے داخلی معاملات میں کھلی
مداخلت کے ساتھ پاکستان میں شر انگیزیاں کوٹلیا سیاست ہے۔
کوٹلیا کا تیسرا اصول دیکھ لیں کہ ہمسایوں سے دشمنی بڑھائی جائے اور اپنی
غرض کی پیش نظر پاکستان دشمن ممالک سے دوستی مضبوط کی جائے۔بھارت کے غیر
ہمسایہ ممالک سے دوستی کامعیار خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور پاکستان کی
سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔کوٹلیا کے چوتھے اصول میں بھارت نے مکارانہ
سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا ، جہاں وہ مجبور ہوا کہ اس کی عالم
میں سبکی ہو رہی ہے یا پھر کسی ورلڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کے ساتھ دوستی
کے پیغامات کی ضرورت ہے تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ لیکن رات ڈھلتے ہی
سرحدوں پر بے گناہوں کے خون سے پاک سر زمین لبریز کردی جاتی ہے۔کوٹلیا کے
پانچواں اصول نہایت قابل غور ہے کہ بھارت میں ہونے والی جتنی متشدد واقعات
رونما ہوئے وہ خود ہندو انتہاپسندوں نے کروائے جس سے بھارتی عوام میں خوف و
ہراس پیدا ہوا، سمجھوتہ ایکسپریس ، ممبئی حملہ ، پارلیمنٹ حملہ ، سمندری
کشتی حملہ،گورداس پور پولیس اسٹیشن حملہ سمیت ان گنت واقعات ، جس میں خود
ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث پائی گئیں ، بغیر کسی شواہد کے بھارتی میڈیا
کے ذریعے جنگ اور اشتعال کی چنگاری کو بجھنے نہیں دیا جاتا اور آگ کے شعلوں
کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔
کوٹلیا سیاست کے چھٹے اصول کے تحت پاکستان ، بھارت کی مخالفانہ پراپیگنڈا
اور تخریبی کاروائیوں کی آجامگاہ بنا ہوا ہے، بلوچستان ، کراچی ، خیبر
پختونخوا اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گرد تنظیموں کی سپورٹ
کے ٹھوس شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔حالاں کہ پاکستان میں GHQ، نیول
ائیر بیس ، ائیر فورس ، ائیر پورٹ ، حساس ادارے ، قانون نافذ کرنے والے
افسران اہلکار ، سیاسی افراد ، سمیت اہم شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ
بنایا گیا لیکن کبھی بھی بھارتی میڈیا کی طرح بغیر کسی ٹھوس شواہد کو حاصل
کئے عوام میں اشتعال پیدا کرنے کیلئے براہ راست بھارت پر الزام نہیں لگایا
گیا۔کوٹلیا کا ساتواں اصول ہی دراصل بھارت کی جانب سے پاکستان کی معاشی شہ
رگ اور اقتصادی معیشت کو نقصان پہنچانا اور مفلوج کرنا رہا ہے۔پاک ، چائنا
اقتصادی راہداری معاہدہ ، افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور بین
الاقوامی معاشی جائزے میں پاکستان کی معاشی صورتحال کی ترقی کو امریکہ سے
بہتر بتائے جانا ، بھارت کے سینے پر سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور اسی اصول
کے تحت پاکستان میں اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے انارکی و بد امنی پھیلانے
کی سازشوں کے تحت ایسے پاکستانیوں کو خرید لیا گیا ہے ، جن کی رگوں میں
بھارت کی رشوت کا خون دوڑ رہا ہے۔اور حاصل جمع کوٹلیا کا آٹھواں اصول کہ
امن کا خیال تک بھی دل میں لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور
کیوں نہ کرے۔چانکیہ ’ کوٹلیا‘ کے انہی اصولوں کی سیاست کو بھارت نے اپنے دل
و دماغ پر حاوی کیا ہوا ہے۔سرسری جائزے سے ہی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ
بھارت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا جانور ہے جہاں انسان جانوروں سے بھی بدتر
حالت میں ہیں،شائد اب کسی نادان دوست کو بھارت سے دوستی کا مطلب سمجھ میں
آسکے۔ |