ملک میں اگر عز ت کے ساتھ پر وقارزندگی گذارنی ہے تو آپکو
اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لیے اجتماعیت اور تنظیم کو اپنا ہتھیار بنانا
ہوگا۔خداکا شکر ہے کہ اہکشن کمیٹی بنانے کی افادیت کا احساس مسلمانوں کی سب
سے ا ہم تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی ہو چکا ہے۔میں پھر اپنی ہی بات کو
دہرا رہا ہوں کہ’خیرات کے طلبگار کبھی تاجدار نہیں بن سکتا‘۔
ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں،سیکولرزم ہمارا نصب الئیں ہے۔اسکا مطلب یہ
ہوا کہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے سیکولرزم کے آدرشوں کو اپنانا ہو گا اور
جمہوری تحریکوں کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا۔ ماڈرن جمہوریت میں وہی قومیں
پروان چڑھتی جو اپنے حقوق کے ساتھ اپنے اختیارات کے تئیں بیدار رہتی ہیں۔آپ
سکھوں کا جائزا لیں۔پورے ملک میں سکھوں کی آبادی صرف ۲ فیصد ہے اور یہ قوم
پروقار طور سے زندہ رہنا اور اپنے حقوق کوحاصل کرنا جانتی ہے۔اجتماعیت اور
اتحاد انکی طاقت ہے۔راجستھان میں گوجر برادری نے اپنے اتحاد کی طاقت کا
زبردست مظاہرہ کیا اور حکومت اپنی تحریک کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا،
کیا ہم مسلمان سکھ اور گوجروں سے سبق حاصل نہیں کر سکتے؟
پہلے ہم اپنی ضرورتوں کا محاسبہ کریں۔ مسلمانوں کو سب سے پہلے ان سازشوں کو
بے نقاب کرناہے ،جو ہمیں بدنام کرنے ،ہمارے صالح نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات
میں ملوث کر جیلوں میں بند کرنے، ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھنے اور مختلف
سرکاری اسلیموں سے دور رکھنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس ہمارے
حوصلے پست کر رہا ہے۔
ہم اپنے رب کے احسان مند ہیں کہ اسنے ہمیں اسلام اور ایماں کی دولت سے
نوازہ ہے۔اسلام نے ہمیں جینے کا صلیقہ دیا ہے اور ایمان کی دولت نے مضبوتی
کے ساتھ اپنے اصولوں پر چلنے کی طاقت دی ہے۔رہنمایی کے لیے قرآن اور احادیث
کی تعلیمات کافیہیں۔اس روشنی میں ہم اجتماعیت اور تنظیم کی ڈور کو تھامنے
کی کوشش کریں۔ ہمیں نوجوانوں کی ٹیم بنانی ہے۔انہیں سب سے پہلے خود سے عہد
کرھا ہوگا کہ،کیسے بھی حالات آجائیں انہیں مشتعل نہیں ہونا ہوگا اور
صبروتحمل کادامن مضبوتی کے ساتھ پکڑے رہنا ہوگا۔ہمیں صرف گفتار کا ہی نہیں
کردار کا غازی بھی بننا ہوگا۔
ہمیں دہاتوں میں پنچایت اور شہر میں وارڈ کو اپنا ہدف بنانا ہے اور ہر
پنچایت اور وارڈ میں کم ازکم ۲۰ نوجوانوں کی ایک مضبوط یونٹ تیار کرنی
ہے۔۲۰ نوجوانوں میں ۱۰ مسلمان اور ۱۰ برادران وطن کے نوجواں ہوں گے۔ان میں
دلت نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ لیں۔ یہ در اصل نوجوانوں کا ایک ایسا دستہ
ہو گا جسکا مقصد معاشرے میں پھیل رہی برائیوں کا خاتمہ کرنا۔نا انصافی اور
ظلم کے خلاف جمہوری طریقے سیاحتجاج کرنا اور غریبوں اور مظلوموں کو انکا
جائزحق دلانا ہوگا۔مشن اور مہم میں یقین رکھنے والے نوجوان یقیناََ معاشرہ
میں انقلاب کے داعی بن جائیں گے۔
آپ خود اپنی افادیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اسلام نے کہیں بھی تشدد کی
حمایت نہیں کی ہے۔ اسلام دراصل امن کا پیامبر ہے اور ہمیں امن کی طاقت کا
استعمال کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔اس بات کا وعدہ خود سے اور اپنی ٹیم سے کرنا
ہوگاکہ وہ کسی بھی حالت میں مشتعل نہیں ہونگے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑیں
گے۔
موجودہ ماحول انتخاب کا ہے۔فرقہ پرست طاقتیں کسی صورت میں بہار کو فتح کرنا
چا ہیں گی۔اعداد شمار بتاتے ہیں کہ جن جن علاقوں میں فساد ہوا،ان علاقوں سے
بھاجپا کو کامیابی ملتی رہی ہے۔انتخاب سے قبل وہ communal Polrisationکاگیم
ضرور طکھیلنا چاہے گی۔
اگر ہم شہر کے سبھی وارڈوں میں ۲۰ نوجوانوں پر مشتمل کمیٹی بنا لیں تو ایک
شہر میں ممبران کی تعداد ایک ہزار سے یقینی طور پر زیادہ ہوگی۔اسی طرح ہر
پنچایت اور ممکن ہو توہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں بن جائیں تو ہم بغیر پولس
فورس کہ ہم کسی بھی سورش کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
مجھے بینگلور میں ایک پولس آفسر نے بتایا تھا کہ پی ایف آئی کے کاکنان نے
اپنی حکمت عملی سے ایک بڑا فساد ہونے سے روک لیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ شر
پسندوں نے میسور کی ایک مسجد میں خنزیر کا گوشت پھیک دیا۔پولس نے اسکی خبر
پی ایف آئی کے مقامی لیڈر کو دی۔ایک گھنٹے کے اندر سیکڑوں کارکنان نے علاقے
کو گھیر لیا۔مسجد کو نجاست سے پاک کیا گیا اور مسجد کو پانی سے دھو دیا
گیا۔فجر کی نماز میں آئے مقتدیوں سے خاموش رہنے کی اپیل کی گئی اور فساد
کرانے کا منصوبہ ناکام کر دیا گیا۔کیا ہم اس حکمت عملی کو نہیں اپنا سکتے؟
اگر قوم کو فرقہ پرستوں کی ریشہ دوانیوں سے بچانا ہے توصالح مسلم نوجوانوں
کو بیدار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی تعلیمی اور کاروباری مصروفیات سے تھوڑا وقت
نکالنا ہی ہوگا۔میری تجویز ہے کہ Mass Action for integeration and
Development(MAFID)کے نام سے ایک تنظیم بنائی جائے اور پورے بہار میں صالح
نوجوانوں کا گروپ تیار کیا جائے۔اس کام میں جماعت اسلامی اور امارت
شرعیہ،ادار ۂ شرعیہ اورجمیعت علماء کے کارکنان مدد کر سکتے ہیں۔
میں یوں ہی بکواس کرنے میں یقین نہیں رکھتا۔ملک جن حالات سے گزر رہا ہے وہ
جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ فسطائی طاقتیں ملک کو تباہ
و برباد کر دینا چاہتی ہیں۔مسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کو منظم طریقے سے خوف
زدہ کر انہیں دوسرے درجہ کا شہری بننے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔وزیر
اعظم اور وزیر داخلہ اپنبے عہدے کے مطابق آئنی زبان میں گفتگو کر رہے
ہیں۔اقلیتی امور کے وزیر مسلمانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ گائے کا
گوشت کھانا چاہتے ہیں تو پاکستان جا سکتے ہیں۔ ہم اس عیسائی وزیر کے اس
بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں کی انہوں صاف طور پر شری عباس نقوی کے بیان کا
جواب دیتے ہوئے کہا وہ گائے کا گوشت کھائیں گے۔انہیں کوئی روک نہپیں سکتا
ہے۔
سنگھ پریوارکی حکمت عملی کا جواب بھی اسی انداز میں دینا ہوگا۔ ہمیں نفرت
کی زبان نہیں آتی ہے اور نہ ہی کسی کو آنی چاہئے۔ہم نفرت کا جواب نفرت سے
دیکر برادرانوطن کا دل فتح کرنے کی کوشش کریں گے۔گاندھیائی طریقہ ہی ہمیں
فتح سے ہم کنار کرے گا۔ آئندہ ہم اس بات پر غور کریں گے کہ ہم اس تنطیم کے
ذریہ اور کون کون سے کام کر سکتے ہیں۔میں اس معالہ اپنی خدمات دینے کا
بھروسہ دلاتا ہوں آپ آگے بڑھیں خدا آپکا یقیی طور رر ساتھ دیگا۔ |