میرے پوتے محمد صائم عدیل کی رسمِ آمین

اسلام کامل دین اور زندگی بسر کرنے کا مکمل ضابطہ اور سلیقہ پیش کرتا ہے۔ سورة ’آل عمران‘ کی آیت 19، میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘۔ اسی طرح سورة ’المائدہ ‘آیت 3،میں کہا گیا، ترجمہ: ’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمتیں تم پر پُوری کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کیا‘۔ زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط ، سلیقہ ، ہدایات اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اپنے بندوں تک بھیجے۔ قرآن کا پڑھنا اور سننا باعث رحمت و برکت اور ’ذکراﷲ‘کی ایک قسم ہے۔ اپنے بندے کا یہ عمل اﷲ تعالیٰ کو بے حد پسند اور محبوب ہے۔ اﷲ نے سورة ’الا عراف‘ کی آیت204میں ارشاد فرمایا ترجمہ:’اور جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سُنا کرو اور خاموش رہا کرو ،تاکہ تم پر رحمت ہو جائے‘۔ اسی طرح سورة’ فاطر‘ آیت29،30 میں کہا گیا، ترجمہ: ’ جو لوگ اﷲ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اُس تجارت(کے فائدے) کے امیدوار ہیں جس میں ہر گز خسارہ نہ ہوگا‘۔ گویا قرآن کاسننا اور پڑھنا ہمارے لیے افضل، باعثِ رحمت ، باعث ِثواب اورباعثِ برکت ہے۔قرآن کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ یہ اﷲ کی کتاب ہے اس میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے ۔صحیح بخاری کی حدیث ،خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا’تم میں سب سے بہتر افضل بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے‘۔ اسی حوالے سے ایک اور حدیث جامعہ ترمذی میں ہے جس کے راوی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ ہیں۔فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے ’جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس نے ایک نیکی کمالی اور یہ کہ ایک نیکی اﷲ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس نیکیوں کے برابر ہے۔ مزید وضاحت کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا ، میں یہ نہیں کہتا کہ ’الم‘ ایک حرف ہے‘ بلکہ الف ایک حرف ہے‘ لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے (اس طرح ’الم‘ پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہوگا‘۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورة ’الانعام‘آیت 20،میں ارشاد فرمایا ترجمہ’جو بندہ ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا‘۔

مسلمان گھرانوں میں بچہ جیسے ہی بولنا شروع کرتا ہے،اسے الفاظ کی پہچان ہونے لگتی ہے تواسے قرآن کریم پڑھانے کی ابتدا کرادی جاتی ہے۔ مذہبی اور اسلامی رسم و رواج کے مطابق بچے کا قرآن پڑھنے کی ابتدا کا عمل ’رسمِ بسم اﷲ‘ کے زمرہ میں آتا ہے ۔ خواہ اس عمل کو رسم کا نام دیا جائے یا نہیں لیکن یہ گویا بچے کے باقاعدہ پڑھنے کی ابتداہوتی ہے۔ بعض گھرانے بچے کے قرآن پڑھنے کے عمل کی ابتدا کوایک رسم کی صورت میں ادا کرتے ہیں ۔رسمِ بسم اﷲ اور رسمِ آمین کی روایت اسلامی اقدار میں سے ہیں۔ بچے کو سب سے پہلے اﷲ کہنا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ بابا، ماما، دادا، دادی، نانا ،نانی اور دیگر قریبی رشتوں کے نام سیکھتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے جملے ادا کرنے لگے۔ یہ عمر تین برس کی ہوتی ہے۔ اب اُسے باقاعدہ پڑھنے کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بچے کو باقاعدہ کلام مجید پڑھانے کی ابتدا کو ’رسمِ بسم اﷲ ‘ کہا جاتا ہے۔ کلام مجید کے پڑھنے کا عمل بعض خاندانوں میں پر جوش طریقے سے ادا کیا جاتا ہے اس طرح کہ یہ ایک تقریب کی صورت اختیار کرلیتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس تقریب کو بے شمار لوگوں کو جمع کرکے ہی کیا جائے یہ والدین ،بہن بھائی ، دادا ، دادی، نانا ،نانی اگر چاچا ، تایا،ماموں یا خالائیں اورپھوپیاں بھی شامل ہوں تو اچھا ہے مل کر خوشی کا اہتمام کرسکتے ہیں لیکن یہ ضروری بھی نہیں۔ استطاعت اور گنجائش پر منحصر ہے۔ اسی طرح جب بچہ کلام مجید ناظرہ مکمل پڑھ لیتاہے تو ’رسمِ آمین‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اس بات کی خوشی کا اظہار ہوتا ہے کہ بچے نے الحمد اﷲ کلام مجید ناظرہ پڑھ لیا ہے۔ یہاں بھی تقریب ضروری نہیں ، مختصر تقریب بھی ہوسکتی ہے، بڑے پیمانے پر بھی اس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کوئی لازمی امر نہیں ، استطاعت اور گنجائش کی بات ہے۔ میر ے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان حکیم محمد سعید شہید کے حوالے سے تھا۔ یہ بات 2009ءکی ہے۔ تحقیق سے حکیم محمد سعید کی شخصیت کے حوالے سے بے شمار باتیں سامنے آئیں جن کو میں نے اپنی تحقیق کا حصہ بنایا۔ رسمِ بسم اﷲ اور رسم آمین کے حوالہ سے جو بات مجھے معلوم ہوئی اور وہ میں نے ان کی شخصیت کے باب میں درج بھی کی وہ کچھ اس طرح سے ہے ۔

”شہید حکیم محمد سعید کی رسم بسم اللہ 1922ءمیں تین برس کی عمر میں ادا ہوئی۔ ہندوستان کے معروف عالم مولانا احمد سعید نے قرآن مجید کی سورة خلق کی پہلی آیت پڑھائی۔ اس موقع پر بچوں کی نماز با جماعت کا بھی اہتمام ہوا۔ تقریب کے دولھا نے امامت کے فرائض سر انجام دیے اس طرح آپ (حکیم محمد سعید) بچوں کی جماعت کے امام ہوئے اور نماز عصر پڑھائی۔ تین برس کے حکیم محمد سعید نے جگت چچی کے گھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور صرف پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ختم کر لیا۔ ”رسم آمین“ کی تقریب کا اہتمام بھی بڑے پروقار طریقے سے ہوا۔ ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل ہو جانے کے بعد آپ کی والدہ نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا بیٹا اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آپ کوحوض قاضی، اجمیری دروازہ، دہلی کی اونچی مسجد’ مسجد گاڑی بان‘ میں قائم مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل کرا دیا گیا۔ مسجد کے پیش امام حافظ عمر دراز علی نے آپ کو قرآن مجید حفظ کر ایا۔ اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر نو برس تھی۔ 1927ءمیں آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ اس سے قبل آپ چھ برس کی عمر میں پہلا روزہ بھی رکھ چکے تھے“۔

میرا پوتا محمد صائم عدیل گزشتہ چار سال سے سعودی عرب کے شہر جدہ میں اپنے ابو امی کے ہمراہ مقیم ہے۔ کئی عمرے کرچکا ہے ،الحمد اﷲ گزشتہ برس صائم نے اپنے امی ابو کے ہمراہ حج کی سعادت بھی حاصل کر لی ۔ گویا اب انہیں حاجی صاحب کہاجاسکتا ہے جدہ کے پاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں کلاس سوم میں پڑھتے ہیں۔ یہ میرے بڑے بیٹے عدیل صمدانی کے بڑے صاحبزادے ہیں اور میرے پہلے پوتے بھی ہیں۔ محمد ارسل نبیل میرا دوسرا پوتا ہے جو میرے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر نبیل صمدانی کا بڑا بیٹا ہے ۔ میں اپنے ان دونوں پوتوں کا خاکہ الگ الگ تحریر کرچکا ہوں۔ جو اردو کی ویب سائٹ ’ ہماری ویب‘ پر آن لائن موجود ہیں۔ میرے خاندان میں اس قسم کی تقریبات کا رواج پایا جاتا ہے۔ آج سے کئی سال قبل جب میرے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر نبیل نے کلام مجید حفظ کیا تو اس کی ’رسم ِ آمین‘ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔جس میں خاندان کے احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔ اس وقت میرے والد اور والدہ دونوں حیات تھے۔ تقریب دادا اور دادی کے سائے میں منعقد ہوئی تھی۔ آج ہم اس مرتبہ اور اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، یہ بھی اﷲ کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ دن دکھایا ۔ ہمارے پوتے کی رسم آمین ہماری سرپرستی میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے لیے صائم کی دادی نے اپنے گھر واقع صفورہ چورنگی کے نذدیک’ شاہرہ کرن اسپتال‘ پر واقع ’اسکالہ کمیونٹی سینٹر‘ کا انتخاب کیا ۔ اس کمیونٹی سینٹر کو جو ایک شادی ہال بھی ہے یہ سعادت حاصل ہے کہ یہاں ہر سال رمضان المبارک میں مردوں اور خواتین کے لیے نماز تراویح کااہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس سال بھی اس سینٹر میں نماز تراویح میںکلام مجید پڑھا گیا۔کئی سال کے بعد اس سال قیام پاکستان کی تقریبات شایان شان طریقے سے منائی جارہی تھیں۔ رسمِ آمین کے لیے 13 اگست کا دن اس وجہ سے طے پایا کہ اس دن اسکالہ کمیونٹی سینٹر میں کوئی تقریب نہیں تھی۔ صبح یوم آزادی یعنی 14 اگست تھی، یوم آزادی کی تقریبات اپنی بہاریں دکھارہی تھیں ، ہر جانب سبزہلالی پرچم لہرارہے تھے۔ہر عمارت خوبصورت ، رنگین اور روشن قمقموں سے جگ مگ کررہی تھی، قومی نغموں سے فضاءگونج رہی تھی۔ رسمِ آمین جس ہال میں منعقد ہونے جارہی تھی وہ بھی چھوٹے چھوٹے قمقموں سے روشن تھا، بعد نماز عشاءتقریب میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہال میں پہنچنے والے سب سے پہلے مہمان صائم کے پردادا یعنی میرے چچا تھے، مغیث صمدانی اس وقت ہماے خاندان کے بزرگ ترین شخصیت ہیں۔ وہ میرے والد مرحوم کا پرتو ہیں ،میں انہیں دیکھ کر اپنے والد کی یادوں میں کھو جاتا ہوں۔ ماں باپ جیسی ہستی دنیا سے چلی جاتی ہے تو ان سے عقیدت و محبت زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے مجھے اپنی امی اور اباکی یاد اور ان کی باتیں زیادہ یاد آنے لگیں ہیں۔ میں اپنے گھر میںتو اس بات کا تو اظہار نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات بات پر جب بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو میری امی یا ابا سے تعلق ظاہر کرتی ہو تو میں ان کی یادوں کو اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہوں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب میری ان سے جلد ملاقات ہونے والی ہے۔ زندگی کا زیادہ سفر گزرچکا ہے ۔ مختصر زندگی باقی ہے دیکھیں اس کا اختتام کب ہوتا ہے اور میں اپنے والدین سے کب جا ملتا ہوں۔

بات اپنے پوتے صائم کی رسمِ آمین کی کررہا تھا۔ مہمان آچکے تھے۔ مہمانوں کو دو حصو ں میں ایک قنات نے تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک جانب پردہ دار خواتین تھیں دوسری جانب مرد حضرات تھے۔ ہال کی کشادگی اور دلکشی نے اس تقسیم کو جاذب نظر بنا دیا تھا۔ ویسے بھی یہ ایک مذہبی اور اسلامی اقدار کی حامل تقریب تھی۔ اسے مذہبی اقدار اور روایات کے ساتھ ہی منعقد ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے معاشرے میں اکثر برائیوں اور خرابیوں کی ایک وجہ خواتین کی حجاب سے دوری بھی ہے۔ قرآن نے خواتین کو واضح الفاظ میںپردے کا حکم دیا ہے۔پا کستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود اسلامی اقدار پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے قاصر نظر آتاہے۔ ہم چند سالوں سے ہر سال ہی سعودی عرب جارہے ہیں۔ خواتین با پردہ اور عباَ وقباَ میں نظر آتی ہیں۔ بازاروں میں ، شپنگ سینٹرز میں،تفریحی مقامات پر، اسپتالوں میں،ائر پورٹ پر الغرض ہر جگہ عباَپوش خواتین نظر آتی ہے۔ کہیں کوئی رکاوٹ ، پردہ یا عباَ خواتین کے کاموں میں حائل نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔اکثر احباب یہ کہتے ہیں کہ پردہ تو نظر کا ہوتا ہے، ظاہری طور پر اپنے آپ کو مخصوص لباس میں ڈھانپنے کا نام پردہ نہیں۔ان کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ واقعی پردہ نظر ہی کا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ہی قسم کی چیز دو پلیٹوں میں ڈھکی ہوئی ہو اور دوسری جانب وہی چیز ایک پلیٹ میں کھلی ہوئی ہو تو دیکھنے والے کی نظر فورناً کھلی ہوئی پلیٹ پر پڑے گی۔ کھلی ہوئی چیز پر گرد و غبار،مکھی مچھر بہ آسانی پہنچ جائیں گے جب کہ ڈھکی ہوئی چیز گرد و غبار کے علاوہ نظر بد سے بھی محفوظ رہتی ہے۔

خواتین کے لیے پردے کے احکامات کلام ِکریم کی دو سورتوں میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ سورة’ النور‘آیت31 میں خواتین کے لیے پردے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ، ترجمہ: ’اور اَے نبی ﷺ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ،اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ ظاہر ہوجائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنابناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے : شوہر،باپ، شوہروں کے باپ، اپنے باپ ، اپنے بیٹے،شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں،اپنے مملوک،وہ زیر دست مردجو کسی اورقسم کی غرض نہ رکھتے ہوں،اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریںکہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘۔ قرآن کریم کی ایک اور سورة میں بھی خواتین کو منہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا۔ سورة’ الاحزاب‘ کی آیت59، ترجمہ: ’اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مُسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا کر( گھونگٹ نکال) لیا کریں ۔ یہ امر اُن کے لیے موجبِ شناخت( وامتیاز) ہوگا تو کوئی اُن کو ایزانہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہر مان ہے“۔اس حوالے سے متعدد احادیث مبارکہ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ترمذی ، ابو داؤد میں حدیث بیان ہوئی ’ایک مرتبہ آنحضرت محمد ﷺ کے پاس آپ ؑ کی شریک حیات حضرت اُمِ سَلَمہؓ اور حضرت مَیمونہؓ بیٹھی تھیں، اتنے میں حضرت ابنِ اُ مِ مکتومؓ آگئے۔ آنحضرت ﷺ نے دونوں بیویوں سے فرمایا: احتجبا منہ’ان سے پردہ کرو‘۔ بیویوں نے عرض کیا :یا رسول اﷲ الیس اعمٰی لا یبصرنا ولایعرفنا، ’یا رسول ؑاﷲ ! کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے‘۔ آپؑ نے فرمایا:افعمیا و ان انتما، الستما تبصرانہ، کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھتیں؟‘۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت آئشہ ؓ کے پاس ایک نابینا آیا تو انھوں نے ا ُس سے پردہ کیا۔ کہا گیا آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا؟ جواب میں اُم ّ المومنین نے فرمایا :لٰکنی انظر الیہ، ’میں تو اسے دیکھتی ہوں‘۔

کلام مجید کی سورة’ النور‘آیت31کی تشریح کرتے ہوئے مفسرِ قرآن سید ابوالا علیٰ مودُودی ؒ نے تفھیم القرآن میں ’باپ‘ کے لیے استعمال ہونے والے عربی کے لفظ ’ابآَئِ ‘کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ اس لفظ کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا،پَردادا، نانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت اپنی دَدھیال اور نَنھیال، اور اپنے شوہر کی دَدھیال اور ننھیال کے اِن سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آسکتی ہے جس طرح وہ اپنے والد اور خُسر کے سامنے آسکتی ہے‘۔ بعض خواتین اپنے بزرگوں کو جو احترام دیتی ہیں وہ عزت و احترام وہ اپنے شوہر کے بزرگوں کے لیے ان میں پایا نہیں جاتا جس کی تاویل یہ پیش کردی جاتی ہے کہ شوہر کے باپ کے علاوہ کسی اور بزرگ سے ان کا کیا رشتہ؟ حالانکہ شوہر سے رشتہ جڑ جانے کے بعد شوہر کے تمام رشتوں سے وہی تعلق قائم ہوجاتا جو شوہر کا ہوتا ہے۔ ان کی عزت و توقیر میں کوتاہی کم علمی کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔ پردہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر بہت زیادہ تحقیق و جستجو کے ساتھ قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بعض معاملات میں اختلافات بھی آڑے آجاتے ہیں۔ لیکن جو بات قرآن میں کہہ
دی گئی وہ ہرصورت میں پتھر پر لکیر ہے ، ہمارے لیے اس کا ماننا ، اس کا اقرار کرنا اور اس پر عمل کرنا لازمی امر ہے۔

تقریب کی ابتدا اﷲ کے نام سے ہوئی ، تقریب کے دولھا ہمارے پوتے محمد صائم عدیل نے سعودی لباس ذیب تن کیا ہوا تھا۔ یعنی انہوں نے ’توپ‘ یا جبہ پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت ہی حسین نظر آرہے تھے۔ فربہ جسم گول مٹول کہا جاسکتاہے۔ کبھی سرخ سفید تھے اب گندمی رنگ ، کتابی چہرہ، گلابی ہونٹ، بڑی بڑی آنکھیں، نکھرا نکھر، ہنستا مسکراتا چہرہ۔ان کی نانی نے ان کے گلے میں گلاب کے پھولوں کا ہار ڈالا، دادا کا حق اداکرتے ہوئے ہم نے بھی ایک عدد ہار انہیں پہنایا، اسٹیج پر موجود صائم کے تمام ہی بزرگ موجود تھے۔ رسم آمین کی تقریب کا آغاز ہوا۔ صائم نے بسم اﷲ کے ساتھ سورة فاتحہ،سورة النصر، سورة اللھب، سورة الاخلاص، سورة الفلق اور سورة الناس کی تلاوت کی۔ ہال میں موجود تمام ہی مہمانوں نے دولھا میاں کو دعاؤں سے نوازا، عدیل کے خالو محمد مکین قریشی نے دعا کرائی ۔ اس طرح تقریب کا اہم اور بنیادی مرحلہ اختتام کو پہنچا ۔ دوسری جانب کھانے کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔ مہمانوں کی تواضع گرما گرم کباب پراٹھے اور حلوے، گلاب جامن کے ساتھ کی گئی۔ اس طرح یہ پروقار تقریب اختتام کو پہنچی۔ (23اگست2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437254 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More