گزشتہ دنوں سینئر کشمیری حریت رہنما جناب
غلام محمد صفی نے ایک تقریب میں مدعو کیا جس کے مہمان خصوصی ڈنمارک میں
قائم ایک غیر سرکاری ادارے ’پاکستان ہاؤس ‘ کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر
حسین تھے۔ صفی صاحب نے شرکاء سے ان کا تعارف کرایا اور انہیں بھی بتایا کہ
یہاں مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت تنظیموں،تمام مکتبہ فکر کے نمائندے موجود
ہیں۔حریت کانفرنس کے اسلام آباد آفس میں منعقدہ اس تقریب میں رانا اطہر
حسین نے سوالات کے لئے یہ موضوع پیش کیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نوجوان
بڑی تعداد میں جدوجہد آزادی میں مصروف ہیں اور کشمیری نوجوان ہی سب سے
زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو درپیش
مسائل و مشکلات کے حوالے سے ان سے متعلقہ امور پر توجہ دینے کی بات کی۔اس
تقریب کا موضوع ’’ پروٹیکٹڈ یوتھ‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ۔رانا اطہر حسین
نے کہا کہ کشمیرکے اندر ہمارا مستقبل نوجوانوں سے ہے،اس کی حفاظت کرنا
ضروری ہے جوبہت مختلف انداز میں کرنا ہو گی۔مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں ،ظلم
کی صورتحال میں جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ یوتھ کی حفاظت کی فکر کی
جائے،اس کی ضروریات ،اس کے سماجی تحفظ ،اس کی عزت نفس کو محفوظ بنایا
جائے،وہ اس قابل ہو ں کہ دشمن کو ’’فیس‘‘ کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ معاشی
عدم استحکام معاشرتی طور پر انحطاط پزیری کا سبب بنتا ہے اس لئے ضروری ہے
کہ نفسیاتی’’ وار فیئر‘‘کو معاشی طور پر مفید کر دیا جائے۔سوشل میڈیا کے
دور میں اس کی اہمیت انسانی وسائل نوجوان ہی ہوں گے۔سیاسی آئیڈیا
لوجی،کردار سازی،’’آؤٹ آف بکس‘‘چیزیں ضروری ہیں،بد قسمتی سے کشمیر اشو کو
دنیا میں پزیرائی نہیں ملی ،ہم اپنی سوچ کو بدلیں ،حکمت عملی تبدیل کرنا ہو
گی۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے،ہم جنگ نہیں
چاہتے،ہمیں پروپیگنڈے کے حوالے سے نیا مواد تیار کرنا ہو گا۔شرکاء نے رانا
اطہر جاوید سے سوالات کئے۔میں نے ان سے سوال کیا کہ کشمیریوں کی جدوجہد پر
پاکستان کی پالیسیوں کا بڑا اثر پڑتا ہے،1949ء میں کشمیر میں جنگ بندی ہوئی
تو پاکستان اور بھارت کی دفاعی طاقت کاتناسب’’ ایک اور تین‘‘ کا تھا،جنگ
بندی کے دو تین سال بعد ہی یہ تناسب بڑھ کر’’ ایک اور نو‘‘ہو گیا،پاکستان
نے بھارت کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی کے ذریعے بالوا سطہ طور پر مقبوضہ کشمیر
پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کیا ہے، پاکستان کی کشمیر پالیسی کو واضح اور
موثر بنانے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے مختلف امور کی باتوں پر مبنی سوال کے
جواب میں انہوں نے ان اہم متعلقہ امور پاکستان کے تھنک ٹینک اور حکام کے
سامنے پیش کئے جانے کی یقین دہانی کرائی۔
کئی شرکاء نے ’’ پروٹیکٹڈ یوتھ‘‘ کے الفاظ کے استعمال پر اعتراض کیا کہ
بھارت کو کشمیری نوجوانوں کی طرف سے جدوجہد آزادی میں شمولیت کے بڑہتے
رجحان پر بہت زیادہ تشویش ہے، اس پر رانا اطہر جاوید نے وضاحت کرتے ہوئے
کہا کہ اس سے مراد متاثرہ کشمیری نوجوانوں کی سہولیات،دیکھ بھال کی فکر اور
اہتمام کرنا ہے۔ڈنمارک اور پاکستان میں قائم ’’پاکستان ہاؤس‘‘کے ڈائریکٹر
جنرل ایک تھنک ٹینک سمیت کئی اداروں کے رکن رانا اطہر جاوید کی طرف
سے’’پرٹیکٹنگ یوتھ‘‘کے حوالے سے بھارت کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف
نوجوانوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل اور جدوجہد آزادی کو مزید موثر
بنانے کے اقدامات پربات کی گئی۔’’ پروٹیکٹڈ یوتھ‘‘ کے الفاظ کے استعمال پر
انہیں اس کے وضاحت کئی بار کرنا پڑی۔سینئرکشمیری رہنما غلام محمد صفی نے
وضاحت میں کہا کہ ’’ پرو ٹیکٹڈ یوتھ‘‘ کا مطلب ان کو جدوجہد آزادی،شہادت سے
بچانے کے معنوں میں نہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں کو مایوسی سے،ہندوستانی
ثقافت کی یلغار سے،اکنامک پیکجز،’’آؤٹ آف بکس‘‘ کے نام پردیئے جانے والے
دھوکے سے محفوظ رکھنا،ہندوستان کے کشمیر پر غیر قانونی قبضے کے خلاف مزاحمت
کے جذبے کی حفاظت،نئی نسل کے تحفظ،بیواؤں،’’آدھی بیواؤں‘‘ اور یتیموں کا
تحفظ،نا صرف انفرادی بلکہ اجتماعتی سطح پر ،کشمیر کے ’’ کنفلکٹ زون‘‘میں
نئی نسل کی کردار سازی اور جدید ادب کی پیداواراس’’ تحفظ‘‘ کا حصہ ہیں،’’
پروٹیکشن‘‘ کا لفظ ہندوستان کی اس دلیل کے جواب میں استعمال کیا گیا ہے کہ
کشمیری رہنماؤں کو ،اپنی نوجوان نسل کوبچانا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے خلاف
مزاحمت نہ کریں،ہندوستان کی اس دلیل کے جواب میں یہ بات کی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے حوالے سے ''پروٹیکٹنگ
یوتھ'' کے لفظ کا استعمال اس حوالے سے مناسب نہیں کہ لوگ بینرز،پوسٹرز
وغیرہ پر ''پروٹیکٹنگ یوتھ'' کے الفاظ دیکھیں گے اور ان کے لئے ہر وقت کوئی
ان الفاظ کی تشریح کرنے والاموجود نہیں ہو سکتا۔بھارت ان دنوں اس شدید
پریشانی میں مبتلا ہے کہ پڑھے لکھے کشمیری نوجوان ایک بار پھر بھارتی
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔جبکہ یہ
کھلی حقیقت ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پرامن اور منصفانہ طور
پر حل کرنے کے بھر پور مواقع کئی بار مہیا کئے ہیں لیکن بھارت کشمیریوں کے
اس انداز کو کشمیریوں کی کمزوری سے تعبیر کرتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف ظلم و
ستم ،قید و بند اور قتل و غارت گری کی فوجی کاروائیوں میں کوئی کمی کرتا
نظر نہیں آتا۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی سیاسی جدوجہد کرنے والے کے خلاف
بھی بھارت ہر طرح کی ریاستی دہشت گرد کاروائیوں بدستور کرتا جا رہا
ہے،چناچہ خود بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور ظالمانہ ،غیر انسانی طرز عمل سے
کشمیری 'فریڈم فائٹرز'' کا آزاد ی کے لئے سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح
جدوجہد اپنانے پر مجبور کر رہا ہے۔یوں جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری
نوجوانوں کے حوالے سے اگر '' پروٹیکٹنگ یوتھ'' کی جگہ facilitating youth
کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے لئے اس طرح کی وضاحت اور تشریح کی
ضرورت باقی نہیں رہے گی جو '' پروٹیکٹنگ یوتھ'' کے الفاظ کے استعمال سے
ظاہر ہوتی ہے۔کشمیری گزشتہ تقریبا سات عشروں سے آزادی کے لئے بیش بہا
قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اور ان میں کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد اور
قربانیاں بالخصوص ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں،آزادی کی جدوجہد اور
قربانیاں دینے والے ان کشمیری نوجوانوں کی کسی نے بھی ان کی یوں مدد نہیں
کی جو ان کے مصائب ،مشکلات اور قربانیوں کا کسی حد تک ہی سہی،مداوا ہو
سکے،یوں کشمیری نوجوان ہر طرح کے غیر موافق حالات اور ہندوستان کے بدترین
مظالم کے باوجود اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک پنجابی شعر
میں کہا گیا ہے کہ باغوں کی بھرپور دیکھ بھال کے باوجود باغ اجڑ جاتے
ہیں،جنگلوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں کر تا لیکن وہ پھر بھی ہرے بھرے رہتے
ہیں۔
حریت کانفرنس آزاد کشمیر/پاکستان شاخ کے اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے
مختلف تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں تاہم ایک عرصے کے بعد ایسی کسی شخصیت نے
حریت کانفرنس کی تقریب میں شرکت کی جن کے روابط پاکستان کے پالیسی سازوں سے
بھی ہیں۔کشمیریوں میں پاکستان کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے کنفیوژن پائی
جاتی ہے کہ آخر پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے کیا؟عالمی سطح پر کئے گئے اقرار
کچھ اور ہیں ،بیانات میں کچھ اور کہا جاتا ہے،حقائق کچھ اور ہیں،بتایا کچھ
اور جاتا ہے۔یوں یہ بات تشویشناک ہے کہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف
کشمیری پاکستان کی کشمیری پالیسی سے لاعلم ہیں، اس بارے میں کئی تحفظات
رکھتے ہیں اور پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کشمیریوں کی مشاورت کا کوئی عمل
دخل نہیں ہے۔یوں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ پاکستان کے پالیسی
ساز کشمیریوں کو سنیں تاکہ پاکستان کی کشمیرپالیسی کو موثر بنانے کے لئے اس
میں کشمیریوں کی رائے،امنگوں کو بھی ’’ایڈجسٹ‘‘ کیا جا سکے۔ |