لاکھوں کا فیصلہ

جس معاشرے میں انصاف ختم ہو جاتا ہے ۔ وہ معاشرہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔ہر مذہب نے انصاف کے نظام کو اہمیت دی ہے ،خاص کر اسلام نے تو عد ل وانصاف کو اتنی اہمیت دی ہے جس کا آج ماڈرن دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علیؓکا فرمان ہے کہ کفر کے ساتھ تو معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔اسلام میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہے جس میں خلیفہ نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو سزائیں دی ہے۔ بنیادی مقصد صرف یہ باآور کرنا تھا کہ عدل و انصاف سب کے لیے برابر ہے کوئی قانون سے بالاتر نہیں قانون کے سامنے امیر و غریب کا فرق ختم ہو چکا ہے لیکن ہم جہاں دن رات یہ ورد کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اس ملک کوبنانے کا بنیادی مقصداسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کو انصاف مہیا کر ناتھا لیکن آج انصاف لینے کے لیے ملک میں کوئی ایسانظام موجود نہیں جس میں جاکر آپ کوانصاف ملے ۔ انگریز نے جو قانون چھوڑا تھا آج تک ملک میں وہی رائج ہے جس کے پاس پیسہ ہے وہ بہتر ین وکیل کر تا ہے بلکہ آج عام بات یہ مشہور ہے کہ وکیل کے بجائے جج کو خریدو۔ زیادہ تر پیسہ ان ہی لو گوں کے پاس ہوتا ہے جو زیادہ کرپٹ ہو ۔ملک میں احتساب کے نام پر ادارہ بنا ہے ۔ان کا زیادہ کیسوں میں ریکوری ریکارڈ پچاس اور ساٹھ فی صد ہے یعنی اگر آپ نے 50کروڑکی کرپشن کی ہوئی ہے تو25کروڑ جمع کرکے آپ کی جان چھوٹ جائے گی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ عدالتوں سے انصاف کی توقع ختم ہوتی جارہی ہے ۔کیسز سالوں سال چلتے ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہوتا اور اگر بدقسمتی سے کوئی فیصلہ ہوجاتا ہے تو وہ اعلیٰ سے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہوجاتا ہے اور کیس دوبارہ صفر سے شروع ہوجاتا ہے۔ملک کانظام ایسا ہے کہ ایک طرف آپ کا قتل ہوا ہوتا ہے تو دوسری طرف آپ کے پاس اگر لاکھوں روپے موجود ہے تو وکیل کر سکتے ہیں اور عدالتوں کے چکر لگا سکتے ہیں۔اگر نہیں تو قانون ن قدرت کا انتظار کریں اس کی تازہ مثال ہمارے سامنے لاہور میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقہ122 کی ہے جس میں تحر یک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے درخواست دائر کی تھی کہ الیکشن 2013میں میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کا فیصلہ کرنے میں ڈھائی سال گزر گئے ۔ یہ بھی نہیں کہ عمران خان ایک عام آدمی ہے اس لئے ان کو انصاف لینے میں اتنا عرصہ گز ر گیا بلکہ انہوں نے تو انصاف لینے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے جو کام حکومت کو کرنا چاہیے تھا جس کے لیے ادارے بنے ہیں اس میں آپ لاکھوں کا فیس جمع کرکے تحقیقات ہوتی ہے وہ بھی زیادہ تر شفاف نہیں بلکہ حکومتی مرضی اور منشاکو مدنظر رکھا کر رپورٹ یا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

ملک کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ عام آدمی نہ آگے آئے اور نہ ہی الیکشن میں حصہ لے بلکہ چور اور ڈاکوہی انتخابات میں حصہ لے اور ہمارے مقدر کے فیصلے کریں۔غریب پڑھ لکھے لوگ ہمیشہ پیچھے ہی رہے۔حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے شروع دن سے چار حلقوں کی بات کی تھی کہ چار حلقوں میں حکومت تحقیقات کر یں جس کے لیے حکومت تیار نہیں تھی اور آخرکار پی ٹی آئی نے دھرنا دیا اور چار حلقوں میں تحقیقات کے لیے کروڑں روپے جمع کیے اور وکیل کرائے تو تمام کو ششوں کے باوجود اب الیکشن ٹر بیونل کا فیصلہ آیا کہ حلقے میں دوبارہ الیکشن کرایا جائے ۔ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے بھی ان چار حلقوں میں سے خواجہ سعد رفیق کے حلقے کا فیصلہ آیا تھا کہ وہا ں پر بھی دھاندلی ہوئی ہے الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائیں۔ہمارا انصاف کا نظام دیکھیں کہ ڈھائی سال بعد تمام تحقیقات کے بعد فیصلہ ہوتا ہے اس کے بعد وزیر ریلوے سپریم کورٹ چلے جاتے اور عدالت سے سٹے آرڈر لے لیتے ہیں۔ آج بھی وہ ایم این اے اور وفاقی وزیر ہے۔ اسی طرح اب جو فیصلہ آیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نااہل ہو چکے ہیں ۔ حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے دوبارہ انتخابات کر ائے جائے تو اسپیکر صاحب سپریم کورٹ چلے جائیں گے اور سپریم کورٹ ان کو سٹے دے دے گی ۔ بس کہانی ختم ۔ اگر عمران خان کے پاس مزید دو تین کروڑ ہو تو سپریم کورٹ میں نئے سرے سے ایاز صادق کے ساتھ کیس شروع کریں اور مزید پانچ سال انتظار کر یں تو ٹھیک ورنہ ۔۔۔

انصاف کا کیانرالہ نظام بنا یا گیا ہے ایک طرف الیکشن میں دھاندلی تحقیقات کے لیے الیکشن ٹر بیونلز بنائے گئے ہیں کہ شکایت کرنے والے وہاں تحقیق کر یں ،فیس جمع کر یں، ثبوت دیں،اس کے بعد جب تمام مراحل مکمل ہوجاتے ہیں اوردو تین سال گزر جاتے ہیں اور فیصلہ آجاتا ہے تو فر یق سپر یم کورٹ سے سٹے آرڈر لے کر موچوں کو دھاؤ دیکر دو بارہ اپنے سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔یہ ہے انصاف کا نظام جس میں عام آدمی کبھی بھی آگے نہیں آسکتا ہے۔اس لئے تحر یک انصاف کے کار کنوں سے گزارش ہے کہ وہ زیاد ہ خو شیاں نہ منائیں، کل ایاز صادق صاحب سپریم کورٹ سے دوبارہ بحال ہوجائیں گے ۔ تحر یک انصاف والوں کو آنے والے الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے اور پارٹی میں تنظیم سازی کو بہتر اور پاور فل بنانا چاہیے تا کہ جب ان کی حکومت بنے تو جس نظام سے یہ لوگ اور کرڑوں پا کستانی متاثر ہورہے ہیں اس کو ٹھیک کر یں ۔عمران خان نے جس طرح انصاف لینے اور فیصلے کے لیے لاکھوں خرچ کیے یہ ہر بندے کا کام نہیں۔باقی الیکشن 2013میں دھاندلی کی بات ہے تو میں کئی بار لکھ چکا ہو کہ اس الیکشن میں تاریخ ساز دھاندلی ہوئی ہے جو ڈیشل کمیشن اس کو منظم د ھاندلی کہے یا نہ کہے لیکن د ھاندلی ہوئی ہے اور ریکارڈ ہوئی ہے جس کو آئند ہ الیکشن میں روکنے کے لیے بھی کوئی اقدامات آج تک نہیں ہوئے ہیں۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226234 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More