نجکاری

آج کل نجکاری کا جن بوتل سے باہر نکلنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہا ہے ا ور آخر کار نکل ہی جانا ہے۔ حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ وہ جن کو نکلنے کے لیے ہر نوع کے وسائل فراہم کرے کیونکہ ہر ادارہ کینسر زدہ ہو رہا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ موذی مرض اداروں کے اعضائے رئیسہ کو ناکارہ بنانے میں اس لیے کامیاب ہوتی جا رہی ہے کہ اس میں نہ صرف نوکر شاہی بلکہ سیاستدانوں کی بہترین دوست جمہوریت بھی شامل ہے۔ ملک عزیز کی بدقسمتی ہے کہ جمہوریت ہر نظام پر غالب آچکی ہے۔ نظریہ نجکاری کے مخالفین نے بھی کمر کس لی ہے اب دیکھئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ تقریباً 18بڑے صنعتی ادارے نجکاری کی زد میں ہیں جن کے لیے اقتصادی ماہرین سر جوڑ کے سوچ و بچا ر میں مصروف ہیں فیصلہ قریب ہے

کسی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور انتخابات جیتنے کے بعد سوشلزم کے سیاسی اور معاشرتی اصولوں اور ان کے نام لیواؤں کا جو حشر بنایا تھا وہ تو بنایا ہی تھا ، خود مذکورہ نعرے کی آڑ میں ایک اور نعرہ لگا ڈالا تھا اور یہ نعرہ’’ ملی جلی معیشت‘‘ کا نعرہ دے کر اشتراکی معیشت کے اصول اور تصور تو مسخ کر ہی دیے گئے تھے ۔ کرپٹ اور نااہل نوکر شاہی کے ہاتھوں میں ملکی معیشت کے کلیدی اور بنیادی مالیاتی اداروں کے ساتھ تو چھوٹے موٹے صنعتی ادارے بھی دے کر درپردہ وطن عزیز میں صنعت کاری کے تدریجی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ۔

کارکردگی کا معیار گرا کر جعلسازی کا جال بچھایا گیا ۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا گراف بڑھایا گیا ۔ کالے دھن کو ترغیب اور دھمکی اس بھونڈے انداز میں دی گئی کہ اصل سرمایہ بھی نظروں سے غائب ہو گیامعیشت کا صد فی صد بیڑا غرق کرنے کے ساتھ ساتھ اسی ہڈ حرام نوکر شاہی نے 1977ء میں ضیاء الحق کے ساتھ مل کر جو جمہوریت دشمن کھلا آمرانہ ڈھونگ رچایا وہ تاریخ کا رستا ہوا ناسور بن کر رہ گیا۔پاکستانی صنعتکار اتنے بزدل بے دست و پا بن کر رہ گئے یا بنا کر رکھ دئیے گئے کہ اپنا تاریخی طبقاتی کردار ہی ادا نہیں کر پا رہے ۔ حد تو یہ ہے کہ وہ خود اور ان کے بچے اغواء کروا لیے جاتے ہیں تو وہ خاموشی سے تاوان ادا کر کے آجاتے ہیں اور پھر چھپتے چھپاتے ادھر اُدھر پھرتے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان میں سے کچھ بہترین کارکردگی کے انعامات لینے کے لیے استقبالیہ تقریبات میں بھی آنے سے کترانے لگے ہیں ۔

ہمارے صنعتکار انڈسٹری کی سنچریاں بنانے کا ہنر جانتے ہیں اور یہ سب کچھ مزدور کے خون سے ہوتا ہے ۔ آج کل مزدوروں کو ٹھیکے پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اوور ٹائم یا پیس ورک کے جال میں پھنسا کر ماہانہ تنخواہ 2500 روپے جبکہ 20000اوور ٹائم یا پیس ورک کا لالچ دیا جاتا ہے ۔ متعدد صنعتیں اس اصول پر کاربند ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ اس لیے کہ زیادہ تر بڑی بڑی صنعتیں ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں کی ہیں۔ اس لیے مزدور مجبور ہو کر اپنی روٹی کمانے میں مصروف ہے اور اُف تک نہیں کرتا ۔

ملک میں صنعتکاری کا عمل انتہائی سُستی کا شکار ہے ۔ لوڈ شیڈنگ نے بھی صنعتی عمل کا جنازہ نکال رکھا ہے ۔ توانائی کی پیداوار کا عمل بھی انتہائی سُست روی کا شکار ہے ہمارے حکمران اس بحران پر قابو پانے کے لیے شب و روز مصروف نظر آتے ہیں ۔ مگر دہشت گردی اور سیاسی افرا تفری نے حکمرانوں کے ہوش و حواس اڑا کے رکھ دیے ہیں وہ بے چارے کیا کریں ان کا کوئی بس نہیں چل رہا۔ اسی وجہ سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب تک جمہوریت کے پاؤں مضبوط نہیں ہوں گے صنعتکارکا پہیہ سُست روی کا شکار رہے گا۔ اس طرح معاشی اور اقتصادی صورتحال بھی دگر گوں رہے گی اور بے چارے مزدوروں اور کسانوں کی قوت ـخرید بھی کم ہوتی چلی جائے گی اور غربت ہمیں ناکوں چنے چبوائے گی۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ رب العزت ہماری مدد فرمائے۔ ہمارے سیاستدانوں میں یکجہتی کا عنصر پیدا فرمائے ۔ صورتحال ٹھیک کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
 
Maqsood Anjum Kamboh
About the Author: Maqsood Anjum Kamboh Read More Articles by Maqsood Anjum Kamboh: 38 Articles with 32702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.