جوہری پروگرام ’’رول بیک‘‘ کی داستان

محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی دوسری میعاد کے دوران کرنل (ر) شجاع خانزادہ واشنگٹن میں پاکستان کے ملٹری اتاشی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ایک انگریزی اخبار میں شائع شدہ ایک کالم میں تفصیلاً بتایاگیا ہے کہ کس طرح انہوں نے ہمارے جوہری پروگرام کو رول بیک ہونے سے بچانے میں کردار ادا کیا تھا۔ 1994ء میں جب ہمارے اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد واشنگٹن پہنچا تو امریکی حکومت کے ساتھ ان کی ملاقات سے قبل خانزادہ صاحب نے جنرل کاکڑکو بتا دیا کہ جن ایف 16طیاروں کی پاکستان قیمت ادا کر چکا ہے لیکن پریسلر ترمیم کے تحت جن کی حوالگی عمل میں نہیں آرہی انہی کی حوالگی کے بدلے میں اب محترمہ جوہری پروگرام بندکرنے پہ رضا مند ہو گئی ہیں۔خانزادہ صاحب کے بقول اگلے دن جب جنرل کاکڑ پاکستانی سفارت خانے گئے تو وہاں انہوں نے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''جوہری پروگرام کی بندش یاانجماد میری لاش پر ہی کیا جاسکے گا۔ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھیں گے۔کسی قسم کا سمجھوتہ اس حوالے سے نہیں کیا جائے گا‘‘۔ دوسری طرف اسلام آباد میں محترمہ نہایت برانگیختہ تھیں کہ امریکیوں کے ساتھ ان کے اس خفیہ معاہدے کے بارے میں آرمی چیف کو کس نے خبر دے دی ہے۔ چنانچہ خانزادہ صاحب کو حکم ہوا کہ وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر اگلے چوبیس گھنٹوں میں امریکہ سے نکل جائیں۔
اصل بات یہ ہے کہ1989ء یعنی اپنی حکومت کی پہلی میعاد میں ہی محترمہ ہمارے ملک کے خفیہ اور نو زائیدہ جوہری پروگرام کے سلسلے میں امریکی دباؤ میں آگئی تھیں۔یہ جون کی ایک چلچلاتی دوپہر کی بات ہے، ہم نے ایک امریکی پروٹوکول افسر کا یہ اعلان سنا کہ وزیر اعظم صاحبہ پہنچ گئی ہیں۔یہ سنتے ہی ہم اپنے دیگر صحافی ساتھیوں کے ہمراہ بڑے جوش کے ساتھ باہر کی جانب لپکے۔ ان کے ہوائی جہازکو دیکھتے ہوئے ہمارے دلوں میں فخر وانبساط کے جذبات موجزن تھے۔ جہاز جب نیچے آنے لگا تو اس کے اوپر لہراتا ہوا پاکستانی جھنڈا ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا۔اسے دیکھ کر ہمارا احساسِ فخر فزوں ترہو گیا۔ واشنگٹن ڈی سی سے باہر واقع اینڈریو ایئر فورس بیس پر ہم انتظار میں قطار باندھے کھڑے تھے۔ جہاز کا دروازہ کھلا اور محترمہ باہر تشریف لائیں۔اس وقت ان کی عمر چھتیس برس تھی۔انہوں نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور سر پر سفید دوپٹا اوڑھا ہوا تھا۔ننھا سا بلاول بھی ان کی گود میں تھا۔ ان کے بالکل عقب میں ان کے شوہر آصف زرداری کھڑے تھے جو قدر ے بدحواس دکھائی دے رہے تھے۔ان کے پیچھے پھر ان کے وفد میں شامل دیگر لوگ یعنی وزرا، سیاستدان، میڈیا والے اورکئی ایک قریبی دوست کھڑے تھے۔ ان کی بہن صنم بھٹو بھی اپنے شوہر سمیت محترمہ کے وفد میں شامل تھیں۔ڈاکٹر سیٹھنا نامی خاتون پارسی ڈاکٹر جن کے ہاتھوں بلاول کی پیدائش عمل میں آئی تھی، وہ بھی اس وفد کا حصہ تھیں۔ سبھی بہت خوش نظر آ رہے تھے۔جلد ہی محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر جیفر سن میموریل کی جانب چل دیں جہاںا مریکی صدر جارج بش، خاتون اول باربرا بش سمیت ان کی آمد، کا انتظار کر رہے تھے۔اگلے دن وائٹ ہاؤس کے مشہور روز گارڈن میں ہونے والی پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے ہم صبح صبح پہنچ گئے۔چند ہی ثانیوں بعد1600 پینسلوینیا ایونیو یعنی وہ جگہ جو دو صدیوں سے امریکی صدورکی رہائش گا ہ رہی ہے، وہاں ہم نے دنیا کے طاقت ور ترین آدمی کو ہمارے ملک کی نوجوان، خوبصورت اور کرشماتی شخصیت کی حامل وزیر اعظم کا خیر مقدم کرتے دیکھا۔ہرے رنگ کے لباس میں وہ دمک رہی تھیں۔ یہ ایک تاریخی خیر مقدم تھا اور دونوں رہنماؤں کی تقاریر بھی متاثر کن تھیں۔ریاستی سطح پر محترمہ کا یہ پہلا امریکی دورہ تھا اور امریکی صدر ان کے ایک مشفق بزرگ معلوم ہو رہے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں اپنی یادوں کا تذکرہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ بھٹو صاحب کو گلاب کس قدر پسند تھے۔امریکی صدر کے توصیفی کلمات سنتے ہوئے محترمہ مسکرا رہی تھیں۔ امریکی صدر نے انہیں گلابوں کا تحفہ بھی دیا۔

بعد ازاں رات کی تقریب میں محترمہ ہرے رنگ کا گھاگرا اور بھاری زری کے کام والی قمیض او ر دوپٹا زیب تن کئے قیامت ڈھا رہی تھیں۔ وائٹ ہاؤس کی سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ کسی ملکہ سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔سیاہ رنگ کی بوٹائی لگائے امریکی صدر بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان کے پیچھے آصف زرداری صاحب چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے ایک بلوچ شاہزادے جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ ان کی پگڑی ان کے شانوں تک پھیلی ہوئی تھی۔محترمہ کی بہترین کارکردگی ابھی ہمیں دیکھنا تھی۔واشنگٹن میں اپنی آمد کے اگلے دن انہوں نے کانگرس کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ خطاب یادگار اس لئے رہا کہ اس کے دوران تیس مرتبہ اراکینِ کانگرس نے انہیں کھڑے ہوکر داد دی۔ہم صحافیوں کو اوپر پریس گیلری میں بٹھایا گیا تھا اور بہترین نشستیں دی گئی تھیں۔ اوپر سے ہم سبھی کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔محترمہ سر پر سفید دوپٹا اوڑھے سیاہی مائل ہلے بھورے رنگ کی سلک کی پھولدارشلوار قمیص میں ملبوس کسی ملکہ کی طرح معلوم ہورہی تھیں۔ان کے سر پر کوئی تاج تو نہیں تھا لیکن ان کا دماغ ضرور مدبرانہ تھا۔ایوان میں ہر جانب سے ان پہ داد و توصیف کی بارش ہو رہی تھی۔

چار برس بعد سیمور ہرش نے ایک حیران کن انکشاف کیا۔ 29 مارچ 1993ء کودی نیویارکر میںانہوں نے لکھا کہ پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس میں بتایا تھا کہ جوہری ہتھیار ہمارے پاس ہیں نہ ہی ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری پالیسی ہے۔ ان کے اس بیان پر دونوں ایوانوں کے اراکین نے انہیں پر زور داد دی تھی۔محترمہ کچھ عرصے سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں علم رکھتی ہیں۔ اس بارے میں انہیں تفصیلی بریفنگ سی آئی اے کی جانب سے دی گئی تھی۔1989ء میں محترمہ کے اس پہلے پانچ روزہ سرکاری امریکی دورے میںہم رپورٹرزبھی ان کے ہمراہ تھے لیکن ان پانچ دنوں کی جواصل کہانی بعد میں ابھر کر سامنے آئی اس کے بارے میں ہمیں قطعی کوئی علم نہیں ہو سکا تھا۔نیویارکر میں اپنے مضمون میں سیمور ہرش نے تفصیلاً ان پانچ دنوںکے حالات و واقعات کا ذکر کیا کہ کس طرح سی آئی اے کے ڈائریکٹرنے محترمہ کو تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ خود اپنے ہی جوہری پروگرام کے بارے محترمہ کو بہت کم معلومات دی جا رہی تھیں، ان کیلئے ویلیم ویبسٹر نے پاکستان کے جوہری بم کے ڈھانچے کی پوری نقل تیار کر دی تھی۔محترمہ نے بعد میں یہ بھی کہا تھا کہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔سی آئی اے کی بریفنگ زیادہ تفصیلی تھی۔ اس سے ظاہر تھا کہ یہ سب کچھ ان کے پس پشت کیا جا رہا تھا۔ اگلے دن صدر جارج بش نے محترمہ کو کہا کہ امریکی امداد کا تسلسل ان کی جانب سے اس یقین دہانی سے مشروط ہو گا کہ ان کی حکومت جوہری بم کی تیاری کے آخری مرحلے کو صاد نہیں کہے گی۔ امریکی صدر نے یہ تک کہا کہ گو پاکستان نے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایف 16 طیاروں میں جوہری ہتھیار نصب کئے ہیں، لیکن وہ پھر بھی پاکستان کو ساٹھ مزید ایف 16طیارے دے دیں گے۔ یعنی اس سب کے باوجود یہ سودا ہو جائے گا۔ تاہم پاکستان کو وہ ایف سولہ طیارے کبھی نہیں ملے بلکہ ان طیاروں کی رکھوالی اور دیکھ بھال کی مد میںپچاس ہزار ڈالر ماہانہ کی ادائیگی بھی ہماری جانب سی ہوتی رہی۔ اس دوران یہ طیارے ایریزونا کے صحراؤں میں بس بے کار پڑے قدامت کا شکار ہوتے رہے۔ ان طیاروں کی قیمت پاکستان نے 1993ء میں ادا کی تھی۔آخر کار کلنٹن انتظامیہ کے دوران 1998ء میں پاکستان کو 464 ملین ڈالر واپس دئیے گئے، یہ رقم بھی زیادہ تر سامان ہی کی صورت میں تھی۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.