پاکستان بھی ترقی کرسکتا ہے!
(عابد محمود عزام, Karachi)
پاکستان دنیا کے ایک ایسے حصے
میں واقع ہے جہاں قدرت کی طرف سے عطیہ کیے گئے بے شمار انمول خزانے موجود
ہیں۔ قدرت نے اسے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ پاکستان کا ہر صوبہ اپنی
اپنی جگہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب کی زمین بہت زرخیز ہے، جو زراعت
کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ سندھ قدرتی گیس اور معدنی ذخائرکے لحاظ سے جانا
جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان برف کے پگھلاؤ، پہاڑ، جنگلات اور
قدرتی وسائل گیس، جپسم اورکوئلے کے اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس
افرادی قوت کی فراوانی ہے۔ خصوصاً نوجوان جو ہر قوم کو ترقی کی راہ پر
ڈالتے ہیں، ان کی وافر تعداد ہے۔ اس کے باوجود پاکستان ترقی کرتا ہوا
دکھائی نہیں دیتا، بلکہ مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ملک کو
درپیش مسائل کی ایک طویل فہرست ہے۔
پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے۔گزشتہ دس سالوں میں ہزاروں انسانی
جانیں اس عفریت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔
توانائی کا بحران بھی ملک کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ کئی
سالوں سے ملک مسلسل بجلی اور گیس کی شدید قلت کا شکار ہے۔ بجلی وگیس کی
لوڈشیڈنگ نے ملک کی کئی صنعتوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ سرمایہ دار
اپنا پیسہ بیرون ملک لے گئے ہیں۔ صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری اور غربت
جنم لے رہی ہے اور اس کے باعث ملک میں ڈاکا، چوری، لوٹ مار، بھتا خوری اور
دیگر کئی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ کرپشن ملک کا درد سر بن چکی
ہے۔ کوئی کام بھی کرپشن کے بغیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ بااثر شخصیات کے
غیرقانونی طور پر سیکڑوں ارب ڈالر کے اثاثہ جات سوئس، امریکا، برطانیہ،
ملائیشیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اسپین اور متحدہ عرب امارات سمیت مختلف
غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے ملک میں ٹیکس چوری عام ہے۔
چند لاکھ لوگوں کے سوا کوئی بھی ٹیکس جمع نہیں کراتا۔ ٹیکس ادا نہ کرنے
والوں میں بااثر افراد کی بہتات ہے۔ درپیش مشکلات کی وجہ سے ملک ترقی نہیں
کر پا رہا۔ ملک آج بے بہا مسائل کا شکار ہے، جن سے چھٹکارہ تب ہی مل سکتا
ہے، جب ہمیں کوئی ایسا لیڈر میسر آئے، جو حقیقت میں ملک کو ترقی کی راہ پر
ڈالنے کی ٹھانے۔
اگر ہمارے حکمران سیکھنا چاہیں تو مہاتیر محمد کی مثال سامنے رکھ سکتے ہیں،
جس نے مسائل میں پھنسے ملایشیا کی باگ ڈور سنبھالی اور اسے ترقی کی راہ پر
ڈال دیا۔ ملایشیا دنیا کا غریب ترین ملک تھا، وہاں غربت، افلاس اور بیروز
گاری کا راج تھا اور اپنے ہمسایوں انڈونیشیا اور فلپائن سے بھی زیادہ غریب
اور مفلوک الحال تھا۔ چالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر
مجبور تھے۔ ملک میں وسائل کچھ زیادہ نہ تھے۔ صرف ٹن، ربڑ اور پام آئل جیسا
خام مال باہر بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا تھا۔ ملک کا کوئی بھی
ادارہ ترقی کرتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سیاست، معیشت اور تعلیم سمیت تمام
شعبے دن بدن دم توڑ رہے تھے۔ دور دور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی
بھی نہ دے رہے تھے۔ یہ 1980کا آغاز تھا کہ دنیائے سیاست کے عالمی چہرے پر
ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ظہور ہوا۔ وہ اقتدار کی مسند تک جا پہنچا اور 22 سال
لوگوں کی محبتوں نے اسے مسند اقتدار سے اترنے نہ دیا۔ مہاتیر محمد نے جب
ملایشیا کا اقتدار سنبھالا تو دنیا کے منظر نامے میں اس کا ملک اک نئی
پہچان کے ساتھ نمودار ہونے لگا۔ ملک کے حالات دیکھتے دیکھتے بدلنے لگے۔ جو
ملایشیا صرف خام مال پیدا کرکے اپنا گزارا کرتا تھا، وہی ملایشیا
الیکٹرونکس، کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر
کی برآمدات کرنے لگا۔ 2300ڈالر فی کس آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر
کمانے لگ گیا۔ تعلیم سے محروم اسی ملک کے 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔
ملایشیا کی سیاست مستحکم اور مضبوط ہوگئی۔ معیشت و تجارت میں روز افزوں
ترقی ہونے لگی۔ وہاں غربت کا نام و نشان مٹ گیا، لوگ خوشحال ہوگئے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد1981 سے لے کر 2003 تک مسلسل ملک کے وزیر اعظم رہے۔ وزیر
اعظم بننے کے بعد اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی یافتہ قوم میں بدلنے کا
ایجنڈا پیش کیا، جو پبلک پالیسی مہاتیر محمد نے اختیار کی، اس کی بنیاد درج
ذیل سیاسی فلسفے پر قائم تھی۔ مشرق کی تہذیبیں جن اخلاقی اور روحانی اصولوں
پر قائم ہیں، امریکا اور اہل مغرب اس فکری شعور سے نابلد ہیں۔ مہاتیر محمد
کے نزدیک ریاست آئین اور قانون کی پاسداری اور ریاست کا نظام خود احتسابی
پر قائم ہونا چاہیے۔ وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام ہو اور نظم و ضبط میں
کسی قسم کی جھول برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ مغرب سے ہوشیار رہنا چاہیے،
کیونکہ وہ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ انسانی
حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ مہاتیر محمد کے
برسراقتدار آنے سے اس کے چھوڑنے تک لوگ ان سے محبت کرتے رہے اور جب انھوں
نے اقتدار چھوڑا تو لوگ رو رو کر کہہ رہے تھے کہ آپ اقتدار نہ چھوڑیں، مگر
ان کا کہنا تھا کہ آنے والی نسلوں کو قیادت سونپنا چاہتا ہوں۔
انھوں نے اس قدر محنت اور لگن سے کام کیا کہ اپنی قوم کو اوج ثریا پر پہنچا
دیا۔ مہاتیر محمد عوام سے اٹھ کر آئے تھے اور اپنے آپ کو عوام کے سامنے
جواب دہ سمجھتے تھے۔ مہاتیر محمد خود اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ اکثر
سوچتا ہوں کہ میں نے ترقی کا جو خواب دیکھا ہے، وہ پندرہ سال بعد پورا
ہوگا۔ اگر اگلے چار سال کے لیے میں منتخب نہ ہوا تو کیا ہوگا، عوام کو کیا
جواب دوں گا؟ عوام کے سامنے پیش ہونے کا یہی خوف اسے ملایشیا کی تقدیر
بدلنے پر مجبور کرتا رہا۔ مہاتیر محمد 1963کے آئین کے مطابق برسراقتدارآئے
اور پھر جانے تک اس میں ایک بھی ترمیم نہیں کی، حالانکہ جتنے لوگ ان سے
محبت کرتے تھے، وہ فائدہ اٹھاتے ہوئے تاحیات وزیر اعظم رہنے کی ترمیم کر
سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مہاتیر محمد جانے لگے تو لوگوں کی خواہش تھی کہ
وہ ہم پر حکمرانی کرتے رہیں۔ جب کہ انھوں نے یہ سوچا کہ اقتدار اپنی قوم کو
سونپ دینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو سب کچھ دیا ہے، جس کی بدولت ہم بہت جلد ترقی
کی منازل طے کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے لیڈر پاکستان کو ترقی کی راہ پر نہیں
لے جاسکے، کیونکہ ان کا مقصد صرف اپنے خزانے بھرنا ہے۔ اسی لیے قوم کو ان
سے محبت نہیں اور پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی حکمران اپنا
دور اقتدار ختم کر کے جاتا ہے تو لوگ اس کے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے
ہوئے مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ ہماری قوم ان کے جانے پر کیوں خوش ہوتے ہیں؟
مہاتیر محمد کی طرح ان سے محبت کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاتیر
محمد اور میرے ملک کے لیڈروں میں بہت فرق ہے۔ ہمارے لیڈر عوام سے محبت نہیں
کرتے، جب کہ مہاتیر محمد کو اپنی قوم کے عوام سے محبت تھی، اسی لیے قوم بھی
اس سے محبت کرتی تھی۔ مہاتیر محمد نے اپنے عوام کو حکمرانی کرنے کا موقع
دیا، جب کہ میرے ملک کے حکمران اس وقت تک اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے
ہیں، جب تک ان میں ایک بھی سانس باقی ہو۔ اگر خود حکمرانی کرنے کے قابل
نہیں رہتے تو اپنی اولاد کو قوم پر حکمران بنا دیتے ہیں۔ پاکستان بھی
ملایشیا کی طرح ترقی کرسکتا ہے۔ بس قیادت کا فرق ہے۔ کسی قوم کو قیادت
مہاتیر محمد جیسی مل جاتی ہے اور کسی کو ہمارے حکمرانوں ایسی قیادت نصیب
نہیں ہوتی۔ |
|