پلٹ کر آنے والی بیماری زیادہ خطرناک ہوتی ہے

یرقان جس کو عرف عام میں پیلیا بھی کہا جاتا ہے کے بارے میں سنا ہے کہ اس بیماری میں پہلی دفعہ کے علاج کو مکمل نہ کیا جائے اور ضرورت کے مطابق آرام نہ کیا جائے تو یہ بیماری جب پلٹ کر دوبارہ آتی ہے تو زیادہ خطرناک ہو تی ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ زخمی درندہ نارمل حالت سے زیادہ خونخوار ہوجاتا ہے ۔ایم کیو ایم کے خلاف جب بھی آپریشن ہوا اس کو سیاسی مصلحتوں کے باعث درمیان میں ہی ادھورا چھوڑ دیا گیا اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم پہلے سے زیادہ خوفناک شکل میں سامنے آئی ۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنے بھی آپریشن شروع ہوئے وہ ایم کیو ایم کے مطالبے پر شروع کئے گئے پھر بعد میں ایم کیو ایم ہی اس کے خلاف واویلا کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔موجودہ آپریشن میں تو خود الطاف حسین صاحب نے بار بار فوج کا مطالبہ کیا تھا بلکہ اپنی ایک تقریر میں فوج آئے گی ۔۔۔فوج آئے گی کی گردان کو لہک لہک کر گایا تھا ۔

19مئی1992میں جو آپریشن شروع ہوا اس سے 6ماہ قبل ایم کیو ایم کے سربراہ لندن چلے گئے تھے انھیں کچھ سن گن مل گئی تھی ،اس آپریشن میں ایم کیو ایم کا دوسرا گروپ حقیقی کے نام سے سامنے آیا اور الطاف گروپ کے کارکنان نے پہلے تو روپوشی اختیار کر لی ،تھوڑے عرصے بعد دونوں گروپوں میں خونریز تصادم شروع ہو گیا ۔شروع میں تو آپریشن کی کچھ سختی رہی تو تمام کرمنل لوگ چھپے رہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپریشن کی سختی میں کچھ کمی ہونا شروع ہوئی تو جن کے خلاف آپریشن شروع ہوا وہ قہر بن کر نازل ہونا شروع ہو گئے ۔ہزاروں نوجوان آپس کے تصادم میں تاریک راہوں میں مار دیے گئے ۔اس پہلے آپریشن میں ایم کیو ایم نے اپنا غصہ اپنے ان باغیوں پر نکالا جو انھیں چھوڑ چکے تھے ۔آفاق احمد اور عامر خان کے علاوہ سارے نمایاں لوگ حقیقی کے مار دیے گئے ۔صرف ماردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اذیت رسانی اور ٹارچر کے ایسے ایسے خوفناک طریقے اختیار کیے گئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن لوگوں نے جرائم کیے تھے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جاتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔سیاست کی بھول بھلیوں میں ہم اس مقام پر آگئے کہ اب تک دو پارٹی نظام چل رہا ہے اور کچھ عرصہ پہلے تک بلکہ پرویز مشرف کے مارشل لاء سے قبل اقتدار کی غلام گردشوں میں طاقت کا توازن ایم کیو ایم کے پاس رہا1992 کاآپریشن ان ہی وجوہات کی وجہ سے ناکام ہو گیا کہ آئی جے آئی کا صدر جب کراچی آتا تو اپنے جنرل سکرٹری پروفیسر غفور سے ملنے کے بجائے سیدھا نائن زیرو پر جا کے اپنی حاضری لگاتا۔

یہی وہ دور تھا جب محترم صلاح الدین صاحب اور حکیم سعید جیسے دانشوروں کو شہید کیا گیا اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی انھوں نے صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ کیا ۔اور ہلکا پھلکا آپریشن بھی چلتا رہا اسی دوران پھر حکومت تبدیل ہوئی اور بے نظیرصاحبہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں ۔بے نظیر صاحبہ کو اپنے پہلے دور حکومت میں ایم کیو ایم سے کافی زخم لگ چکے تھے جس میں سب سے اہم عدم اعتماد کی تحریک میں خاموشی سے ایم کیو ایم کا اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیناتھا لیکن اس کے علاوہ اس دور میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے کارکنان کا ایک دوسرے کو اغوا کرنے کا سلسلہ بھی تھا پھر فوج نے دونوں پارٹیوں کے درمیان مصالحت کرایا اور ایک دوسرے کے شدید زخمی مغوی کارکنان کو بازیاب کرایا کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکنا ن کودیوار کے ساتھ کھڑا کرکے ان کے سروں پر گولیاں ماریں کے ان بھیجے دیوار پر چپک گئے ،جس کا بہت سخت نوٹس لیا گیا ۔بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں نصیر اﷲ بابر وزیر داخلہ تھے اس دور میں ایک بار پھر ایم کیو ایم کے خلاف سنجیدگی سے آپریشن کا آغاز کیا گیا ،اس میں سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں ان لوگوں کو ہٹایا گیا جو تنظیم کے نٹ ورک پر چل رہے تھے انھیں اندرون سندھ بھیج دیا گیا کچھ لوگوں نے استعفے دے دیے ۔اس دفعہ فوج اور رینجرز کو استعمال کیے بغیر پولیس کے ذریعے سے آپریشن شروع کیا گیا ۔ایم کیو ایم کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ پولیس ایم کیو ایم کے کارکنان کو ماورائے عدالت قتل کررہی ہے دوسری طرف ایسا بھی ہوا کہ غریب غیر مہاجر مزدوروں کی جن کی تعداد پندرہ تھی ایک جگہ سے لاشیں ملیں جن پر یہ پرچی لگی تھی یہ نصیراﷲ بابر کے لیے تحفہ ہے ۔اس زمانے میں کھجی گراؤنڈ نے بڑی شہرت حاصل کی تھی کہ یہاں پر باقاعدہ دہشت گردوں کی طرف سے پھانسی گھاٹ بنایا گیا تھا جہاں پر مخالفین کو لا کر پھانسیاں دی جاتی تھیں۔چونکہ اس دفعہ کے آپریشن میں پولیس کو استعمال کیا جارہاتھا اس لیے اس زمانے میں ایم کیو ایم کے سربراہ کی طرف سے بارہا یہ اخباری بیان سامنے آیا کہ ہم پولیس والوں سے اپنے کارکنان کا بدلہ لیں گے ،ابھی یہ آپریشن چل ہی رہا تھا کہ 1996میں صدر فاروق لغاری نے آئین کی دفعہ 58-2Bکا استعمال کرکے اپنی پارٹی کی وزیر اعظم کو حکومت سے بے دخل کردیا ۔بے نظیر کی حکومت تبدیل ہوتے ہی نہ صرف آپریشن رک گیا بلک گاڑی الٹ رخ پر گھومنے لگی نواز شریف کی حکومت میں ایم کیو ایم کو ریلیف ملا کیونکہ نئے انتخابات میں نواز شریف کو حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت تھی اس لیے ان کو ریلیف دینا ضروری تھا ۔ایم کیو ایم در اصل کراچی کے نوجوانوں کی اس احساس محرومی کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی کہ جس میں کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ ملازمتوں اور داخلوں میں کوٹہ سسٹم کے نام پر زیادتی اور ناانصافی ہورہی تھی پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ احساس محرومی کے ردعمل میں قائم ہونے والی تنظیمیں اس احساس محرومی کو ختم کرنے کے بجائے مزید اس کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں اس لیے کہ ان تنظیموں کی زندگی اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ معاشرے میں احساس محرومی نہ صرف قائم رہے بلکہ یہ روز بروز بڑھتی رہے۔

1999میں جب پرویز مشرف صاحب نے اقتدارپر قبضہ کیا تو شروع میں تو ایم کیو ایم کی ان سے بنی نہیں ،لیکن پھر دوستی ہو گئی اور ہوئی بھی تو ایسی ہوئی کے پرویز مشرف کے پورے دور حکومت میں ایم کیو ایم کو اتنی کھلی چھوٹ ملی کہ ایک زخمی شیر کے مانند اس دفعہ پولیس پر حملہ آور ہوئی یہ بات اس لیے لکھی جارہی ہے کہ ابھی حال ہی میں رینجرز نے ایم کیو ایم کو 187ٹارگٹ کلرز ایک فہرست دی ہے جن پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے پولیس والوں کا قتل کیا ۔بہر حال یہ بات تو بالکل اظہر من الشمس ہے کہ دوسری دفعہ کے ادھورے آپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا سارا غصہ ان پولیس والوں پر اترا جنھوں نے 1992کے آپریشن میں حصہ لیاتھا ۔

ان دو ادھورے آپریشن کے نتیجے میں اس شہر میں جو ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ملے گی ۔ایک پولیس آفیسر کو تو اس طرح مارا گیا کہ مسجد میں خطبہ جمعہ سن رہا تھا ایک نوجوان آیا اور اسے پھولوں کا گلدستہ دیا وہ اس کی طرف متوجہ ہوا دوسری طرف کے نوجوان نے سائلنسر والی پستول سے اسے موت کا گلدستہ پیش کر دیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ ریاستی اداروں نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہاس دفعہ کے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے ۔ اگر اس آپریشن کو نامکمل چھوڑ دیا گیا تو سمجھ لیجئے کہ پلٹ کر آنے والی بیماری زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔

اسلام آباد میں مذاکرات چل رہے ہیں جس میں مولانا فضل الرحمن ،اسحاق ڈار اور نواز شریف صاحب ایم کیو ایم سے ان کے استعفے کی واپسی کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں ایم کیو ایم کے 19مطالبات ہیں دوسری طرف نواز شریف صاحب کراچی میں واضح طور سے یہ کہہ چکے ہیں کراچی آپریشن کو روکا نہیں جائے گا ۔جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں ہو سکتا ہے اس وقت تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہو گا ۔ کسی کی ایم کیو ایم سے مخالفت نہیں بلک شکایت اس کے پرتشدد رویے سے ہے بالکل اسی طرح کہ آپ بیمار سے نفرت نہیں کرتے بلکہ اس کی بیماری سے نفرت کرتے ہیں ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.