مؤذن مرحبا! بروقت بولا
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
جب سے نریندرا مودی نے بھارت
کے سیاسی افق کو گہنایا ہے شائنگ انڈیا کے پھیر میں اپنے اپنے ملکوں سے
اپنا سرمایہ اٹھا اور چھپا کے انڈیا پہنچنے والے سرمایہ دار حیران اور
پریشان ہیں کہ مودی کا طرزِ سیاست ان کے لائے سرمائے کا کیا حشر کرے
گا۔مودی کے ماضی سے سبھی آگاہ ہیں۔گجرات میں ہزاروں نہتے اور مظلوم و معصوم
مسلمانوں کا جیسے انہوں نے قتل عام کیا۔امریکہ سمیت ساری دنیا نے اس ظلم پہ
بھارت اور مودی کی مذمت کی اور امریکہ نے تو ان کے اپنے ملک پر آنے پر بھی
پابندی لگا دی۔عالمی سیاست کے رنگ لیکن نرالے ہیں۔مودی بھارت کے وزیر اعظم
بنے تو اسی امریکہ نے آگے بڑھ کے انہیں اپنے ہاں مدعو کر لیا۔ وجہ اس کایا
پلٹ کی یہ تھی کہ خطے میں امریکہ کو چین کے مقابل ایک اتحادی درکار
تھا۔پاکستان کے تو چین کے خلاف کسی منصوبے میں حصہ دار بننے کا سوال ہی
پیدا نہیں ہوتاتھا اس لئے مودی سرکار امریکہ کی خطے میں واحد چوائس بن کے
رہ گئے۔مودی سمجھے جیسے انہوں نے گجرات میں مسلمانوں کا خون بہایا تھا ویسے
ہی وہ پاکستان کا بھی حشر نشر کر کے رکھ دیں گے۔
مودی نے حلف اٹھاتے سمے دنیا کو دکھانے کے لئے سارک کے سارے ممالک کے
سربراہان کو اپنی تقریب حلفِ وفاداری میں مدعو کر لیا۔سکم بھوٹان سری لنکا
مالدیپ نیپال تو خیر کس شمار وقطار میں تھے کہ بادشاہ سلامت کی خواہش کی
تکمیل نہ کرتے ۔خطے کے عوام کو امید تھی کہ شاید پاکستان اس حلف برداری کی
تقریب میں اپنے عزت و وقار کے ساتھ ہی شامل ہوگا۔وائے بدقسمتی کے پاکستان
کے موجودہ حکمران تاجر پہلے ہیں اور حکمران بعد میں۔ہمارے وزیر اعظم اپنا
مال بیچنے کے چکر میں اس کمال پھرتی سے وہاں پہنچے کہ سفارتی آداب تک کو
اٹھا کے طاق پہ رکھ دیا۔مودی چائے بیچنے والا بنیا ہے اسکے نزدیک ان
پھرتیوں کی کیا قدر۔انہوں نے وہاں بھی وزیر اعظم صاحب کو پوری طرح ان کی
اوقات میں رکھنے کی پوری سعی کی۔ویسے بھی اگر کسی ملک کا وزیر اعظم اپنے
مصدقہ دشمن ملک میں جا کے لوہے کے تاجروں کے گھر حاضری دے گا تو اس کا کیا
قدر رہ جائے گی۔وزیر اعظم نے مودی کو اس تقریب میں اپنے منصب سے بہت نیچے
جا کے مسکا مارنے کی کوشش کی لیکن کمینے کو کبھی عزت راس نہیں آتی۔ادھر
وزیر اعظم اپنے ملک پہنچے ادھر مودی سرکار نے کنٹرول لائن پہ بمباری کا
سلسلہ شروع کر کے نہتے اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام شروع کیا۔نہ نواز کی دی
گئی ساڑھیاں کام آئیں اور نہ بھیجے گئے میٹھے عام مودی سرکار کی پاکستان
دشمنی کی کڑواہٹ کو مٹھاس میں بدل سکے۔پاکستان کی سیاسی حکومت کے
معذرتخواہانہ روئیے اور امریکی شہہ نے بھارت کو علاقائی غنڈے کے کردار میں
بدل دیا۔درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ایک کے بعد ایک مودی سرکار اپنا اصلی
رنگ دکھاتی گئی۔
روس کے شہر اوفا میں جہاں دنیا میں نئی حد بندیاں اور نئے اتحاد وجود میں آ
رہے تھے وہاں بھارت کی خواہش پہ دو طرفہ مذاکرات پہ تو اتفاق ہوا لیکن
کشمیر کے ذکر کو دانستہ حذف کر دیا گیا۔یہ کتے کو کنویں میں رکھ کے پانی کے
ڈول نکالنے والی بات تھی۔شاید بات آگے بڑھانے کو پاکستان نے یہ بات بھی مان
لی۔یہ مذاکرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو ہونے تھے۔روایت رہی ہے کہ جب بھی پاکستان سے
کوئی سفارتی وفد بھارت جاتا ہے تو وہ حریت کانفرنس کے کشمیری قائدین سے
ملاقات کرتا ہے۔بھارت نے پیشگی شرط لگا دی کہ پاکستانی مشیر خارجہ ان
کشمیری قائدین سے ملاقات نہیں کریں گے اور بات چیت صرف دہشت گردی کے معاملے
ہی پر ہو گی۔بھارت کا کہنا تھا کہ دوطرفہ معاملات میں کشمیر تو کہیں کوئی
مسئلہ ہی نہیں۔
پاکستان زروع دن ہی سے بنئیے کی سازش کا شکار رہا ہے۔بھارت کے بہت سیکیولر
اور لبرل حکمرانوں نے بھی کبھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں
کیا۔مودی تو سر عام پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اس پہ ایٹم بم گرانے
کی بات کرتے رہے ہیں۔اس سرکار کے زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی پاکستام میں را
کی سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔تاریخ میں پہلی بار آپریشن ضرب
عضب کی وجہ سے بھارتی سرکار اور اس کی خفیہ ایجنسی کا مکروہ چہرہ دنیا کے
سامنے یوں آیا ہے کہ عالمی برادری بھی حیران وششدر ہے۔اس سے قبل تو
پاکستانی حکمران را اور بھارت سرکار کی پاکستان میں مداخلت کا نام لئے بغیر
یوں ذکر کرتے تھے جیسے ہماری دیہاتوں کی کنواریاں اپنے منگیتر کا ذکر کیا
کرتی ہیں۔ضربِ عضب کی کامیابی نے بھارت کے عزائم کو یوں آشکار کیا ہے کہ اب
نام لئے بغیر چارہ نہیں رہا۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ اگر بھارت کے عزائم
آشکار ہیں تو کیا ایٹمی ملک کی اشرافیہ میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ ہم نام لے
کے کم از کم اس کی مذمت ہی کر سکیں۔اسی پریشر کی وجہ سے شاید اب حکومت بھی
مجبور ہو گئی ہے کہ وہ کھل کے بھارت کے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات
کرے۔قوم تو پہلے ہی اس موقف پہ حکومت کے ساتھ تھی ۔اب حکومت نے بھی ایک
واضح موقف اپنایا ہے تو غیور پاکستانی عوام کے چہرے بھی مسرت سے کھل اٹھے
ہیں۔پم تو شروع ہی سے اپنے دشمن کو پہچانتے تھے اور ہیں لیکن حکومت کو شاید
اب احساس ہوا ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے وقت نہیں گذارا جا سکتا۔
بھارت کے ترجمان وزارت خارجہ وکاس سوروپ نے کہا تھاکہ سرتاج عزیزضرور تشریف
لائیں لیکن حریت رہنماؤں سے ملاقات نہ کریں۔پاکستان نے اس پیشگی شرط پہ بجا
طور پہ اعتراض کیا تو بھارت نے سرے سے مذاکرات ہی کی منسوخی کا اعلان کر
دیا۔بھارت نے حریت رہنماؤں رلی گیلانی اور شبیر شاہ کو گرفتار تو کر لیا ہے
لیکن انہوں نے پاکستانی حکومت کو بھارتی قید سے بھی ڈٹے رہنے کا پیغام
بھیجا ہے۔اﷲ کا صد شکر ہے کہ ماضی کی طرح حکومت کا رویہ اس بھارتی حرکت پہ
معذر ت خواہانہ نہیں۔پاکستان نے بجا طور پہ بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر
خارجہ طلب کر کے اپنے مؤقف سے آگاہ کر دیا ہے۔بھارت صرف دہشت گردی اور وہ
بھی جس کا الزام وہ پاکستان پہ دھرتا ہے کے متعلق بات کرنا چاہتا ہے جبکہ
پاکستان دہشت گردی سمیت جامع مذاکرات جس میں مسئلہ کشمیر سر فہرست پہ گفتگو
کا خواہاں ہے۔بھارت مذاکرات کا ڈھونگ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کی خاطر رچا رہا تھا اور پھر اس کے بزرجمہروں کا خیال یہ بھی تھا
کہ حسب روایت پاکستان اس بار بھی مذاکرات کے لئے روئے گا گڑگڑائے گا اور
بھارت کی شرائط پہ مذاکرات کی حامی بھر لے گاجیسا کہ اس نے اوفا میں دو
طرفہ سربراہ ملاقات میں کشمیر کا ذکر نہ کر کے کیا تھا۔
اب کی بار لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ ضرب ِ عضب نے ہمارے حکمرانوں کو بھی
کچھ اعتماد بخشا ہے اور پہلی بار مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اخباری نمائندوں
سے بات کرتے ہوئے را کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت لہرائے ہیں بلکہ اس
سے بھی ایک قدم آگے جا کے بھارتی لیڈروں کی ہزلیات کے جواب میں محترم سرتاج
عزیز نے فرمایا کہ پاکستان مسلمہ ایٹمی طاقت ہے اور ہم اپنا دفاع کرنا
جانتا ہے۔حضور ! شکریہ کرم مہربانی۔مودی جس قماش کا آدمی ہے وہ یہی زبان
سمجھتا ہے۔یہ ایل کے اڈوانی کی نسل سے ہے۔ذرا یاد کیجئیے ایٹمی دھماکے کر
کے اس نے پاکستان کی طرف منہ کر کے اس نے کتنی بھڑکیں ماری تھیں ۔جونہی
پاکستان نے جوابی دھماکے کئے تو بنیا خوف سے دھوتی گیلی کر بیٹھا
تھا۔بھارتی ہندو یہی زبان سمجھتا ہے اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام بھی یہی
چاہتے ہیں کہ ہم معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے انہیں انہی کی زبان میں جواب
دیں۔آپ پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کے بولے۔آپ کا
شکریہ۔
ـموذن مرحبا، بروقت بولا
تیری آواز مکے اور مدینے |
|