خبرکا زوال … سیف و سبو

وقت کے دھول اڑاتی ہوئی یادوں کی ہوا جب بھی چلتی ہے تو ماضی کے کنیوس پر کچھ تصویری کہانیاں ابھر آتی ہیں۔ انسان کی عمر جب ڈھلنا شروع ہوتی ہے تو وہ آئے روز ’’ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا‘‘ والی کیفیت سے دو چار ہوجاتا ہے۔ یونہی میں بھی ماضی کی یادوں میں ڈوباہوا یہ سوچ رہا تھا کہ 1980 یا اس سے پہلے کا زمانہ صحافتی نکتہ نظر سے کافی مشکل دور تھا ایک صحافی کو خبر لانے کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑتی تھی اور شدید محنت کے بعد ہی اسے کوئی ’’سکوپ‘‘ حاصل ہوتا تھا۔ اگر آج کے دور سے اس دور کا موازانہ کیا جائے تو صورتحال بالکل مختلف ہے۔ آج کل خبریں آپ کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ انٹر نیٹ اور کمیونیکیشن کی انقلابی تبدیلیوں نے بہت کچھ بدل دیا ہے اگرچہ اس ترقی نے میٹریل کے معیار پر بھی فرق ڈالا ہے اور زرد صحافت کے لفظی معنوں کو بھی عملی جامعہ پہنایا ہے تاہم اس کے باوجود معلومات تک رسائی کو بھی بہت زیادہ آسان بنادیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 1988 میں بے نظیر بھٹو جب پہلی مرتبہ حکومت میں آئیں تو انہوں نے ایئرمارشل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان کی سربراہی میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے سیاسی مداخلت کو ختم کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا اس کمیشن کی طرف سے جو سفارشات مرتب کی گئیں تھیں وہ بے نظیر بھٹو کو پیش ہونے سے قبل میرےہاتھ آگئیں تھیں۔ اس وقت یہ بہت بڑی خبر تھی۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اس ٹوہ میں لگی ہوئیں تھیں کہ وہ سفارشات سب سے پہلے ان کے ہاتھ آجائیں، یہ میرا پہلا بڑا سکوپ تھا۔ کبھی کبھی ایسا دن بھی آتا ہے جب بڑی خبروں کا کال پڑجاتا ہے اور نیوز ایڈیٹر ہیڈ لائن کی تلاش میں رپورٹروں سے بھی پوچھ لیتا ہے کہ ان کے پاس تو کوئی خبر نہیں ہے۔ اس روز میں جب دفتر پہنچا تو سے سب سے پہلے چیف رپورٹر نے مجھ سے دریافت کیا کہ کوئی خبر ہے آج آپ کے پاس؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ میرے پاس آج ہیڈلائن ہے وہ تجسس میں مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا خبر ہے لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں ابھی آپ کو نہیں بتاسکتا ہوں میں یہ خبر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے فائل کردوں گا۔ وہ نیوز ایڈیٹر کو میری میز پر لے آئے اور انہوں نے بھی مجھ سے خبر کے متعلق دریافت کیا تو میں نے انہیں وہی جواب دیا جو میں پہلے اپنے چیف رپورٹر کو دے چکا تھا تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق چاہی کہ خبر واقعی ہیڈلائن لگنے کے قابل ہے جس پر میں نے انہیں اس بات کی مکمل گارنٹی فراہم کی کہ یہ خبر نہ صرف ہیڈلائن ہے بلکہExclusiveبھی ہے۔ مجھے ڈرتھا کہ اگر یہ خبر میں پہلے فائل کردیتا تو کچھ ایجنسیاں جو اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی انہیں اس کی خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے تنگ نہ کریں۔ مجھے یہ خبر کسی ’’سورس‘‘ کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ جہاں اس رپورٹ کو کتابی شکل دی جارہی تھی اور ایک پرائیوٹ پریس میں جسے عام پبلک کے لئے بند کردیا گیا وہاں ایک ایک دو دوپیپرلے جاکر پرنٹ کیاجارہا تھا وہاں مجھے کچھ دیر کیلئے رسائی حاصل ہوگئی تھی۔ میں نے مکمل رپورٹ تو نہیں دیکھی تھی تاہم ساری سفارشات سے متعلق ’’بلٹ پوائنٹس‘‘ میری نظروں کے سامنے سے گزرے تھے۔ وہ دور ایسی خبروں کو خفیہ رکھنے کا دور تھا اس لئے اخبارات میں ان سفارشات کی قبل ازوقت اشاعت
روایات کے بالکل خلاف بات تھی۔ وہ خبر جب میں نے فائل کی تو نیوز ایڈیٹر اور اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے چیف رپورٹر نے مجھے کہا کہ یہ تو واقعی بہت بڑا سکوپ ہے۔ تقریباً رات بارہ بجے جب میں اپنے دفتر سے گھر جانے کے لئے باہر نکلا تو باوجود اتنی احتیاط کرنے کے کچھ میزبان میری مہمانداری کے لئے وہاں موجود تھے جنہوں نے مجھے صبح تک اپنے شرف میزبانی سے سرفراز کیا۔ آج کل الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اور کچھ اخبارات میں دی جانے والی خبروں سے حیرت ہوئی ہے کہ یہ کیا ہے کیا واقعی یہ کوئی خبر تھی۔ سرخیاں ایسی جمائی جاتی ہیں کہ پتہ چلتا ہے کہ ناجانے کتنی بڑی اور دبنگ قسم کی خبر ہوگی لیکن بات وہی ہے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

شوشل میڈیا نے تو انتہا کردی ہے کچھ نیوز ویب سائٹ تو ایسی ایسی سرخیاں لگارہے ہیں کہ جن کا متن کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ بریکنگ نیوز کے نام پر لوگوں سےمذاق تو ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ بعض چینلوں پہ تو بارش کی اطلاع بھی بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی جاتی ہے۔ بعض اخبارات سنسی خیز سرخیاں جما کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں یقین نہیں ہوتا کہ لوگوں کے بیانات تک کو بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے اور دعویٰ سب سے بڑے اخبار ہونے کا کیاجاتا ہے۔ ایسے اخبارات اس وقت ان لوگوں کی بھوک تو مٹاتے ہیں جو بیانات اور اپنی تصاویر چھپوا کر ’’مشہور لیڈر‘‘ بننے کے خواہاں ہیں لیکن ایک معیاری اخبار کی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔ڈگڈی بجانے اوربندر نچانے کا یہ کھیل صحافت کے نام پر جاری ہے عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ کچھ نے تو الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھے ہوئے ان مداریوں نے اس افراتفری کے فروغ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ان مخصوص مداریوں کے پروگرام کا آغاز ہی سنسنی خیزی سے ہوتا ہے اور خود کو بہت پہنچا ہوا صحافی ظاہر کرتے ہوئے عوام کو وہ یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں جو کچھ پتہ ہے وہ اور کسی کو نہیں پتہ وہ بہت ہی باخبر ہیں۔ ایجنسیوں سے تعلقات کو میدان صحافت کے یہ شاہسوار اپنے اضافی تجربے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اسے معیاری صحافت کی گراوٹ کہیں یا کسی اور نام سے پکاریں کہ گذشتہ روز ایک چینل نے اعلان کیا کہ وہ کچھ دیر بعد تاریخ کی ایک بہت بڑے خبر سنانے جارہے ہیں۔ ناظرین متجسس ہوکر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے اور قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ وہ بڑی خبر کیا ہوگی جس کے بارے میں تاریخ کی سب سے بڑی خبر ہونے کا دعویٰ کیاجارہاہے۔ 10 سے 15 منٹ تک تو اسی چینل پہ بھی ڈنکا بجتا رہا کہ کچھ ہی دیر بعد تاریخ کی سب سے بڑی خبر آنے والی ہے اور پھر وہ خبر آگئی۔ ان کے چینل کے بانی سی ای او نے بیچ منجدھارمیں ڈوب جانے والے اس چینل کو خریدلیا ہے جو جعلی ڈگریوں کی آمدنی سے قائم ہوا تھا اور آن آئر آنے سے پہلے ہی بند ہوگیا تھا۔ یہ تھی وہ تاریخ کی سب سے بڑی خبر… خبر کو اس قدر زوال آئے گا یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا۔… اس بریکنگ نیوز نے یادوں کی ایسی ہوا چلائی کہ وقت کی دھول اڑنے لگی اور ماضی کے کنیوس نے کچھ تصویری کہانیوں کو ابھار دیا اور میرا قلم ایک کالم کے قلب میں ڈھلنے لگا۔
 
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32580 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More