مسلم مُکت بھارت کا منصوبہ ، ابتدأ بہار سے

 چند ماہ قبل ہندو مہا سبھا کے کار گزار صدر کملیش تیواری نے وزیراعظم ہند نریندر مودی سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیں ۔ اس کے لئے کاشی وشوناتھ مندر میں خصوصی پوجا کر کے بھارت کو مسلم مکت یعنی بھارت بغیر مسلمانوں کے ،بنانے کی شروعات کئے جانے کا پروگرام بنا یا گیا تھا ۔ یہ ایسی خبر تھی ، جس کی ملک کے امن پسند اور سیکولر لوگوں نے اس لئے کوئی خاص نوٹس نہیں لی کہ جب سے مرکز میں،بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے ۔ اس وقت سے نہ صرف ملک کے عام مسلمانوں ، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو مسلسل ہدف بنا کر آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعت مثلاََ بجرنگ دل ، شیو سینا ، وشو ہندو پریشد ، درگا وا ہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا ، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے منافرت اورفرقہ واریت سے بھرے غیر اخلاقی، غیر آئینی ا ور غیر جمہوری بیانات ، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ ایسے لغوبیانات کو عام طور پر ہذیان سے تعبیر کر نظر انداز کر دیتے تھے اور ایسا کرنا بھی چاہئے کہ ایسے غیر اخلاقی، غیر منصفانہ اور غیر مہذب بیانات کا مقصد ایک خاص طبقہ کو مشتعل کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے ۔
 
لیکن ابھی ابھی یوم آزادی کے موقع پر ریاست بہار ،جہاں بس چند ماہ میں ریاستی انتخاب ہونے والے ہیں،اس کے مد نظر حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات وزارت کی جانب سے ایک ایسا اشتہار بہار کے اخبارات میں شائع کرایا گیا ہے ، جسے دیکھ کر لوگ چونکنے پر مجبور ہو گئے ۔ یہ اشتہار انجانے میں نہیں ، بلکہ بہت سوچی سمجھی پالیسی کے تحت جاری کیا گیا ہے ۔ اس اشتہار میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے مختلف ادوار کے دس قابل فخر مجاہدین آزادی کی تصاویر ہیں ۔ ان دس مجاہدین آزادی اورمعمار بہار میں بابو کنور سنگھ ، راجندر پرساد، شری کرشن سنہا، جئے پرکاش نرائن ، بابو جگجیون رام، کرپوری ٹھاکر، بھولا پاسبان شاستری اور ان کے ساتھ ساتھ ہندی کے تین مشاہیر ادب رام دھاری سنگھ دنکر، پھنیشور ناتھ رینو اور بابا ناگرجن کی چھوٹی چھوٹی تصاویرکو وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی بڑی تصویر عقیدت سے پرنام کرتی نظر آ رہی ہے ، اور اس کے نیچے لکھا ہے․․․․․․․
ـ’’ یہ پاون دھرتی ہے ان کی ، جن سے اپنا اتہاس بنا ۔ نمن ان سپوتوں کو جن سے بھارت کا نرمان ہوا‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ایسے سرکاری اشتہارات پر لوگوں کی نگاہ کم ہی ٹھرتی ہے ۔بس ایک اوجھل سی نگاہ ڈال کر لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ لیکن ریاست بہار میں ہونے والے انتخاب کے باعث ہی اس اشتہار پر کچھ لوگوں کی توجہ مرکوز ہو گئی اور یہ دیکھ کر ویسے لوگ جو ہندو مسلم اتحاد واتفاق ، ایکتا ویکجہتی پر یقین رکھتے ہیں اور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آزادیٔ ہند کی لڑائی میں، جہاں ایک جانب بہار کے ہزاروں مسلمانوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے ، وہیں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے وطن عزیز کے لئے اپنی متاع حیات کی قربانیاں دی ہیں ۔ دارو رسن کی صعوبتیں کو ہنستے ہنستے برداشت کیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس فسانے (اشتہار) میں ایک بھی کسی مسلم مجاہد آزادی یا معمار بہار کی تصویر کو جگہ نہیں دی گئی ہے ۔
؂ ہم نے کیا خون جگر سے جسے رنگین میرا ہی فسانے میں کہیں نام نہیں ہے
بہار کے مسلم شہیدان وطن اور ملک کے لئے جان و مال لٹانے والوں کو اس طرح ذلیل و رسوا کیا جائیگا اور حرف غلط کی طرح اس طرح مٹانے کی منظم کوشش ہوگی ، ایسا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ جن لوگوں کی تصاویر اس اشتہار میں شامل ہیں ، بے شک ان کی وطنی و قومی خدمات اور ان کے ایثار و قربانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اشتہار ترتیب دینے والا یہ کیسے فراموش کر گیا کہ بابو کنور سنگھ کے ساتھ ساتھ مادر وطن کے لئے لڑنے والی بہار کی جھانسی کی رانی حاجی بیگم بھی تھیں ۔ ان کے بارے میں مشہور تاریخ داں پروفیسر آلوک مدھوک نے ایک جگہ لکھا ہے․․․
" No one know the heroic struggle of Haji Begum of sasaram against british forces. If history is written today ,she will turn out to be another Rani of Jhansi "
یہ بھی اتفاق ہے کہ مرکزی حکومت کے اسی اشتہار میں شامل سہسرام کی نمائندگی کرنے والے، بابو جگ جیون رام بذات خود حاجی بیگم کی عظمت کے معترف تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ اس علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں ، جہاں حاجی بیگم جیسی وطن پرست پیدا ہوئی تھیں ۔ اسی طرح راجندر پرساد کے ہمعصر، مجاہد وطن اور انگریزی اخبار ’مدر لینڈ‘ کے ایڈیٹر مولانا مظہرالحق کی خدمات بھی ،ان سے کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ اپنے مکان ’ صداقت آشرم ‘ کو جنگ آزادی کا مرکز بناے اور پھر اس وسیع و عریض بنگلہ کو آزادی ہند کے متوالوں کیلئے عطیہ کر دینے والے کی، قربانیوں کو کون فراموش کر سکتا ہے ۔ بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ شری کرشن سنہا بھی اسی دور کی پیداوار تھے ، جس دور میں محمد یونس، مظہر الحق ، شاہ زبیر اور ڈاکٹر سید محمود وغیرہ جیسے عظیم مجاہدین آزادی تھے۔ ان ہی لوگوں کے ساتھ ساتھ یاتھوڑا آگے پیچھے محمد شفیع داؤدی، سید محمد فخرالدین ، پروفیسر عبدالباری ،عبدالقیام انصاری، سید فدا حسین، احد فاطمی، شاہ لعل قادری، سید عبدالعزیز،سر علی امام ، سردار لطیف الرحمٰن ،مغفور احمد اعجازی وغیرہ جیسے بہارکے عظیم لوگوں نے بھی نے ملک و قوم کے لئے غیر معمولی طور پر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلا اور ملک کی تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش قائم کئے ہیں ۔ ان تمام مجاہدین آزادی اور معمار بہار کے ذکر کے نہ صرف بہار بلکہ ہندوستان کی تاریخ ادھوری ہوگی۔ ان مشاہیر بہار کی عظیم خدمات کو دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ کہا جا سکتا ہے کہ․․․․․․․
؂ ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک در و دیوار تم ہو تو بنیاد ہیں ہم
اب جہاں تک مزکورہ اشتہار میں شامل ہندی ادب کے تین جیّد ادیب وشاعر رینو، دنکر اور بابا ناگ ارجن کا تعلق ہے ، تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ․․․․․․
؂ سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
جیسا حب اوطنی سے سرشاراور مجاہدین آزادی کے دلوں میں جوش وجنون اور ولولہ بھر دینے والا، اور تحریک آزادی کے زمانہ میں پورے ملک کے ہر خاص و عام کی زبان پر رہنے والا ایسا خو بصورت اور بامعنیٰ شعر کہنے والے شاعر بسمل عظیم آبادی ( سید شاہ محمد حسن عرف جھبّو شاہ) اسی سرزمین بہار (بانکی پور، پٹنہ)کے تھے ۔ رسا ہمدانی گیاوی، ریاست علی ندوی، رضی عظیم آبادی ، اصغر امام فلسفی اور سہیل عظیم آبادی وغیرہ جیسے سرکردہ اردو کے ادیبوں ، شاعروں نے اپنا سب کچھ تیاگ کر اپنے تفکرات و اظہار بیاں سے جد وجہد آزادی کی لو کو تیز سے تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کہ ان کی قربانیوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ۔ اس اشتہار میں جس طرح بہار کسی ایک بھی مسلم مجاہدین آزادی اور معمار بہار کو منظم سازش کے تحت جگہ نہیں دی گئی ، وہ ہندو مہا سبھا کے
’’ مسلم مُکت بھارت ‘‘ کے حالیہ طےٗ کئے گئے خطرناک منصوبہ کو تقویت بخشتا ہے کہ یہ لوگ ہذیان نہیں بک رہے ہیں ، بلکہ ان کے ناپاک و غیر آئینی منصوبہ اور حکمت عملی میں، حکومت وقت کی رضا مندی اور پشت پناہی شامل ہے۔ اگر ہم مرکزی حکومت کے گزشتہ ایک سال کے کئے گئے منظر نامہ پر نظر ڈالیں ، تو ایسے سارے کے سارے عقدہ بڑی آسانی سے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ سوریہ نمسکار ، سرسوتی وندنا، گیتا پاٹھ اور یوگا وغیرہ جس طرح تہذیبی علامت بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ بہرحال ملک کی جمہوری قدروں کے بنیادی اصولو ں کے منافی ہیں ۔
کبھی مسلما نوں کی بڑھتی آبادی پر تشویش کیا جا رہا ہے ، کبھی گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کو ہندو مذہب قبول کئے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کبھی اپنے خون سے سینچے گئے ملک سے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے ۔کبھی بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ یوگی آدتیہ ناتھ کہتے ہیں ’ ایک کے جواب میں 100 مسلم لڑکیوں کو ہندو بناؤ‘ ، کبھی مودی کابینہ کی ایک وزیر نرنجن جیوتی فرماتی ہیں کہ ’ رام زادوں کا مقابلہ حرام زادوں سے ہے‘ ۔ کبھی بہار سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر مملکت گری راج سنگھ کا خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ’جو لوگ مودی کی مخالفت کرتے ہیں ، انھیں پاکستان چلے جانا چاہئے‘ حد تو یہ ہے کہ ایک رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج راشٹر پتا مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ گوڈسے نہ صرف شہید بلکہ سچے دیش بھکت بھی ہیں‘ ۔ ہندو سنت سماج ، جنرل اسمبلی کے قومی صدر سوامی رتن دیو مشر نے تو مسلمانوں کی قبرستانوں کو بھی ملک سے ختم کرنے کا مشورہ دے ڈالا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ملک میں اربوں روپئے کی زمین قبرستانوں کی شکل میں موجود ہے ، جس کی گھیرا بندی اور دیکھ ریکھ میں حکومت کے کافی روپئے خرچ ہوتے ہیں ۔ یہ پیسہ اکثریت کا ہے ، جسے قبرستانوں پر برباد نہیں کیا جانا چاہئے ، رتن دیو کا اس ضمن میں یہ بھی مطالبہ اور مشورہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی طرح آخری رسوم کے لئے چھوٹی جگہ دے دی جائے اور قبرستانوں کو ہندوؤں کی ملکیت قرار دی جائے ۔ دوسری جانب بھاجپا میں شامل ہوئے جمشید اشرف کی جانب سے پٹنہ کے کرشن میموریل ہال میں ’مسلم بیداری مہم‘ کے تحت بہار کے مسلمانوں کے اجلاس میں بہار کے نائب وزیر اعلیٰ رہے سشیل کمار مودی ، بہار کے مسلمانوں سے بھاجپا کی ہمدردی اور محبت کا احساس کراتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے وزیر مالیات رہتے ہوئے بہار کے 8500 میں سے 5500 قبرستانوں کی گھیرا بندی کے لئے پیسے دئے ۔ گویا اسی بات پر بہار کے مسلمان بھاجپا کو موجودہ انتخاب میں کامیاب کریں ۔ قبرستان کو ختم کرنے کے منصوبہ کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی شہہ پر ہندوستان کے مسلم بادشاہوں کی شاندار نشانیوں مثلاََ قطب مینار، لال قلعہ اور تاج محل وغیرہ کو بھی ہندوؤں کی تعمیر بتارہے ہیں ۔ مسلمانوں کی سنہری حروف میں لکھی تاریخ کومسخ کرنے کی منطم کوششیں بھی منظم طریقہ سے جاری ہیں ۔ مسلم بچوں کی مذہبی تعلیم پر قد غن لگانے کے لئے دینی مدارس پر بھی طرح طرح کی پابندیاں لگانے کی مذموم سعی ہو رہی ہیں ۔ اقلیتی طالب علموں کے آگے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے مرکزی حکومت کے ذریعہ اسکالر شپ کی تعداد کو سات لاکھ سے گھٹا کر پانچ لاکھ کر دیا گیا ہے ۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک سال کے اندر ملک میں اب تک چھوٹے بڑے 300 سے زائد فسادات ہو چکے ہیں ، جن میں 157لوگ مارے گئے اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔
اس مختصر منظر نامے کو دیکھنے کے بعد جس طرح نریندر مودی بار بار سوا سو کروڑ عوام کی باتیں کرتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں ’ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘ وہ بڑا مضحکہ خیز لگتا ہے ۔لیکن ان کے ایسے خوشنما اور سنہری خواب سے متاثر ہو کر ،ریاست بہارمیں بی جے پی حکومت قائم کرنے کے لئے بہار کے کئی سرکردہ لوگ مثلاََ سابق ممبر راجیہ سبھا اور جدیو کے رکن صابر علی ، جن کی گزشتہ، لوک سبھا انتخاب کے وقت بھاجپا میں شمولیت کے بعد مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ اب بھاجپا میں داؤد ابراہیم جیسے لوگ بھی شامل ہونے لگے۔ نیتیش حکومت کے ذریعہ بنائے گئے ، مدرسہ بورڈ کے سابق چئیرمین مولانا محمد اعجاز احمد ، جنھوں نے ابھی حال میں بھاجپا کا دامن تھام کرکافی فخر محسوس کر رہے ہیں ۔ بہار کے ایک سابق وزیر جمشید اشرف جن پر نیتیش کمار کی خاص عنایتیں تھیں ، اس کا صلہ انھوں نے دیا کہ وہ بہار کے موجودہ انتخاب میں بھاجپا کے ذریعہ چلائی جا رہی’ مسلم بیداری مہم کے سرپرست بن کر گاؤں گاؤں قریہ قریہ بھاجپا کے رتھ پر سوار ہو کر گھوم رہے ہیں اور بہار کے مسلمانوں کو بتا رہے ہیں کہ نریندر مودی مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں ۔ اسے ثابت کرنے کے لئے کئی مثالیں بھی دی جا رہی ہیں ۔ بی جے پی کا اقلیتی سیل بھی ، جس میں ڈاڑھی ٹوپی والے مولویوں اور مولاناؤں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، بہار کے انتخاب میں بھاجپا کی کامیابی کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہے۔ سیمانچل کے علاقہ میں نیتیش کمار سے ناراض چل رہے سابق رکن اسمبلی اور مسلمانوں کے درمیان اپنی شاندار تقریری صلاحیتوں سے بہت اچھا امیج رکھنے والے اخترالایمان نے گزشتہ 16اگست کوسیمانچل کے علاقہ کشن گنج میں آئی ایم آئی ایم کے مرکزی صدر اور رکن پارلیامنٹ اسدالدین اویسی کے ذریعہ فائیری تقریر کرا کر سنسنی پھیلا دی ہے ۔ اویسی کے سیمانچل میں رکھے قدم سے بہار سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر رام بلاس پاسبان بہت خوش ہیں اور اپنے بیان میں مسلسل تعریف کئے جا رہے ہیں ۔ دوسری طرف موجودہ کانگریس کے ممبر پارلیامنٹ مولانا اسرارلحق قاسمی ، جن کی حمایت میں جدیو کی جانب سے لوک سبھا کا انتخاب لڑنے کے لئے ملنے والے ٹکٹ پر نامزدگی کے بعدبیٹھ جانے والے اخترالایمان کی دعوت پر تشریف لائے اویسی کے متعلق پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچک محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ بہار اسمبلی میں مسلم ووٹ کو منتشر کرنے اور سیمانچل میں فرقہوارانہ سیاست کو فروغ دینے کے لئے بی جے پی اور آر ایس ایس مل کر سازش کر نے میں مصروف ہیں ، ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اویسی نے سیمانچل کے لوگوں کو گمراہ کیا ہے ۔
اس پورے منظر نامہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پھر یوم آزادی کے موقع پر مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کئے جانے والے مزکورہ اشتہار پر نظر ڈلی جائے ، تو ہمیں اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ مرکزی حکومت کا بہار کے موجودہ انتخاب میں مسلمانوں کے تئیں کیسی پالیسی اور کیسا لائحہ عمل ہے۔ ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے جس طرح ہمارے بعض مسلم رہنما، آر ایس ایس کے سیاسی عزائم اور مرکزی حکومت کے سیاسی نظام کے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے بھی اپنی فہم وفراست کی آنکھوں کو بند کئے ہوئے ہیں ، وہ اب بھی نہ جاگے تو بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں وہ کف افسوس ملتے رہ جائیں ،اور اس امر کا اعتراف کرنے پر خود مجبور نہ ہوں کہ لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی۔
’’ نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ائے ہندوستاں والو ․․․․تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 122287 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More