دو روز قبل پاکستان کے ہونہار سیاستدان ’’عزت مآب جناب
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید‘‘ کا بیان بلکہ ’’بیان شریف‘‘
مجھ سمیت بے چارے پاکستانیوں پر بجلی بن کر گرا، ہونہار بِروا کے چکنے چکنے
پات کے مصداق وزیر اطلاعات و نشریات کے چکنے چکنے پات سے عوام اب با خبر ہو
چکی ہے، وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا ایک سوال کے جواب میں فرمانا
تھا کہ ’’پاکستان پر بھارتی جارحیت میرا مسئلہ نہیں ، میرا مسئلہ عمران خان
ہیں‘‘بندہ سینیٹر پرویز رشید سے پوچھے کہ اگر پاکستان پر بھارتی جارحیت ان
کا مسئلہ نہیں ہے تو وہ کس حیثیت سے ملک کی کلیدی وزارت کا قلمدان سنبھالے
بلکہ زبردستی ہتھیائے ہوئے ہیں؟یا میاں صاحب نے انہیں صرف تحریک انصاف اور
عمران کی اطلاعات بروقت پہنچانے کیلئے وزیر اطلاعات رکھا ہوا ہے؟پرویز رشید
کے بیان پر بس نہیں موصوف وفاقی وزیر کے ساتھ ساتھ ان کے ہم نوالہ و ہم
پیالہ وزراء اور اہم حکومتی رہنما آج کل مضحکہ خیز بیانات کے مقابلے میں
ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں لگے ہوئے ہیں، مملکت خداداد میں اگر کوئی اس
وقت پاکستانیوں سے پوچھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے کم از کم
مجھ جیسے نا سمجھ لوگ ’’سیاستدانوں کے بیانات‘‘ کو سب سے بڑا مسئلہ ضرور
قرار دیں گے۔
پاکستان کا روایتی دشمن بھارت آئے روز پاکستانی سرحدوں پر در اندازی کر رہا
ہے اور دوسری جانب پاکستانی وزراء کے غیر ذمہ داران بیانات سامنے آ رہے
ہیں،ان بیانات کا کیا مطلب ہے؟ ذرائع کے مطابق یہ بھی شنید ہے کہ بارڈر پر
کشیدگی کی صورتحال کچھ ’’اپنوں‘‘ ہی کی خواہشات کا نتیجہ ہے، اب وہ ’’اپنے‘‘
کون ہیں یہ خدا ہی بہتر جانے یا خدائی فوجدار۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کرتا
دھرتاؤں کی حالیہ بے چینی بلا وجہ نہیں بلکہ ان کا اپنا کیا دھرا ان کے
سامنے آ رہا ہے، مسلم لیگ نواز پچھلے ایک دو ماہ میں اپنی سیاسی پوزیشن کو
خاصا مضبوط کر گئی تھی لیکن’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں‘‘ کے مصداق
مشاہد اﷲ خان اور دیگر ہمنواؤں کی مہربانیوں نے نواز لیگ کو دفاعی پوزیشن
پر آ کر کھیلنے کیلئے مجبور کر دیا، رہی سہی کسر ٹربیونل کے فیصلے نے پوری
کر دی، ویسے یہ بھی سوچنے کی بات ہے بلکہ لوگوں کیلئے اشارہ ہے کہ ایک لمبے
عرصے تک ’’چار‘‘ حلقوں کی دھاندلیوں کے بارے میں چشم پوشی اور اس کے بعد
اچانک فیصلوں کا آ جانا اور وہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ۔۔۔ یہ
کس طرف جا رہا ہے؟کچھ اندر کے لوگوں سے ’’سنی سنائی‘‘ بات ہے کہ میاں محمد
نواز شریف کو آج کل راتوں کو نیند نہیں آتی بلکہ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دن
گنتے ہیں، نجانے کون سے دن گنتے ہیں ،،، یہ معلوم نہیں۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں (ن) لیگ کی چند چالاکیوں اور پاکستان تحریک
انصاف کی بے وقوفیوں کا تفصیل سے ذکر کیا تھا لیکن آج کے سیاسی حالات دیکھ
کر تحریک انصاف کو اس کا کریڈٹ دینا پڑے گاوہ اپنی بے وقوفیوں کو خاصا کم
کر چکی ہے، قارئین کرام! آنے والے چند دنوں میں ملک میں بڑی تبدیلیاں آنے
والی ہیں جو بظاہر تو پاکستان کے لئے فائدہ مند نظر آ رہی ہیں لیکن ان
تبدیلیوں کے کچھ منفی نتائج بھی سامنے آئیں گے جس کا کڑوا گھونٹ ایک بار
پھر عوام کو ہی پینا پڑے گا ، پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں عتاب کا شکار ہے
لیکن جلد ہی ایک فارمولے کے تحت ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے
قابل ہو جائے گی جس کے ساتھ ساتھ کراچی کی دم توڑتی ہوئی سیاسی جماعت ایم
کیو ایم کو بھی ایک نئی زندگی مل جائے اور وہ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے
سود مند ثابت ہوگی، ملک میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے چند قائدین ، سیاستدان
بلکہ خباثت دان اگر اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ جائیں تو معاملات کو بڑے اچھے
طریقے سے قلیل وقت میں حل کیا جا سکتا ہے اور اس حل میں فی الحال ’’چھوٹے‘‘
رکاوٹ ہیں اگر ’’چھوٹوں‘‘ نے’’ مائنس بڑا ‘‘فارمولا لگاتار ماننے سے انکار
کیا تو ’’چھوٹوں‘‘ کا نام پہلے ہی لسٹ میں شامل ہے،،، ذرائع کے مطابق بہت
سے چھوٹے اپنی ’’واٹ‘‘ لگ جانے سے بچنے کیلئے ہر قسم کا فارمولا ماننے
کیلئے تیار ہو گئے ہیں، دوسری جانب پی ٹی آئی کے جیالوں میں آج کل جوش و
خروش عروج پر ،،، ان کیلئے بس اتنا ہی کہ۔۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت بنا
سکتی ہے لیکن بعید ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بن سکیں۔
بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں اور پاکستانی شہریوں کی شہادت نے پاکستانی قوم
سمیت پاکستانی فوج کو شدید غم و غصے سے دو چار کر دیا لیکن یہ پاکستانی
سیاستدان پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہیں ،،،، شاید یہ بھارتی مٹی سے بنے ہیں
اسلئے بھار ت کی پاکستان پر جارحیت ان کا مسئلہ نہیں، سیالکوٹ ورکنگ
باؤنڈری پربھارتی جارحیت اور حالیہ بھارتی خبط کے بعد ایک دوست کاشف ظہیر
کمبوہ کا فیس بُک سٹیٹس نظر کو بھا گیا کہ ’’ بندہ موذی صاحب سے پوچھے پیاز
کا ریٹ تو تم سے کنٹرول ہوتا نہیں پاکستان سے پنگا لینے کا بھوت ہر وقت
سوار رکھتے ہو. ابھی دو دن پہلے تک انڈیا میں پیاز 250(PKR) فی کلوگرام
کراس کرگیا ہے‘‘ ویسے مودی صاحب سے ان کے پاکستانی سیاسی جانشین بھی پیاز
کی قیمتوں والے معاملے میں ان سے پیچھے نہیں، کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا
ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے نہیں کسی اور ہی ملک کے باشندے ہیں ،،،،جدہ میں
جناب کے ایک کاروبار میں 5000 سے زیادہ ہندو ملازمین شامل ہیں لیکن مسلمان
ملازمین صرف چند ،،، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
ملک بھر میں امن و امان ، داخلی و خارجہ سلامتی ، دہشت گردی کا خاتمہ اور
دیگر تمام مسائل کا حل اگر فوج نے ہی کرنا ہے تو سیاستدان مفت کی روٹیاں
توڑنے میں کیوں مصروف ہیں؟ ایک طرف پاک فوج اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ان
کاموں کے حل میں مصروف ہے جو اس کا فرض بھی نہیں ،،، فقط اس لئے کہ یہ ملک
و قوم کی بقاء کیلئے اشد ضروری ہے، سیکیورٹی اداروں، رینجرز ، بری افواج
وغیرہ کی حوصلہ شکنی اور ان پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے اس وقت فوج کو
پاکستانی اداروں، سیاستدانوں کے ساتھ کی ضرورت ہے، یہ سیاستدانوں کا کام ہے
کہ وہ جس جس قلمدان کو سنبھالے ہوئے ہیں اس کا فرض بھی ادا کریں، خارجہ
پالیسی کو مضبوط بنایا جائے اور دو ٹوک موقف اپنایا جائے، بھارتی جارحیت پر
سخت جواب دیا اور اس کی ہر پلیٹ فارم پر حوصلہ شکنی کی جائے،سیاستدان ’’پی‘‘
کر بیانات داغنے کی بجائے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی چمڑے کی زبان کو لگام
دیں۔ |