اسد واحدی :’’جہاں اندر جہاں ‘‘ (ناول)،رب پبلشرز
،کراچی،طبع اول جولائی۲۰۱۲۔ تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان
امریکہ میں مقیم اردوکے ممتاز پاکستانی ادیب اسد واحدی کا شمار اُردو زبان
کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی پہلی تصنیف’’سراب‘‘ایک ناولٹ ہے جسے
قارئینِ ادب نے بہت پسند کیا۔ اس کے بعد انھوں نے تخلیق ادب اور بالخصوص
اردو فکشن میں گہری دلچسپی لی ۔بنارس(بھارت )میں جنم لینے والے اس زیرک
تخلیق کار کو اپنے گھر میں نہایت عمدہ علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ان کی
شخصیت سازی میں ان کی والدہ ،ماموں اور خاندان کے بزرگوں نے کلیدی کردار
ادا کیا ۔زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں اردو فکشن سے گہری دلچسپی تھی ۔ اردو
زبان کے جن نام ور ادیبوں سے اُنھیں ملنے کا موقع ملاان میں اسرار الحق
مجازلکھنوی،مسعوداختر جمال،وامق جون پوری اور رام لعل کے نام قابلِ ذکر
ہیں۔اسی زمانے میں اسد واحدی کے افسانوں کو ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین
دیکھا اور ان کے تین افسانے بنارس سے شائع ہونے والے ایک مقبول ادبی مجلے
’’راہی‘‘ کی زینت بنے۔قیام پاکستان کے بعد ہجرت کے موضوع پر انھوں نے طویل
افسانہ ’’یہ دھرتی یہ جیون ساگر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔اس طویل افسانے کا آغاز
تو بنارس سے ہوا لیکن اس کی تکمیل پاکستان ہجرت کے بعد کراچی میں ہوئی۔اسد
واحدی نے اعلا تعلیم کے مدارج امریکہ میں مکمل کیے جہاں انھوں نے عالمی
کلاسیک کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا ۔سول سروس میں اہم عہدوں پر فائز رہے
اور امریکہ میں طویل قیام کے عرصے میں بھی قلم اور قرطاس سے معتبر ربط بر
قراررکھا ناول’’جہاں اندر جہاں‘‘ میں مصنف کے تجربات ،مشاہدات ،زندگی کے
نشیب و فراز اور سوانحی عنصر کے امتزاج سے اُردو فکشن میں ایک منفرد انداز
سامنے آیا ہے۔ زبان و بیان کی سادگی ،سلاست اور روانی کے اعجاز سے یہ ناول
ابلا غ کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اس ناول میں کردار نگاری ،جزئیات نگاری
،منظر نگاری ،مکالمات اور حالات وواقعات کی لفظی مرقع نگاری کا کرشمہ قاری
کو حیر ت زدہ کر دیتا ہے۔عالم، روبی ،نسرین ،ایلس،نینسی،دانش اور بہت سے
کردارایسے ہیں جو اس ناول کو رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے
مزین کر رہے ہیں۔عالم اور روبی کی محبت کے مدار میں گھومنے والی یہ کہانی
اس وقت المیہ کا روپ دھار لیتی ہے جب روبی کے گھر کے دروازے پر نا معلوم
دہشت گرد عالم کی لاش پھینک جاتے ہیں۔قتل کرنے سے پہلے عالم کو جس اذیت
،عقوبت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے واضح نشانات لاش پر موجود
تھے۔عقوبت خانوں،سرنگوں اور نجی زندانوں میں مظلوم انسانیت پر جو کوہِ ستم
ٹوٹتے ہیں ،ان لرزہ خیزسانحات کے بیان میں مصنف نے نہایت دردمندی سے کام
لیا ہے۔ مصنف نے لا شعوری طور پر ابن الوقت ،مفاد پرست ،مارِ آستین اور جو
فروش گندم نُما عناصر کے تکلیف دِہ روّیے پر گرفت کی ہے۔ تخلیقِ فن کے
لمحوں میں ایک زیرک تخلیق کار یہ چاہتا ہے کہ وہ خُون بن کر رگِ سنگ میں
اُترجائے ۔اس مقصد کے لیے طویل اور صبر آزما جد و جہد درکار ہے ۔اس موثر
کہانی کو مصنف نے اپنے دل کش اسلوب سے اس انداز میں الفاظ کے قالب میں
ڈھالا ہے کہ یہ المیہ کہانی قاری کے شعور سے ہوتی ہوئی اس کے لا شعور کا
حصہ بن جاتی ہے اور وہ یہ محسو س کرتا ہے کہ یہ سب واقعات تو ہمارے گرد و
نواح میں روز کا معمول ہیں۔مجموعی اعتبارسے ’’جہاں اندر جہاں‘‘تکنیک کے
تنوع کا مظہر ایک معیاری ناول ہے ۔اس کی اشاعت سے اُردو فکشن کی ثروت میں
اضافہ ہوا ہے۔اردو ناول کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روز ِروشن کی
طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ناول ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس میں بیان کیے گئے
واقعات اور ان کے پس پردہ حقائق جو تہہ در تہہ نہاں ہوتے ہیں وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ ان حقائق کی گرہ کشائی ممکن ہے ۔یہ بات بلاخوف ِ تردید کہی جا
سکتی ہے کہ ’’جہاں اندر جہاں ‘‘کی مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید
اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔زندہ اور جان دار تخلیقات کا یہی تو امتیازی وصف
ہوتا ہے۔ |