شعلہ آسیونی:شعلہ رنگ

 شعلہ آسیونی:شعلہ رنگ ،(شعری مجموعہ)،رب پبلشرز ،کراچی،طبع اوّل،مارچ ۲۰۱۴ ۔ تبصر ہ نگار:غلام ابن سلطان
تحریکِ پاکستان کے ممتاز کا رکن شعلہ آسیونی(چودھری احرار محمد عثمانی)کا شعری مجموعہ حال ہی میں کراچی سے شائع ہو ا ہے ۔مسلسل آٹھ عشروں تک پرورشِ لوح و قلم کا فریضہ انجام دینے کے بعد شعلہ آسیونی نے بیس جولائی۱۹۹۶کو داعیء اجل کو لبیک کہا ۔شاعری میں وہ جگر مراد آبادی سے اصلاح لیتے تھے۔ حسرت موہانی اوربہزاد لکھنوی سے ان کے قریبی تعلقات رہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان اساتذہ کا رنگ نمایا ں ہے ۔ اپنے دور کے اس اہم شعری مجموعے(شعلہ رنگ ) کے بارے میں جن مشاہیر کی آرا کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان میں یاور مہدی،پروفیسر سحر انصاری،سیّد شمس وارثی،رضیہ شعلہ آسیونی، رشید بٹ اور چودھری شاہ کار محمد شامل ہیں۔موضوعات ،مضامین اور اصناف شاعری کے اعتبار سے’’شعلہ رنگ ‘‘میں دھنک رنگ منظر نامہ قارئین کو مسحور کر دیتا ہے۔اس میں حمد باری تعالیٰ چھے ،نعت رسول مقبول ﷺ تینتیس منقبت اور سلام تین،الف بائی ردیف میں ایک سو سترہ غزلیں،پانچ موضوعاتی نظمیں، دس قومی نظمیں ،آٹھ قطعات، پانچ تہنیت و متفرقات اور ستائیس گیت شامل ہیں۔ اسلوب میں یہ تخلیقی تنوع شاعر کی زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا منہہ بولتا ثبوت ہے۔سال ۱۹۷۵میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد ان کے فکر و نظر کی کی کایا پلٹ گئی اور تخلیقی عمل میں وہ حمد و نعت اور سلام و منقبت کی طرف اُنھوں نے زیادہ توجہ دی۔

شعلہ آسیونی کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ تخلیق ِ فن کے لمحوں میں جذبوں کی صداقت جب فکر و خیال کی صورت میں قلب و نظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تویہ تزکیہ نفس اور اظہار و ابلاغ کے لیے خوب صورت الفاظ کی جستجو کرتی ہے۔ان کے منفرد اسلوب میں جو زورِ بیان پایا جاتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تخلیقی عمل کی حسن کاری نے سحر آفرینی کا رُوپ دھا ر لیا ہے۔تخلیق کار کے تجربات ،احساسات اور مشاہدات کی یہ ایسی داخلی لفظی مرقع نگاری ہے جو زبانِ حال سے تمام حقائق کی گرہ کشائی کی استعداد اسے متمتع ہے۔معاشرتی زندگی کے ارتعاشات ، نشیب و فراز اور تُند و تلخ حقائق کا جرأت مندانہ اظہار جہاں ان کی دُور اندیشی،بصیرت اور تدبر کا مظہر ہے وہاں یہ ان کی حق گوئی اور بے باکی کا بلند ترین معیار بھی سامنے لاتا ہے۔شعلہ آسیونی کا نام حریتِ فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کی اور کبھی درِکسریٰ پر صدا نہ کی ۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں حنوظ شدہ لاشوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں کو کیا معلوم کہ انسانی ہمدردی کے تقاضے کیا ہیں۔شعلہ آسیونی کی شاعری انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کا پیغام دیتی ہے:
بیانِ غم کو غمِ داستان سمجھتے ہیں
کہ لوگ دِل کی حقیقت کہاں سمجھتے ہیں
درد کو جو فعال جا نتے ہیں
دِل کو وہ کیوں نڈھال جا نتے ہیں
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 680070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.