اس ٹی وی کے سائے تلے

ناظرین اس مسئلے پر گفتگو جاری ہے ۔۔ کہیں مت جائیے گا ۔۔
۱۲ سالہ زبیر پوری جان سے چیخ کر بولا ۔۔اور اس کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ۱۰ سالہ عمیر اور ۹ سالہ وقار،ایک دوسرے کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اپنی اپنی سُنانے کی جہد میں ایک دوسرے سے زیادہ زور سے بولے جا رہے تھے ۔۔۔۔ کمرہ غل غپارہ کا عملی نمونہ پیش کر رہا تھا ۔۔۔۔ سیمہ جو صبح سے کام میں مشغول ہونے کے باعث تھک چکی تھی ۔۔ابھی آدھا گھنٹہ قبل ہی برابر والے کمرے میں آکر لیٹی تھی ، اس غل غیغاں کی وجہ سے ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی ۔
یہ کیسا شور ہو رہا ہے ؟؟۔۔۔۔سیما غصہ میں چلّائی ۔۔ سب بچے ایک دم خاموش ہو گئے
امّی ہم ٹاک شو کھیل رہے ہیں ۔۔۔ زبیر نے ہمت کرکے جواب دیا
توآہستہ بول لو زرا ۔۔۔سیما نے بدستور ناگواری سے کہا
آپ کو نہیں پتہ امّی ۔۔ ٹاک شو میں ایسے ہی بولتے ہیں۔۔اس دفع وقار نے جواب دیا
میرے سر میں درد کر دیا تمہارے شور شرابے نے ۔۔۔۔بند کرو اسے ۔۔ کچھ اور کھیل لو ۔۔سیما نے عاجز ہو کر کہا ۔۔تو سب بچے ٹی وی روم میں آ کر بیٹھ گئے ۔۔جہاں سیما کے سُسر پہلے سے ہی ٹاک شو لگائے بیٹھے تھے -

یہ ایک گھر کی کہانی ہیں ،ہر گھر میں نظر آنے والے وہ رویے ہیں جو ٹی وی پروگرامز کے طفیل معاشرے میں سرائیت کر رہے ہیں معاشرتی سطح پر زبان ،لب و لہجہ انسان کے اخلاق و کردار کا آئینہ ہوا کرتا ہے ۔اور وہ افراد جو کسی خاص منصب پر ہوں ،اپنے ،اپنے ادارے اور اپنی قوم کے بھی عکاس ہوتے ہیں ۔آج کے الیکٹرانک میڈیا دور میں ٹی وی صرف قاصد کا فرض ہی پورا نہیں کرتا بلکہ دنیا کت سامنے پوری قوم و ملت کا نمائندہ ہے ۔۔۔لیکن کیا کہیے۔! ہمارے ان نمائندہ گان کو ۔۔۔!!!249آپ دن کے کسی حصے یا رات کی کسی گھڑی میں ٹی وی کھول لیں آپ کو ایک چیختا چّلا تا وجود بنام ’’ اینکر ‘‘ یا پھر نیوز کاسٹر کے نظر آ جائے گا ۔۔کسی ماڈل گرل کا عدالت میں پیشی کا معاملہ ہو ،یا کسی سیاسی فرد کا عقد نکاح ،کسی جلسے میں لڑکیوں کا لہرانا ہویا کسی کرکٹر کا معاشقہ ، جسطرح سے بار بار چّلا چّلا کر سُنایا جاتا ہے ہمیں ماضی کی ’’بی جمالو ‘‘یاد آ جاتی ہیں ۔

بی جمالو کا کردار ہو سکتا ہے کہ آج کے زمانے میں بہت سے لوگوں کے لئیے اجنبی ہو چکا ہو،لیکن ماضی کا ایک مشہور کردار تھا ۔۔۔لکھنوی پاجامہ کرتا پہنے، ہاتھ میں پان کی پٹاری اور مُنہ میں گلوری دبائے ، محلے کے ہر گھر میں روز وارد ہو جانے والی ادھیڑ عمر خاتون ،جن کا کام اِدھر کی خبر اُدھر اور اُدھر کی خبر جمع کرکے اِدھر سُنانا ہوا کرتا تھا۔اور جب تک وہ خبروں میں مرچ مصالحہ لگا کر متعلقہ افراد میں اشتعال و اضطراب پیدا نہ کر لیتیں تھیں ، اُنہیں مزہ ہی نہ آتا تھا ۔۔۔۔۔اب زمانہ ترقی کرگیا ۔۔۔وہ ایک کردار کا کام اب نیوز کاسٹرز اور اینکر پرسنز نے سنبھال لیا ہے۔۔۔یقین نہ آئے تو ابھی ٹی وی کھول کے دیکھ لو ۔۔۔۔
پہلے لوگ زمہ دار تھے ،ہر علاقے سے منسلک اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز لوگ ،اپنے علاقوں کے لوگوں کی پسند اور نا پسند کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے اپنے فرائض ادا کرتے تھے ۔ریڈیو ،ٹیوی سب اپنے لوگوں ، اپنی تہذیب کے نمائندہ ہونے کا پورا لحاظ رکھتے تھے ۔لیکن اب تو میڈیا اخلاق باختہ اقدار کا داعی بنا بیٹھا ہے ’’۔آج میڈیا نے ہماری نسلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ‘‘یہ تجزیہ صرف ہمارا نہیں ۔۔معاشرے میں بکھرے ہزاروں واقعات اس کے گواہ ہیں ۔ گھر ،محلے ،معاشرے اور قوموں کی ترتیب و تعمیر میں خواتین کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے اور میڈیا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بھی خواتین کا ہے۔وہ مائیں جو اپنی بیٹیوں میں اپنی خاندانی وفا ، سلیقہ شعاری،اور عذّت کی پاسداری کے خواص منتقل کیا کرتی تھیں اب خود ’’ ماڈل گرل ‘‘ کی مانند بننے کی جدوجہد میں صبح و شام مصروف ہیں اور اُن کی بیٹیاں عشقیہ ڈراموں کے خیالی شہزادوں کی آرزو لیئے فیس بُک پر سرگرداں !!! صرف یہ ہی نہیں وہ اُمت وسط جس کے جوانوں کو خدا نے ’’ امین ‘‘ کے منصب پر فائز کیا تھا ، اس وطن عزیز کے پارکوں اور ریسٹورنٹ میں عشق کے گیت سُناتے نظر آتے ہیں ۔ ہم بد گمانی نہیں کر رہے یہ تمام مناظر میڈیا ہی کے توسط سے ہمیں دکھائے جا تے ہیں کبھی تہوار کی تھاپ پر تو کبھی تہذیب کے نام پر ڈھول بجا بجا کر ۔۔اخلاقی انحطاط کی داستان یہیں تک نہیں ۔۔ٹیوی پہ لیڈر حضرات کے عقب نظر آنے والی دھکّم پیل اسمبلیوں میں اوے اور ابے کی آوازیں قومی اور ادبی اخلاقی جنازہ کی زندہ تصویر ہے جو میڈیا پر روز چلتی ہے ۔

یوں لگتا ہے ادب کا زمانہ ماضی میں کہیں کھو چکا ہے ۔۔۔یہ ترقی کے اثار ہرگز نہیں ۔۔عورت کا احترام ،بڑوں کی عذّت اور بچوں سے شفقت ہماری مشرقی و اخلاقی تہذیب کی بنیادیں ہیں اور جن سے مغرب محروم ہے ۔ اور ان کی اندھی تقلید ہمیں بھی اُسی دلدل میں دھنسا رہی ہے ۔۔
Afsana Mehar
About the Author: Afsana Mehar Read More Articles by Afsana Mehar: 12 Articles with 9363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.