سعودی عرب۰۰۰سیاست میں صنفی مساوات کی سمت پہلا قدم۔!
(Dr M A Rasheed Junaid, India)
آزادی ایک ایسا لفظ ہے جو حروف
تہجی کے ’’الف‘‘ سے شروع ہوکر ’’ی‘‘پر ختم ہوتا ہے اور اس لفظ کی ابتداء و
انتہاء جس طرح ہے اسی طرح ہر شخص بھی اپنی زندگی میں مکمل آزادی چاہتا ہے۔
انسان ہو کہ حیوان یا کوئی اور مخلوق ہر کوئی آزادزندگی گزارنا چاہتا ہے
اور آزاد زندگی کا احساس اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی کسی نا گہانی صورتحال یا
خطرے سے دوچار ہوتا ہے۔ آج دنیا میں آزادی کے حصول کے لئے بے تحاشہ دہشت
گردانہ شدت پسندوں اور حکمرانوں کے درمیان حملے جاری ہیں۔ کہیں پر آزادی کے
نام پر فائرنگ ، بم دھماکے اور خود کش حملوں کے ذریعہ عام شہریوں کی ہنستی
مسکراتی زندگیوں کو چھین لیا جارہا ہے تو کہیں پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے
نام پر عام شہری علاقوں پر خطرناک فضائی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں جس
میں سینکڑوں بے قصور عام شہری بشمول معصوم بچے و خواتین موت کی آغوش میں
پناہ لے کر دہشت گردانہ ماحول سے آزاد ہورہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں شرعی
قوانین کے نفاذ کی وجہ سے خواتین پر کئی پابندیاں عائد ہیں انہیں شرعی لباس
زیب تن کئے ہوئے باہر نکلنا پڑتا ہے ، سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے
کی اجازت نہیں، عرب خواتین بھی آزادی چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین
کوانتخابات میں ووٹ دینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا لیکن مرحوم شاہ عبداﷲ بن
عبدالعزیز نے اپنے دور اقتدار میں خواتین کو بلدی انتخابات میں ووٹ دینے کا
حق دیا اور پھر اب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں خواتین کو
بلدی انتخابات میں صرف ووٹ دینے کا حق ہی نہیں دیا گیا بلکہ انہیں انتخابات
میں امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہونے کا بھی حق دیا گیا اس طرح اگر خواتین
بلدی انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو مملکت سعودی عربیہ کی تاریخ میں
ایک نیا انقلاب سمجھا جائے گااور خواتین کی آزادی کے لئے راہیں استوار ہونا
سمجھا جائے گا ۔ ویسے اسلامی ممالک میں شرعی قوانین کے نفاذ پر عالمی ادارہ
ہیومن رائٹس خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے
۔ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں پردے کی پابندی اور سخت قوانین کی
وجہ سے خواتین کی عصمتوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسلام نے خواتین کے حقوق متعین
کردیئے ہیں ، خواتین اور مردوں کے درمیان جنس کے مطابق اسلام نے قوانین
نافذ کئے ہیں لیکن آج مغربی ماحول نے جس طرح خواتین کو گھر کی زینت بن کر
رہنے کے بجائے بازاروں کی زینت بنادیا ہے جس سے اچھا خاصا معاشرہ تباہی و
بربادی کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔ اسلامی ممالک میں اگر شرعی قوانین لاگو
ہیں تو بہتری کی بات ہے ۔ اب سعودی عرب میں منعقد ہونے والے بلدی انتخابات
میں خواتین حصہ لیں گی لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ
کیا ان خواتین کو اتنی آزادی ہوگی کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے مرد
حضرات کی طرح نمائندگی کرسکیں گے۔ ؟ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر
پابندی عائد ہے ، ہیومین رائٹس کی جانب سے خواتین کی آزادی کے لئے کوششیں
ہوتی رہی ہیں ، بعض سعودی خواتین مملکت کے قانون کو توڑنے کی کوشش کرتے
ہوئے ڈرائیونگ کئے جس کے بعد حکومت سعودیہ نے سخت قوانین نافذ کردیئے ہیں ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آہستہ آہستہ سعودی عرب بھی خواتین پر عائد
پابندیوں کو اٹھاتے ہوئے مغربی تہذیب کو اپنانے کی چھوٹ تو نہیں دے رہا ہے؟
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے شرم کی بات ہوگی اور یہ بے حیائی
اور آزاد خیال مغربی طاقتوں کیلئے کامیابی تصور کی جائے گی۔آج سعودی خواتین
بھی دوسرے ممالک کی طرح تعلیمی میدان میں سبقت لے جارہے ہیں ، انکی ابتداء
سے اعلیٰ تعلیم کیلئے سعودی عرب میں کئی تعلیمی ادارے ، جامعات قائم ہیں
اور تجارتی اور دیگر شعبوں میں سعودی خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مملکت
میں کئی ایسے سعودی مردملیں گے جو نہیں چاہتے کہ ان کی خواتین گھر بار چھوڑ
کر بازار کی زینت بنے۔ ایسا نہیں ہے کہ عرب حضرات اپنی خواتین کو صرف گھر
کی چہار دیواری قیدرکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے اہل خانہ کو تفریحی مقامات پر لے
جاتے ہیں ، شاپنگ کے لئے بازار لے جاتے ہیں ، عزیز و اقارب کے پاس آنا جانا
رہتا ہے ۔ خیر سعودی عرب میں اب تو خواتین کو بلدی انتخابات میں حصہ لینے
کی اجازت مل گئی اور مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ ڈرائیونگ کی اجازت بھی مل
جائے؟
سعودی علماء اظہارِ آزادی کے حق سے محروم یا ۰۰۰
عالمی سطح پردنیا کے ہر ملک میں اظہارِ آزادی کیلئے قوانین موجودہونگے، بہت
ہی کم ممالک کے حکمراں ایسے ہونگے جو عوام کو اظہارِ آزادی کا حق نہ دیتے
ہوں۔اظہارِآزادی کی وجہ سے عوام اپنے دکھ درد اور مسائل کا اظہار کرسکتے
ہیں لیکن بعض اوقات انسان اس کاغلط استعمال کرتے ہوئے عوام میں تفرقہ ڈال
سکتے ہیں اور حکمرانوں کے خلاف بھی سازشیں کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض
ممالک کے حکمراں اظہارِ آزادی پر پابندی عائد کردیتے ہیں ۔ بعض مذہبی
قائدین ، علمائے کرام و خطباء مذہبی مقامات ،مساجد اوراہم موقعوں پر تقاریر
کے ذریعہ مسائل پیدا کردیتے ہیں ۔ بعض اوقات عوام میں حکمرانوں کے خلاف
آواز اٹھنے لگتی ہے تو ان علمائے کرام پرحکومت کی جانب سے پابندیاں عائد
کردی جاتی ہیں۔گذشتہ دنوں مملکتِ سعودی عربیہ کے علماء کرام کو بھی مذہبی
امور کے سکریٹری ڈاکٹر توفیق السدیری نے منبر و محراب کے غلط استعمال پر
وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ علمائے کرام کا کام دینی شعور بیدار کرنا ہے نہ کہ
سیاست میں عمل دخل دینا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا
کہ جمعہ اور دیگر مواقع پر علماء کا اصل کام لوگوں کو دین کی رہنمائی فراہم
کرنا ہے سیاست کرنا ہر گز نہیں ۔ یعنی ملکی سیاست پر بات کرنا ہرگز نہیں
تاہم وہ چاہیں تو علاقائی مسائل پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن ان کی گفتگو میں
سیاسی رنگ نظر نہیں آنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم دین اور سیاست کی
علیحدگی کے قائل نہیں لیکن علماء کی اپنی ذمہ داری ہے اور سیاست دانوں کی
اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔ڈاکٹرالسدیری کا کہنا
تھا کہ ہم دین اور سیاست کی جدائی کی بات نہیں کرتے بلکہ ہم علماء کو یہ
باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں اپنے پیشے کا احترام کرتے ہوئے سیاسی
موضوعات سے اپنے آپ کود ور رکھیں۔ کہا جارہا ہیکہ امور مذہبی کے سکریٹری
ڈاکٹر السدیری نے جس خوبی سے علماء کرام کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش
کرتے ہوئے انہیں اظہارآزادی کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان دنوں
عالمِ اسلام میں جہاد کے نام پر شدت پسندی عروج پر ہے ۔ عراق، شام،
افغانستان، پاکستان، مصر، ترکی، یمن لبنان وغیرہ میں جس طرح نام نہاد جہادی
تنظمیں مسالک کی بنیاد پر عام شہریوں کو ہلا ک کررہے ہیں اس سے دور رکھنے
کے لئے سعودی عرب کی شاہی حکومت نے سخت قوانین نافذ کئے ہیں اور جو کوئی
بھی سعودی شہری مملکت میں یا دوسرے ممالک میں شدت پسندکارروائیوں میں ملوث
پایا گیا یا ان سے تعلقات رکھنے کا اشارہ ملاتو انکے خلاف سخت کارروائی
ہوسکتی ہے، اسی لئے مذہبی امور کے سکریٹری نے علماء کرام و خطباء کو بھی ان
سرگرمیوں سے دور رہنے کے لئے انتباہ دیا ہے کیونکہ اظہارِ آزادی کے نام پر
دہشت گردی میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔
دہشت گردانہ کارروائیوں سے بیزار آزادی کے طلبگار ۰۰۰
افغانستان ،عراق، شام ، پاکستان وغیرہ میں عام شہری اپنی جانوں کی حفاظت
چاہتے ہیں انہیں ہرروز اپنی اور افرادِ خاندان کی زندگیوں کے لئے خالق و
مالک سے دعا گو رہنا پڑتا ہے ۔ افغان عوام کے مطابق موجودہ صدر اشرف غنی
لون کے دورِ حکومت میں طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں عوام
کی زندگی کو مایوس کرکے رکھدیئے ہیں۔ بچوں کی اسکول سے واپسی ، مرد حضرات
کی دفاتر و کاروباری اداروں سے واپسی تک خواتین انتظار میں رہتی ہیں ۔ طلبا
و طالبات اسکول کی پڑھائی کے علاوہ سیر و تفریح چاہتے ہیں لیکن ان کے سامنے
طالبان کی دہشت گردانہ کاررائیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں وہ چاہتے ہوئے
بھی تفریحی مقامات پر جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ افغان شہریوں کا ماننا ہے
کہ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے انتقال کی خبر کے بعد موجودہ سربراہ
ملا اختر منصور کی قیادت کو لے کر طالبان میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ان
اختلافات کے بعد دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر
روز عام شہری علاقوں میں حملوں سے بیزار عوام چاہتے ہیں کہ ان کے ملک سے
دہشت گردی کا خاتمہ جڑ سے ختم ہوجائے لیکن کیا عالمِ اسلام اتنا جلد دہشت
گردی کی لپیٹ سے واپس ہوپائے گا۔ شام، عراق ، ترکی، یمن ، لیبیا، سے ہوتے
ہوئے سعودی عرب اور کویت میں داعش کے حملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ
شدت پسند گروپس امن و سلامتی نہیں چاہتے بلکہ عوام کی آزادی انکی ہلاکتوں
کو تصور کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ فائرنگ، بم دھماکے، خودکش حملوں کے
ذریعہ عام شہریوں کا قتلِ عام کررہے ہیں۔ داعش ہو کہ کوئی اور تنظیم عام
شہری علاقوں کے بعد جس طرح مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر حملے کررہے ہیں
اس سے انکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ شام ، افغانستان ، عراق کے پناہ گزیں
لاکھوں کی تعداد میں بے سرو سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انکا کوئی
پرسانِ حال نہیں ۔ اگر واقعی عالمی طاقتیں ان متاثرین کی امداد کرنا چاہتے
ہیں تو انہیں اشیاء خورد و نوش ، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کے سامان
فراہم کریں ۔ اقوام متحدہ بھی ان پناہ گزینوں کو اشیاء ضروریہ پہنچانے سے
مجبور دکھائی دے رہا ہے۔
داعش کی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے ۰۰۰
دولت اسلامیہ (داعش) کی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے جس کے خلاف
امریکی اتحادی فوج جوابی کارروائی کرتے ہوئے داعش کو ختم کرنا چاہ رہی ہے ۔
داعش کے خلاف امریکی اتحاد میں اب ترک فضائیہ بھی شامل ہوگئی اور ترکی کے
جنگی طیاروں نے پہلی بار داعش پر فضائی حملوں میں حصہ لیا۔ امریکی محکمہ
دفاع نے حملوں میں ترکی کی شمولیت کو اہم قرار دیا ہے۔ ترک وزارتِ خارجہ کے
مطابق ترکی کے جنگی طیاروں نے دو روز قبل کی گئی کارروائی میں شامی علاقوں
میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ترکی نے گزشتہ ماہ ہی امریکہ
کوداعش کے خلاف کارروائی کے لئے اپنا ایک فضائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت
دی تھی۔ ماضی میں ترک حکومت داعش کے ممکنہ جوابی حملوں کے تناظر میں ان
فضائی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کرتی رہی ہے۔ حکام کے مطابق گذشتہ دنوں
کئے گئے فضائی حملے ترکی اور امریکہ کے درمیان 24؍ اگست کو طے پانے والے
ایک تکنیکی معاہدے کا حصہ ہیں۔
تاجکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق پارٹی برائے اسلامی احیاء شام اور عراق
میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ وزارتِ داخلہ کے
مطابق تاجک اسلامی پارٹی نے اسلامک اسٹیٹ کا سیاہ پرچم لہرانے کی درخواست
کا مثبت جواب دیا ہے اور اِس جماعت کے کارکن انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ
دینے میں براہِ راست ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ کے بیان میں ملک کے جنوبی قصبوں
شارطوز اور نوریک میں اسلامک اسٹیٹ کا جھنڈا لہرانے کے واقعے کے بعد بیس
افراد کی گرفتاری کی تصدیق بھی کر دی گئی ہے۔ اسلامی پارٹی نے نوریک میں
اپنے ایک کارکن کی گرفتاری کا ذکر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک تاجک عدالت کے
حکم پر اسلامی پارٹی کے ہیڈ آفس کو سر بمہر کر دیا گیا ۔اب تاجکستان کے
عوام کی نیندیں بھی داعش کے خوف سے اُڑنے لگی ہونگی ایک طرف داعش کا خطرہ
ہوگا اور دوسری جانب حکمراں سیکیوریٹی ایجنسیوں کی کارروائیوں کا خطرہ ان
دونوں کے درمیان دوسرے ممالک کی طرح یہاں کے عوام بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔
اس طرح داعش کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے ۔ امریکی صدر بارک
اوباما نے کہا تھا کہ داعش کا خاتمہ تو ہوجائے گا لیکن اس کے لئے طویل مدت
درکار ہوگی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی داعش کا خاتمہ اتنی آسانی سے
ہوپائے گایا پھر اس کے لئے ابھی لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں درکار ہیں۰۰۰
***
|
|