بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کی یاد میں شاہ فیصل
ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں مسلم امہ کیلئے
ان کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیاہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام
آباد میں ہونے والے اس پروگرام میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد
یوسف، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری، وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر
ظفر اﷲ خاں، سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی اور ٹرسٹ کے چیئرمین ذوالقرنین
سمیت مختلف مذہبی و سیاسی شخصیات نے شرکت کی اور گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ
شہزادہ سعود الفیصل کی مسلم امہ کیلئے ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے
گا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ ایک اعتدال پسند
رہنما تھے جنہوں نے مسئلہ فلسطین وکشمیر کے حل کیلئے او آئی سی سمیت تمام
بین الاقوامی فورمز پر بات کی اور پاکستان پر جب کبھی کوئی مشکل وقت آیا
ہمیشہ کھل کر ساتھ دیا۔ وہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کو بھی غلط
قرار دیتے تھے۔
ٍ
شہزادہ سعود الفیصل جو تقریبا دو ماہ قبل 75برس کی عمر میں وفات پا گئے تھے
‘سابق سعودی فرمانروا شاہ فیصل شہید کے صاحبزادے تھے۔ 1940ء میں طائف میں
پیدا ہونے والے شہزادہ سعود الفیصل کو 1975ء میں سعودی وزیر خارجہ مقررکیا
گیاجو چالیس برس تک اس منصب پر فائز رہے جس کے باعث انہیں دنیا میں طویل
ترین وزیر خارجہ رہنے کا اعزاز حاصل ہوا تاہم 29 اپریل 2015 کو انہوں نے
خرابی صحت کی بناپر مزید ذمہ داریاں ادا کرنے سے رخصت لے لی تھی۔وہ اپنے
والد گرامی شاہ فیصل شہید کی طرح امت مسلمہ کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتے
تھے۔ جس طرح ان کے والد مسلمانوں میں باہمی اتحاد ویکجہتی دیکھنا چاہتے تھے
اسی طرح سابق سعودی وزیر خارجہ کے دل میں بھی ہمیشہ یہی تڑپ نظر آئی۔ خاص
طور پر پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے وہ ہمیشہ فکرمند رہتے اور ہر
مشکل وقت میں پاکستانی حکمرانوں کو نہ صرف حوصلہ دیابلکہ آگے بڑھ کر مددکا
حق ادا کرتے رہے۔ شہزادہ سعود الفیصل نے 1960 میں پرنسٹن یونیورسٹی سے ڈگری
حاصل کی اور بعدازاں کئی برس تک وزارت پیٹرولیم میں اپنے والد کے معتمد خاص
اور وزیر تیل احمد ذکی یمنی کی سرپرستی میں خدمات انجام دیتے رہے۔وزیر
خارجہ کی حیثیت سے ان کی زندگی ان کے والد شاہ فیصل کے قتل کے بعد شروع
ہوئی جب شاہ خالد نے انھیں وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ کیا۔جس دور میں وہ
سعودی عرب جیسے اہم ملک کے وزیر خارجہ رہے اس میں دنیا بھر خاص طور پر مشرق
وسطی میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے جن میں 1978، 1982 اور 2006 میں
اسرائیل کے لبنان پر حملے، فلسطین میں 1987 اور 2000 میں انتفادہ کے نام سے
احتجاج ، عراق کا 1980 میں ایران پر حملہ اور پھر 1990 میں کویت پر فوج کشی
شامل ہیں۔ اسی طرح گیارہ ستمبر 2001 میں نائن الیون پر حملہ کے بعد
افغانستان پر چالیس سے زائد ملکوں کی چڑھائی اور 2003 میں امریکہ کے عراق
پر قبضہ جیسے واقعات بھی انہی کی وزارت خارجہ کے دور میں پیش آئے۔یہ بہت
مشکل دور تھا ‘دشمنان اسلام کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف بھی سازشوں کے
جال بھنے جارہے تھے اور اسے دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں
تاہم شہزادہ سعودالفیصل نے بہترین سفارت کاری کے ذریعہ نہ صرف غیر ملکی
قوتوں کے پروپیگنڈا کوناکام بنایا بلکہ عرب ملکوں سمیت دنیا کے دیگر بیشتر
ممالک کو اپنے ساتھ ملائے رکھا جس پر مسلمانوں کے روحانی مرکزکونقصانات سے
دوچارکرنے کی مذموم سازشیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ شہزادہ سعود کو عربی اور
انگریزی سمیت کئی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا اور وہ اپنی بذلہ سنجی اور
نرم مزاجی کے باعث سفارتی حلقوں میں خاصے مقبول تھے اور یہی خوبیاں انہیں
ہر محفل میں ممتاز رکھتی تھیں۔وہ ہر عالمی فورم پر اپنا کیس مضبوط اندازمیں
پیش کرنے میں ماہر تھے۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف انہوں نے ہمیشہ
ہر فورم پر کلمہ حق بلند کیا اوردنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کو بے نقاب
کرنے کی کوشش کی ۔ نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر وہ دکھی
ہوجاتے اور ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ فلسطینی مسلمانوں کی آزادیوں و حقوق کے
تحفظ کیلئے وہ کوئی عملی کردار ادا کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں
عام طور پریہ بات مشہور ہے کہ وہ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کو اپنے طویل
ترین کیریئر کی ناکامی قراردیا کرتے تھے۔یہ ان کی فلسطینی بھائیوں سے محبت
کی واضح دلیل ہے۔اہل پاکستان سے ان کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے لیکر 2015ء تک جب کبھی پاکستان میں زلزلے، سیلاب یا
کسی قسم کی کوئی اور دیگر آفت آئی یا بھارت جیسے ملکوں کی جانب سے پاکستان
پر جارحیت کی بات کی گئی اورکلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے اس ملک کی
جانب میلی نگاہ ڈالنے کی کوشش کی گئی سعودی عرب ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں سے
کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب اگرچہ شروع دن
سے پرانے دوست ہیں اور ایک دوسرے سے روحانی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں لیکن
دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں شہزادہ سعود الفیصل کا بھی بہت
بڑا کردارہے۔ پاکستان میں بعض ایسے حکمران بھی آئے ہیں جن کا جھکاؤ سعودی
عرب کی جانب نہیں تھا اور نہ ہی انہیں پاک سعودی برادرانہ تعلقات کی کوئی
فکر تھا تاہم شہزادہ سعود نے اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعہ سعودی
حکمرانوں و عوام کوکبھی ان چیزوں کا احساس نہیں ہونے دیا اور پاک سعودی
تعلقات نہ صرف یہ کہ ہمہ وقت قائم و دائم رہے بلکہ یہ دن بدن مضبوط ہوتے
چلے گئے۔شہزادہ سلمان بن عبدالعزیزجو شاہ عبداﷲ کی وفات کے بعد کچھ عرصہ
قبل ہی سعودی فرمانروا بنے تھے ‘ وہ چاہتے تھے کہ فی الحال شہزادہ سعود
اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں کیونکہ اس وقت ایسے حالات تھے کہ یمن میں
بغاوت عروج پر تھی۔ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے یمنی باغی
سعودی سرحدوں پر حملے کر رہے تھے اور حرمین شریفین پر قبضہ کی اعلانیہ
دھمکیاں دی جارہی تھیں اس لئے اس انتہائی حساس اور اہم موقع پر وہ ان کے
تجربہ اور بہترین سفارت کاری سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن شہزادہ سعود
محسوس کرتے تھے کہ ان کی صحت جس قدر تیزی سے گر رہی ہے وہ اپنا یہ فریضہ
بخوبی ادا نہیں کر سکیں گے اس لئے انہوں نے بار باریہی درخواست کی جس پر
مجبوری کے عالم میں ان سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیکر ان کی جگہ
امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کو نیا وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔یہ
ان کی اعلیٰ خدمات تھیں کہ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزارت خارجہ کا
قلمدان واپس لیتے ہوئے کہاتھا کہ ان کیلئے شہزادہ سعود کی درخواست پر انہیں
سبکدوش کرنا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔شاہ سلمان نے اپنے تعریفی خط میں سابق
وزیر خارجہ کی دین،مذہب اور مادر وطن سے مخلصانہ وفاداری کا اچھے الفاظ میں
ذکرکیا اور لکھا کہ پوری سعودی قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔شہزادہ
سعود سے جب وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا گیا تو بعض سازشی قوتوں نے یہ
افواہ اڑائی کہ شاید ایسا اختلافات کی بنا پر کیا گیا ہے تاہم سابق وزیر
خارجہ نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہ سلمان کو ایک مراسلہ بھیجا اور اس
عزم کا اظہارکیا کہ میں پوری عمر ملک وقوم کا محافظ اور خادم بن کررہوں
گا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے متعلق شاہ سلمان نے جن محبت بھرے جذبات کا اظہار
کیا ہے میرے پاس اس کے شکریے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔وہ مجھے جو ذمہ داری
دیں گے میں انہیں قبول کروں گا اور اسے نبھانے میں اپنی تمام صلاحیتیں کھپا
دوں گا۔ میڈیا میں شہزادہ سعود کے اس بیان کی اشاعت کے بعد تمام افواہیں دم
توڑ گئیں اور سعودی عرب کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا کامیاب نہیں
ہوسکا۔ہم سمجھتے ہیں کہ شاہ فیصل ٹرسٹ کے چیئرمین ذوالقرنین کی جانب سے
اسلام آباد میں منعقد کیاجانے والا یہ تعزیتی ریفرنس ایک اچھا پروگرام تھا
جس میں اتنی بڑی تعداد میں سیاسی و مذہبی قائدین اور دانشور حضرات شریک
ہوئے اور شہزادہ سعود الفیصل کی بے مثال قربانیوں و خدمات کا ذکر کیا گیا
جو کہ یقینا لائق تحسین امر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی وفات سے سعودی عرب
اور پاکستان دونوں ایک عظیم مخلص لیڈر سے محروم ہو گئے ہیں۔ پوری مسلم امہ
دعا گو ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور نہیں جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
|