حکومت کا رواں مالی سال10سرکاری اداروں کی نجکاری یا ٹھکانے لگانے کا فیصلہ

پی پی کے خورشیدشاہ اور پی ٹی آئی کے عمران خان واضح کریں....!! آج کیا پی پی اور پی ٹی آئی بھی ن لیگ کے ساتھ قومی اداروں کی نجکاری میں ساتھ ہے....؟؟

آج جس طرح ن لیگ کی موجودہ حکومت قومی اورسرکاری اداروں پرخسارے کا الزام لگاکراِنہیں اپنے کاروباری اور ذاتی و سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے غرض سے جلد نجکاری کرنے کا ارادہ یافیصلہ کرچکی ہے اَب اِس صورتِ حال میں یہ کہناکچھ غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ حکومت اپنی مدت تک قائم رہی تو وہ دن دورنہیں کہ بہت جلد سرزمینِ پاکستان پر ماضی کی طرح ایسٹ انڈیاکی طرز کی صورتِ حال پیداہوجائے گی،اور ہم بظاہر آزادہوکربھی ایک مرتبہ پھر سرمایہ داروں ، صنعت کاروں اور کیپٹل ازم کے دلدادوں اور اِن کے چیلوں کی غلامی میں چلے جائیں گے جن سے ہمارے اکابرین اور ہمارے پرکھوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے سالوں اور صدیوں جدوجہدکی تھی۔اَب اِس منظر اور پس منظر میں ، میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ آج جس طرح کے الیکٹرک کی نجی نااہل انتظامیہ اپنی ناقص ا ور فرسودہ اقدامات و انتظامات کے باعث عوام الناس کو پہنچائی جانے والی پریشانیوں پر ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں ، احساس و احتساب اداروں کے سربراہان و اہلکاروں ،پولیس اور رینجرزکے قانون نافذ کرنے والے اعلی ٰ حکام سمیت پوچھ کچھ کرنے والے دیگر اداروں کے حکام بالااور عدلیہ کو تکنی کا ناچ نچارہی ہے اور اِن کے طلب کرنے پر اِنہیں ٹکاساجواب یہ ’’ہم سوائے اپنے مالکان کے کسی صدریا وزیراعظم اور کسی حکومتی ادارے کو اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا جواب دینے کے اہل نہیں ہیں‘‘دے دیاجاتاہے جس کے بعد سب کے منہ اور زبانیں بندہوجاتیں ہیں اور سب آنکھیں نیچے کرکے بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

آج ہمارے حکمرانوں اور مُلک میں احتساب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک کے الیکٹرک جیسے نجی ادارے کی انتظامیہ تو سنبھالی نہیں جارہی ہے یہ اِس کے ایک ٹٹو جیسے انتظامیہ اہلکار کے سامنے بھی خود کو بے بس اور مجبور کربیٹھتے ہیں اور اِدھراُدھر پہلوبدلتے رہ جاتے ہیں اور کے الیکٹرک کی مٹھی بھر انتظامیہ اِن کے قابو سے باہر ہے اور یہ سب کو اپنی چٹکی پر رکھتی ہے اور ہر حکومتی فرمان کو ہوامیں اُڑادیتی ہے آج ایسے میں ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں کوتو کے الیکٹرک کی اتنظامیہ کے سامنے اپنی بے توقیرسے سبق سیکھناچاہئے مگر اُلٹا یہ کہ حکومت رواں مالی سال مزید10اہم اور حساس سرکاری اداروں کی نجکاری یا اِنہیں اُونے پونے، بے مول بے تول جیسے کوڑیوں کے داموں ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کرچکی ہے میرے نزدیک حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز اور مُلک میں ایسٹ انڈیا طرز کی غلامی کادورپھر رائج کرانے کے مترادف ہوگا۔ہمارے وزیراعظم نوازشریف جن کا تعلق بھی کاروباری طبقے سے ہے جو کہ خود بھی مُلک اور دنیابھرمیں ایک بڑے بزنس مین ہونے کی اچھی شہرت رکھتے ہیں اور اپنی اِسی حیثیت سے جانے اور پہنچانے جاتے ہیں اِن کی اِس تھرڈ ٹائم حکومت میں ایک خبریہ آئی ہے کہ ’’ قومی خزانے میں اربوں ڈالرحاصل کرنے کے لئے پاکستان (وزیراعظم نوازشریف کی حکومت)آئی ایم ایف کی شرائط پر بغیر کسی چوں چراں کے متفق ہوگیاہے کہ وہ رواں مالی سال کے اختتام تک 10اہم سرکاری اداروں کی نجکاری کرے گاخبرکے مطابق دسمبر2015کے اختتام تک پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری بھی یقینی طور پر شامل ہے جس کا وزیرمملکت برائے نجکاری محمدزبیرنے دعویٰ کیاہے کہ پیپلزپارٹی سمیت مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں نے خسارے میں چلنے والے عوامی اداروں کی نجکاری کی بھرپورحمایت کا یقین دلایاہے محمدزبیرکا کہناہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے تمام لین دین کے منصفانہ نظام اپنائے جانے پر اپنی سب سے زیادہ یقینی حمایت کا وعدہ کیاہے وزیرمملکت برائے نجکاری محمدزبیرنے انتہائی وثوق کے ساتھ کہاہے کہ پی آئی اے اور اسٹیل مز کے لین دین کا اسٹرکچرتو اِس ہفتے میں مکمل کرلیاجائے گا،اِس موقع پر چیئرمین نجکاری کمیشن نے کہا کہ اِنہوں نے قومی خزانے کو سالانہ 5سوسے 6سوارب روپے تک کے نقصان سے بچانے کے لئے اپوزیشن لیڈراور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سیدخورشیدشاہ سے مشورہ مانگاتو اُنہوں نے کہاکہ پی پی نے اپنے 5سالہ دورمیں سرکاری اداروں کو ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لئے کئی جتن کیئے جن میں پی پی کو ایک رتی کی بھی کامیابی نہ ہوسکی لہذااِس بھاری نقصان سے بچنے کے لئے اسٹیٹس کو کے پاس آگے بڑھنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہے جبکہ اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے اتصلات سے 800ارب ڈالرزسے زائدکا طویل تنازعہ ابھی تک جاری ہے اور اُمیدہے کہ اِسے جلدحل کرلیاجائے گا‘‘۔اَب اِس کے بعد کیارہ جاتاہے کہ مُلک میں دس اہم قومی اداروں کی نجکاری کے ساتھ ہی پھر ایسٹ انڈیاطرز کی غلامی نہ آجائے۔

اگرچہ ایک طرف اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اپنی کاروباری خصلت کے اعتبار سے سیاسی اور کاروباری وذاتی مفادات کے لحاظ سے بھی قومی خزانہ زیادہ سے زیادہ بھرنے کے لئے رواں مالی سال اپنی نوعیت کے انتہائی اہم دس قومی اداروں کی نجکاری کرنے کے درپہ ہیں تو دوسری طرف پی پی اور پی ٹی آئی دوجماعتیں ہیں جو ایک طرف کافی عرصے سے عوام الناس کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ ن لیگ کی قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف ہیں اور یہ دونوں جماعتیں آخری دم تک بھرپورمزاحمت کرتی رہیں گی اور اَب پھر کیسے یہی دونوں جماعتیں اِس خبرمیں خاموشی سے حکومت کے ساتھ مل کرقومی ادارو ں کی فوری نجکاری کے فیصلوں میں بھی اپناساتھ دینے کی حمایت کا وعدہ کررہی ہیں اَب مندرجہ بالاخبرکی روشنی میں پی پی کے خورشیدشاہ اور پی ٹی آئی کے عمران خان کو عوام النا س کے سامنے اپنی اصل پوزیشن کو واضح کرناضروری ہوگاکہ یہ حکومت کے قومی اداروں کی نجکاری منصوبوں کے حامی ہیں یا واقعی پی پی اور پی ٹی آئی قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف ہیں اور یہ جماعتیں قومی اداروں کی نج کاری رکوانے تک عوام کو دھوکہ دے کر آنکھ میں دھول نہیں جھونکیں گی اور کھلم کھلاطور پر ن لیگ اور وزیراعظم نوازشریف کے قومی اداروں کی نجکاری منصوبوں کی مخالفت کرتی رہیں گی آج اگرایسانہیں کیاتو پھر عوام کا اِن پر سے اعتبارختم ہوجائے گا۔(ختم شُد)
 

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971244 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.