کشتی میں طلاتم ہو تو ساحل نہ ملیگا

جب دو بلّیاں ایک روٹی کے لیے لڑتی ہیں تووہ روٹی سیدھے بندر کے پیٹ میں چلی جاتی ہے۔اس کہانی کو سبھی لوگ بہت اچھی طرح سے جانتے ہوں گے،اپنے بچوں کو نصیحت کے لیے سناتے بھی ہوں گے۔ رشتے داروں میں بھی بھائیوں کے بیچ کسی بھی تنازعہ کے موقعہ پر یہ محاؤرہ سمجھ دار لوگوں کی طرف سے ضرور پیش کر دیا جاتا ہوگا۔لیکن جب دونوں بھائیوں کی اناء داؤں پر لگی ہوتی ہے تو اس طرح کے محاؤروں اور مشوروں کا ایک ہی ٹھکانا ہوتا ہے ’’بھاڑ میں جائے‘‘۔یعنی بندر کو ہم پوری روٹی کھلا سکتے ہیں لیکن آدھی آدھی روٹی آپس میں بانٹ نہیں سکتے۔بندر کی شکل میں وکیل بھی ہو سکتے ہیں،بے ایمان اور چالو قسم کے رشتہ داراور احباب بھی ہو سکتے ہیں۔

اس مثال سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ فریکین کی لڑائی میں ہمیشہ تیسرا فائدہ اُٹھاتا ہے۔ہمیں ایسے حالات سے بچنا چاہئے تاکہ ہمارا اور ہمارے اسلام کا نقصان نہ ہو۔لیکن حد تو یہ ہو رہی ہے کہ دین میں بھی اختلاف ہو رہا ہے کئی مسلک وجود میں آچکے ہیں اورموروثی جائداد کی طرح مذہب کو بانٹ ڈالا ہے۔حنفی، شافعئی،مالکی اورحنبلی یہ مسلک تو ہیں ہی ان کے علاوہ کسی نے دیوبندی کا ٹھپّہ لگا لیاکسی نے بریلوی کا جھنڈا اُٹھا لیا، کوئی اہل حدیث ہو گے تو کوئی اہل قرآن ہو گئے۔

مسلمانوں کی فرقہ بندی یہیں پرختم نہیں ہو جاتی ہے۔وہ بھی اپنے کو مسلمان کہتے ہیں جو بے گناہوں کو ،معصوموں کومسجدوں میں اور اسکولوں میں گھس کر مسلمانوں کو مارتے ہیں۔وہ بھی مسلمان کہے جاتے ہیں جو دہشت گردی کی انتہا کرتے ہیں لوگوں کی خوش حال زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں، دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے کو بم بنا لیتے ہیں۔ وہ بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہوتا ہے جو میر جعفر اور میر صادق کے فرائض آج بھی انجام دیتے ہیں۔میں کہاں تک مسلمانوں کے فرقوں کو گناؤں حضور اقدسؐ کی حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں: ’’یہودی ۷۱؍ فرقوں میں اور عیسائی ۷۲؍ فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور عنقریب میری امّت ۷۳؍فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی‘‘۔(مسلم و بخاری شریف)

ہم نے فرقوں میں منقسم ہو کراسلام کو بہت ہی نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی پہنچا رہے ہیں۔ اسی فرقہ بندی کے سبب ایک بہت بڑی قوم مسلمان ہوتے ہوتے رہ گئی۔کہانی قصّوں کی بات نہیں ہے ، حقیقت ہے کہ ’بابا صاحب بھیم راؤ امبیدکر ‘، اپنے موجودہ مذہب سے اُوب کر، اپنی قوم کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے تھے۔اور جب انھوں نے اپنی منشاء مہاتما گاندھی جی کے سامنے رکھی تو انھوں نے کہا ٹھیک ہے آپکو حق ہے آپ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔لیکن آپ کون سے مسلمان ہونا چاہیں گے سُنّی یا شیعہ، بریلوی یا دیو بندی؟گاندھی جی کے سوال سے لا جواب ہوکر بابا صاحب نے مسلمان ہونے کا ارادہ ترک کر دیا اور بودھ مذہب اختیار کر لیا۔آجکل یہ بات موضوع بحث ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں بڑھوتری ہو رہی ہے اور ایک تخمینہ یہ لگا یا گیا ہے کہ ۲۷۰؍سال کے بعد بھارت میں مسلمانوں کی آبادی ہندو آبادی کے برابر ہو جائے گی۔اگر مسلمان مسلکوں میں نہ بٹا ہوتا تو۲۷۰؍سال کا لگایا گیا تخمینہ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے ہی حقیقت بن چکا ہوتا۔یہ ہے مسلمانوں کا فرقوں میں بٹنے کا سب سے بڑا نقصان۔

جہاں تک حنفی، شافعئی،مالکی اورحنبلی کا سوال ہے تو ان میں بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے ۔ایک دوسرے کی عظمت کا خیال رکھتے ہوئے بخوشی ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔بعض بریلوی حضرات نے تو اپنی مساجد میں بورڈ لگا رکھا ہے ’جماعتی یا دیو بندی ‘ اس مسجد میں نہ آئیں۔دوسرے مسلک کا قاضی نکاح نہیں پڑھ سکتا اور اگر پڑھ دیگا تو پورے گاؤں کا نکاح ٹوٹ جائے گاجن کو پھرسے پڑھانا پڑیگا۔شریعت میں کسی ؂غیر مسلم کو کافر لفظ سے مخاطب کرنے کی ممانعت ہے لیکن کسی بھی کلمہ گو کو کافر کہہ دینے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔

ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے۔یہ ایسی قوم ہے جن کی شرارت سے قرآن نے مسلمانوں کو خبر دارکیا ہے۔عالمی جنگ میں’ ہٹلر‘ نے گِن گِن کر یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔کچھ یہودیوں کو اس نے یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ ان کی کمینگی دنیا دیکھے گی اُس وقت سمجھے گی کہ میں ان کو کیوں ختم کرنا چاہتا تھا۔

ایک عیسائی کا نظریہ یہودیوں کے لیے اس طرح کا ہو سکتا ہے تو فلسطین کے حالات کو دیکھنے پربہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہودیوں کی آنکھوں میں مسلمان کس سطرح کھٹک رہا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، یہ اپنی قوم کے علاوہ ہر کسی قوم کے دشمن ہیں۔عیسائیوں سے دشمنی کا تو یہ حال تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑپر پتہ نہیں کیا کیا الزامات لگا کران کو سولی پر چڑھا دیا۔

یہودی بھارتی مسلمانوں سے ابھی تک دور تھے کیونکہ بھارت سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی نہیں تھے لیکن۲۹؍جنوری ۱۹۹۲؁ء سے بھارت سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد’کریلا اور بھی کڑوا ہو گیا‘۔بھارت کے فرقہ پرست عناصر کو پشت پناہی ملنے لگی اور یہاں کی سیاست میں اس کا دخل بڑھتا جا رہا ہے،فرقہ پرست سیاستدان خفیہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں اسرائیل اس وقت بھارت کادوسرا سب سے بڑادفاعی پارٹنر ہے۔ دونوں ملکو ں کے مابین تجارت ایک ہزار ملین ڈالر سے متجاوز کر چکی ہے جو ۱۹۹۴ ؁ میں۶۵۰؍ملین ڈالر تھی۔تعلقات مزید مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل میں مقیم ستر ہزار ہندوستانی سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی لیے مسلمانوں کو اس وقت مسلکی بکھراؤ سے ہٹ کر اتحاد پر غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے اپنے مسالک پرثابت قدمی کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمانون میں اتحادہو جائے۔ہم سب کی کوشش بھی ہونی چاہۓ اور دعا بھی کی جانی چاہئے۔

ہماری کمزوریوں پر یہاں کے فرقہ پرست عناصر مزید زہریلے اوربے لگام ہو گئے ہیں۔حکومت میں بھی انہیں لوگوں کی اکثریت موجود ہے۔مسلمانوں پر شکنجہ کسا جا رہا ہے،ستانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، تاریخ کا جغرافیہ تبدیل کیا جا رہا ہے،’تاج محل ‘ کو مندر بتا رہے ہیں،ہماری مسجدیں ڈھائی جا رہی ہیں، بے گناہ مسلم جوانوں سے جیل بھرے جا رہے ہیں۔گجرات میں’ہاردک پٹیل‘ کاندھے پر بندوک رکھ کر ’تحفظات(Reservation)‘ کی مانگ کر رہا ہے ،اس پر میڈیا خاموش ہے،ائسی ویسی خاموشی نہیں’سانپ سونگھنے‘ والی خاموشی، انتظامیہ کو بھی کوئی خطرہ کی بات نہیں لگ رہی ہے۔اتنی بڑی چنوتی کے بعدسرکاربھی خاموش۔اگر پٹیل کی جگہ پر کوئی مسلمان ہوتا تو اﷲ کی پناہ،وہ شور اُٹھتا کہ ایوان خانہ سے لیکر شراب خانہ تک ایک ہی بات کہی جاتی ’پاکستان بھیجو‘۔’بھگوا وستر دھارن کرنے والے، نام نہاد مہا پرشوں نے‘ اور ان کی چمچہ گیری میں لگے نام نہاد مسلمان کو یہ جملہ طوطوں کے ’نبی جی بھیجو‘ کی طرح رٹ گیا ہے۔

ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نے دوسرے مسلک والوں کواپنے لیے کھلا دشمن تسلیم کر رکھا ہے۔ہمیں نرم گوشہ اپنانا پڑے گا،ہمیں ہر مسلک کے لوگوں سے تعلقات بنانے پڑیں گے۔ ہم اپنے مسلک ، اپنی جماعت پر ثابت قدمی سے جمے رہ کر صرف مسلمان بنے رہیں۔ مسلمان کے لیے یہ حکم ہے کہ کافر کو بھی کافر نہ کہاجائے تو پھریہ شیطانی ہر کت ہی ہے کہ مسلمان ،مسلمان کو کافر کہتا ہے۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب کا ایک شعر ہے ؂
دریا میں طلاتم ہو تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں طلاتم ہو تو ساحل نہ ملے گا

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ اپنے اپنے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہیں اور جب بھی ہم باہر نکلیں تو صرف مسلمان رہیں۔ شیعہ ، سنیّ ، بریلوی ، حنفی وغیرہ بن کر کہیں نہیں جانا ہے۔ہم متحد رہیں گے تو طاقتور بنے رہیں گے۔

ایک بزرگ نے اتحاد کے بارے میں کہا ہے کہ’’چنیونٹی اگر متحد ہو جائیں تو شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ اتحاد اور اتفاق میں خیر و برکت ہوتی ہے جبکہ بکھراؤ اور انتشار تباہی، بربادی اور غربت کا راستہ کھولتی ہے۔یہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں انہیں قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے اپنی پوری طاقت اور توانائی اپنی قوم کے اتحاد پر صرف کی ہو۔اس وقت ہمارے حالات بہت نازک چل رہے ہیں، ہمیں چڑھایا جا رہا ہے، ہمیں غصہ دلایا جا رہا ہے، ہم مسلمانوں میں جو اتحاد تھوڑا بہت باقی ہے اسے ختم کرنے کی جی توڑ کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں مختلف مسائل میں الجھایاجا رہا ہے۔اتحاد اور اتفاق میں ہماری عزت ہے اور ا سی لیے ہمارے دشمن اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہم متحد نہ ہونے پائیں اور اسی لیے ہمارے بیچ اختلاف پیدا کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں اور ہم مسلکی مسائل میں الجھے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی مسلمانوں میں اتحاد کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینیؒ بھی ہمیشہ مسلمانوں میں اتحاد کی ضرورت پر تاکید فرماتے رہتے تھے، تمام مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کسی بھی مسلمان کو دسرے مسلمان کے خلاف اشتعال دلانے والا شخص نہ شیعہ ہو سکتا ہے اور نہ سنی‘‘۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.