کہیں ایسا نہ ہو جائے محبّت غیر کی ، دل میں تمہارےان ﷺ سے بڑھ جائے
(پرویزاقبال آرائیں, Karachi)
بسم اللہ الرحمٰن الرَّحِیم
خبرداررہنا! کہیں ایسا نہ ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو جائے محبّت غیر کی ،
دل میں تمہارےان ﷺ سے بڑھ جائے!
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
دیکھنا میرے کلمہ گو بھائیوخبردار رہنا !
کہیں ایسا نہ ہو جائے محبّت غیر کی ، دل میں تمہارےان ﷺ سے بڑھ جائے!
اپنے فرقہ پرستی کے شوق کی خاطر اور اپنے فرقےکی حقانیّت و برتری کو ثابت
کرنے اور اپنے فرقے کے اکابرین کی حد سے زیادہ محبّت اور پیروی کےچکر میں
پڑ ے رہو !
اور صحابہءِ کرام کے طرزِ فکروعمل اور طریقے کے مطابق ، اللہ تعالٰی کے
کلام قرآن مجید، رسول اللہﷺ کی سنّۃ و اسوۃالحسنہ کے احکامات و تعلیمات اور
ہدایات کی اطاعت و اتباع اور پیروی میں کسی کوتاہی و غفلت یا لاپرہی کا
ارتکاب کر بیٹھو!
دیکھنا کہیں تمہارے فرقے اور اس فرقے کے اکابرین کی محبّت تمہارے دلوں سے
اللہ کے دین الاسلام یعنی (قرآن و سنّۃ و اسوۃ الحسنہ ) اور رسول اللہ ﷺ کی
محبّت اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع کا جزبہ مقابلتاًماند نہ پڑ جائے!
کیونکہ ارشادِ بای تعالٰی ہے: ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ
فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور
تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں
اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور
تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو
اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار
کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں
کو نہیں نوازتا "۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)
یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی ہیں کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی
ایک یا سب محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں
جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلےمیں زیادہ ہے تو پھر اللہ کے فیصلے کا
انتظار کرو۔ یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا لہجہ اور انداز ہے۔
ہم میں سے ہر ایک شخص کو چاہئےکہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کرے۔ اس کے
ایک پلڑےمیں یہ آٹھ محبّتیں ڈالے اور دوسرے پلڑے میں ایک ایک کر کے باری
باری اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جہاد کی محبّتیں ڈالے اور
پھر اپنا جائزہ لے کہ کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف
ہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ) ( القیامۃ) اس لیئے اسے
اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہو جائے گی۔ بہر حال اس سلسلے میں ہر
مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں ، محبّتیں اور
حقوق (بیوی، اولاد، نفس وغیرہ کے حقوق) ان تین محبتوں کے تابع اور ان سے
کمتر درجے میں ہیں تو اس کے معاملاتِ ایمان درست ہیں اگر مذکورہ آٹھ چیزوں
سے کسی ایک بھی چیز کی محبت یا سب محبتوں کو ملا کر اس مجموعے کا گراف یا
وزن ، اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے
جذبے سے اوپر چلا گیا تو یقین جان لیں کہ وہاں توحید و رسالت پر آپ کا
ایمان ختم ہو چکا ہے اور جو کچھ آپ نے باقی بچا کے رکھا ہے وہ سوائے شرک کے
کچھ نہیں ۔
ایمان کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن ، اللہ سبحانہ و
تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ، اطاعت و اتباع کو باقی تمام انسانوں اور
چیزوں کی محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے ۔ اسی حقیقت کو اقبال نے اپنے
ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے
یہ مال و دولت ِدنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!
آیت زیر نظر میں جو آتھ چیزیں اللہ ربّ العٰلمین نے گنوائی ہیں ان میں سے
پہلی پانچ رشتہ وپیوند کے زُمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تیں ، مال و دولت ِ
دنیاکی مختلف شکلیں ہیں ۔ علامہ اقبال ؔ فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کی اصل میں
کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت ہیں۔ جب تک
لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر سے اِن بتوں کو توڑا نہیں جائے گا ، بندۂ
مومن کے نہاں خانۂ دل میں توحید کا عَلَم بلند نہیں ہو گا۔
اورقرآن مجید میں دوسرے مقام پر خالقِ کائنات اللہ ربّ العالمین سبحانہ و
تعالٰی نے فرمایا " ترجمہ: "اور جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت
کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (جماعۃِصحابہءِ
کرام) کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف
پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں
گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ (4-سورۃ النّساء– اٰیۃ-
115)
ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت
اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے
جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضوان
اللہ تعالٰی علیہم ) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا
کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ ِمومنین
موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم
) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا
نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے راستے اور منہاج
سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع
امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی
مسئلے میں کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کا اتفاق یا
امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں
اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام
(رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی
اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم )
کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل
میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں ۔ جن میں
فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو ۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی
ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے اجماع کے انکار
کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے "کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو
گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی).
سو راہ ِحق کے ترک و اختیار کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر
کوئی جبر و اکراہ نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و
اختیار پر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا " لَا اِکْرَاہَ فِی
الدِّیْنِ" پس جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے راہ حق و ہدایت کو اپناتا ہے
اللہ تعالیٰ اس کو اسی کی توفیق دیتا ہے اور جو کوئی اسکے برعکس ضلالت و
گمراہی کے راستے کو اپناتا ہے اس کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے ، جس کفرو
گمراہی کی طرف وہ دانستہ پھر گیا ہے اللہ اس میں حائل نہیں ہوتا اور اسے
ادھر ہی پھرنے دیتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا "
انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ" ( 009:127) ترجمہ: "جب یہ لوگ
پھر گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا" یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور
اس کا ضابطہ و دستور یہی ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان
کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جدھر کو انہوں نے اپنا رخ خود کیا ہوتا ہے،
اور جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے "فَلَمَّا زَاغُوْٓا
اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ" ( 061:005) ترجمہ: " جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے
تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا"۔ یہاں پر المومنین سے مراد جیسا کہ
ظاہر ہے اور حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ اس سے صحابہ
کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) مراد ہیں، سو اس طرح اس ارشاد ربانی سے
راہ حق اور راہ باطل دونوں واضح ہو جاتی ہیں پس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کی راہ حق کی راہ ہے۔ اور ان کے
خلاف والی راہ باطل کی راہ ہے۔ اور رسول ﷺکی راہ سے،سنّۃِرسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وسلم) مراد ہے، اس لئے حق والوں کو اہل السنّۃکہا جاتا ہے۔ یعنی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّۃ کو ماننے والے نیز اہل حق چونکہ
تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو حق مانتے ہیں اس لئے وہ اہل
جماعت بھی کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم )
کی پوری جماعت کو بلا کسی تفریق و استثناء کے ماننے والے اس لئے حق والوں
کا نام و عنوان "اہل السنّۃ و الجماعۃ" ہے یعنی جو رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وسلم) کی سنّۃکو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سب
صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کو بھی مانتے اور انکو معیار حق
جانتے ہیں ۔ پس جو لوگ سنت کو نہیں مانتے وہ اہل حق کے خلاف، اور اہل باطل
میں سے ہیں (جیسے پرویزی، جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث)، اور اسی طرح جو لوگ
سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو نہیں مانتے بلکہ وہ ان کے
درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں یعنی کچھ کو مانتے ہیں، اور باقیوں کو نہیں
مانتے وہ بھی اہل حق میں سے نہیں، بلکہ اہل باطل میں سے ہیں جیسے وہ رافضی
جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔
والعیاذ باللہ العظیم، ان لوگوں کا شعار تبراء ہے ان کی کتابیں ایسی کفریہ
مغلظات سے بھری پڑی ہیں، اور جو صرف "پنجتن" کے پاک ہونے کا نظریہ رکھتے
اور دعویٰ کرتے ہیں۔
پس اہل حق وہی ہیں جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کو بھی
مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سب
صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو بھی بلا تفریق و استثناء حق
جانتے اور مانتے ہیں ۔ اسی لئے ان اہل حق کو "اہل السنۃ والجماعۃ" کہا جاتا
ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت اور ان ﷺ کے
صحابہء کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کی سب جماعت کو مانتے ہیں اور یہی
وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں پیغمبر نے ارشاد فرمایا "مَااَنَا عَلَیْہِ
وَاَصْحَابِی" یعنی اہل حق اور نجات و فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو میرے
اور میرے صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے طریقے پر ہیں ۔ پس اس سے حق
و باطل کے درمیان فرق و تمیز واضح ہے۔ اور اس پرکھ و معرفت کیلئے ایک ایسا
معیار رکھ دیا گیا جو نہایت واضح اور آسان بھی ہے۔ اور قیامت تک صاف
راہنمائی کرنے والا بھی۔ والحمد للہ جل علا.
اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہر اس شخص کے لیئے باعث
ہلاکت و تباہی ہےجس نےکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو توڑا اور جان
بوجھ کرکر ان کی خلاف ورزی کی - والعیاذ باللہ - اور رسول اللہ ﷺکی مخالفت
اور نافرمانی کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ انسان پیغمبر کے لائے ہوئے دین
متین سے پھر جائے اور اس سے مرتد ہوجائے اس میں اپنا الگ فرقہ بنائے -
والعیاذ باللہ ۔ سو اللہ جَلَّ جَلَاُلہٗ اور اس کے رسول اکرم (صلی اللہ
علیہ وسلم) کی مخالفت والعیاذ باللہ ہلاکت و تباہی کی راہ ہے اور اس کا
نتیجہ و انجام بہت ہی برا اور نہایت ہی ہولناک ہے - والعیاذ باللہ العظیم -
بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے رسول اور اس کی ہدایت کی مخالفت
کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان کے راستے سے ہٹ کر الگ اپنی پگڈنڈی (فرقہ)
اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو ان کی اپنی چاہت اور انتخاب کے مطابق ان کی
اپنی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے - والعیاذ باللہ - اور ان کی
اپنی اختیار کردہ یہ راہ ان کو سیدھی لے جا کر جہنم میں ڈالیگی جو کہ
خساروں کا خسارہ اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اور یہ ایسا خسارہ ہے جس کی پھر
تلافی بھی ممکن ہی نہیں ہوگی - والعیاذ باللہ العظیم - اللہ تعالیٰ ہمیشہ
اپنی عنایت و پناہ میں رکھے اور رسول اللہ ﷺ کی جماعۃ کے ساتھ جڑا رہنے کی
توفیق عطا فرمائے - آمین ثم آمین۔
اور حدیث رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وبارک و سلّم ہے : "لایؤمن احدکم
حتیٰ اکونَ اَحَبّ اِلیہ من وّالدہ و ولدہ والناّس اجمعین" (متفق علیہ)تم
میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں بن سکتا جب تک کہ میں (رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم) اسے اپنے والد، بیٹے اور تمام انسانوں سے
بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں، یعنی ایمان کا اولین تقاضہ ھے کہ انسان کو
والدین، اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہ و سلم) کے ساتھ قائم و دائم رہے اور اس محبت کا اولین تقاضہ ھے کہ سب
سے پہلے اور سب سے بڑھ کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم)کے دین
الاسلام اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع کی جائے اور کے مقابلے میں کسی
بھی دوسرے انسان کی محبت، فرماں برداری، اطاعت و اتباع اور کسی بھی دوسرے
جذبے اور چیز کو اس پرکو اولیت، ترجیح اور فوقیت ھرگز نہ دی جائے۔ اللہ
سبحانہ و تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے واضح احکامات و
تعلیمات ہیں کہ جن میں تفرقے (فرقہ پرستی) کی سخت ممانعت ہے لہذا ایمان کا
تقاضہ ھے کہ فرقوں کے بانیان و اکابرین اور فرقہ پرست علمائے کرام کے اقوال
و ارشادات اور تعلیمات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی تعلیمات
کو ترجیح، اولیت اور فوقیت دے کر فرقہ پرستی سے لاتعلق ہو جائیں، فقط
مسلمان کہلائیں، قرآن و سنت پر مبنی دین اسلام کو ہی صرف اپنا دین و مذہب
جانیں۔ اللهم صل و سلم وبارك على سيدنا و مولانا و حبيبنا و حبيب ربنا و
طبيبنا و شفيعنا و قرة عيننا محمد ن النبى الامي و على آله الطيبين و
ازواجه الطاهرات امهاة المؤمنين و اصجابه الابرار الكرام الطيبين و سائر
ملائکة المقربين و عبادالله الصالحين اجمعين، اللهم آمین برحمتک يا ارحم
الراحمين و بحرمة و ببركة وبوسیلة رحمة للعالمين صلى الله عليه و على آله و
اصحابه و بارك و سلم، آمين برحمتک يا رحمن يا رحيم يا كريم ياالله يا رب
العالمين
|
|