یا اﷲ ہمارے حال پہ رحم فرما

آج ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ لمحوں میں خبریں دنیا بھر میں محو گردش ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ کچھ واقعات ذاتی اور نجی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن اس سے عمومی سماج کی اخلاقی کیفیت اور سماجی پہچان کا پتہ ضرور ملتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واقعات جب گھر کی چار دیواری سے نکل کر دنیا بھر کے میڈیا کی ہیڈ لائینز بن جائیں تو پھر نجی اور ذاتی کیسے ؟ آج کل اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے ملنے والی مستندخبروں سے ہرمحب وطن پاکستانی اور درد دل رکھنے والا مسلمان کرب کی حالت سے گزر رہا ہے۔ بعض خبریں تو ایسی بے مثال ہیں کہ پہلے کبھی سنیں نہ دیکھیں۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ پاکستانی معاشرے کے کچھ لوگ اتنے بے حس، قوم دشمن اور لادین ہو جائیں گے کہ وہ خنزیر کا گوشت اپنے کلمہ گو بھائیوں کو کھلانے میں بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔ لیکن بد قسمتی سے لاہور جیسے شہر میں ایسا ہو رہا تھا یا ہونے جا رہا تھا۔ یہ بھی ہماری سوچ سے باہر تھا کہ بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبے کے سابق وزیر اعلی کے پی اے کے گھر سے آٹھ صندوق سونے اور نوٹوں کے بھرے نکلیں گے۔ ایک ایک سیاستدان اور بیوروکریٹ اربوں کی کرپشن میں ملوث ہو گا۔ یہاں تک کہ کراچی کے سرکاری ہسپتال میں علاج کیلئے داخل ہونے والے مخالف سیاستدانوں کو ( ایک سیاسی جماعت کا کا رکن) ڈائریکٹر فنانس انجکشنز کے ذریعے موت کے گھات اتر وا دے گا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ہسپتالوں میں بحیثیت ڈاکٹر یا نرس کام کرنے والی عزت مآب بیٹیوں اور بہنوں کو بلیک میل کرکے ان کی عزتیں نیلام کی جائیں گی اور ان کی داد رسی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ نو عمر بچوں کے ساتھ بد اخلاقی پر مبنی وڈیوز اور ان کی انڈیا میں فروخت نے تو پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔نو عمر سکول کے بچوں کا معاشقہ اور باہمی خود کشی کئی سوال چھوڑ گئی۔انتہا درجے کی مالی و اخلاقی بدعنوانیوں نے غربت، کسمپرسی اور اندھیروں میں ڈوبی قوم کا سر چکرا کے رکھ دیا ہے۔ بسا اوقات ایسے مواقع پر دل ماؤف ہوجاتا ہے۔ زبان گنگ ہوجاتی ہے ۔ وجود پہ سکتہ طاری ہوجاتا ہے اورہر محب وطن پاکستانی مجسمہ حیرت بن جاتاہے۔ پھرذہن میں کئی ایک سوالات جنم لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ذمہ دارکون ہے؟ ہمیں ہو کیا گیا ہے؟ کیا یہ واقعات قوم کے شعو ر کی بیداری کا سبب بنیں گے؟ کیا حکومت وقت اور ہماری سیاسی قیادت ان واقعات کی روشنی میں اصلاح احوال اور لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے لئے کام کرے گی یا سیاسی مفاہمت کے نام پر سب کچھ سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا؟ وغیرہ وغیرہ ۔

تاریخ اقوام و ملل کے مطامعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے تکلیف دہ سانحات وقوع پزیرہو جاتے ہیں۔ انبیاء و رسل کے جو واقعات قرآن میں ملتے ہیں وہاں بھی ان کی قوموں میں بیشمار اخلاقی و دینی کمزوریوں کا ذکر ملتا ہے۔ خود نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت معاشرہ تباہی کی آخری حدوں تک پہنچ گیا تھا۔ مذہبی حوالے سے حرم کعبہ میں 360 بت سجا کے ان کی پوجا کی جا رہی تھی جبکہ سماج میں بچیوں کو زندہ درگور کیا جا رہاتھا۔ حضرت لوط ؑ کی قوم غیر فطری بد کاریوں میں مبتلا تھی۔ قوم شعیبؑ دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ دھوکہ دہی اور کم تولنے کی عادی بن چکی تھی۔ قوم عاد و ثمود کے امراء ہر اونچی جگہ پر محلات بنا لیتے جبکہ معاشرے کے کمزور اور غریب طبقات کا معاشی قتل ہو رہا تھا۔ اسی طرح نوحؑ کی قوم کے متکبر امراء کسی غریب کے شانہ بہ شانہ بیٹھنا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق قوم لوط۔قوم شعیب۔قوم عاد۔قوم ثموداور قوم نوح پر اجتماعی عذاب آیا جس نے نا فرمانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

ہر دور میں نیکی و بدی اور خیر و شر رہی۔ اسی کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔ وطن عزیز کے ان حالات میں مایوسی گناہ ہے۔ اﷲ پر بھروسہ کر کے کمر ہمت باندھ لی جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ۔ اگرچہ دیگر خطہ ہائے زمین پر بھی بیشما رعیاشی و فحاشی پر مبنی حالات و واقعات موجود ہیں لیکن بقول اقبال
قیاس اپنی قوم کا اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ

مایوسی گناہ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے دو طبقات ان حالات کو تبدیل کرنے کیلئے باہمی مفاہمت اور یکجہتی سے اپنا منصبی کردار ادا کریں۔ ایک سیاسی قیادت اور دوسرے مذہبی طبقات۔ مفاہمت کو فروغ دیا جائے اور مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بلا امتیاز احتساب کا نظام رائج کرکے صاف اور شفاف کردار رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مسجد کے محراب و منبر سے عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں کے خاتمے کی آواز بلند ہو تو یقینا پر اثر ہوتی ہے۔ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس کی ایک ایک اکائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ان جملہ واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو بحیثیت استاد ، والدین اور عام فرد ہر ایک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے حصے کا کام بطریق احسن سر انجام دے۔ ایک دوسرے پر تنقید کر کے خود بری الذمہ ہو کر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا دینا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ بحیثیت قوم اﷲ کی بارگاہ میں گڑگڑا کے دعا کریں کہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے دین کوسمجھنے کا شعور عطا کرے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن کی قدر کرنے اور قومی حمیت اور مفادات کا احترام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219584 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More