تحریر۔علینہ ملک
ہر قوم کی تاریخ میں کچھ سنہری دن ایسے ہوتے ہیں ،جنہیں ہمیشہ سنہری حروف
میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔اور جو ہمیشہ لازوال رہتے ہیں ۔زندہ قومیں اپنی
تاریخ اور اپنے ماضی کو کبھی نہیں بھولتی ہیں ۔اور اسے نہ صرف یاد رکھتی
ہیں بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کرتی ہیں ۔بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں بھی
ایسے کئی روشن اور مثالی دن ہیں جو تا قیامت لازوال رہیں گے ۔ان میں سے ایک
دن ۶ستمبر ۱۹۶۵ کا بھی ہے ،اور تاریخ کا ایسا روشن باب ہے ،جب افواج
پاکستان اور پاکستانی قوم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے خلاف جرات اور
بہادری کی وہ داستان رقم کی جو رہتی دنیا تک لازوال رہے گی ۔
پاکستان کو بنے ابھی ۱۸ سال کا قلیل عرصہ ہی گزرا تھا کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ کو
رات کی تاریکی میں ہندوستان نے بنا کسی اعلان جنگ کے لاہور پر حملہ کر دیا
۔بھارتی فوج اور حکمران اس گھمنڈ میں تھے کہ پاکستان کے مقابلے میں صلاحیت
و وسائل اور عددی برتری کی وجہ سے وہ پاکستان کو زبردست شکست دے سکتے ہیں
۔اور بھارتی جنرلوں کو یہ یقین تھا کہ وہ ۷ ستمبر کی صبح کو لاہور کے جم
خانہ کلب میں فتح کا جشن منائیں گے ۔ مگر وہ یہ حقیقت بھول گئے کہ زمانہء
قدیم سے زمانہء جدید کی جنگوں کی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
رہی ہے کہ جنگوں میں فتح یا شکست کے لئے مورال ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا ہے
۔یعنی روائتی یا غیر روائتی جنگ میں جس فریق کا مورال بلند ہوگا ،اس کے جنگ
میں فتح یاب ہونے کے قوی امکانات ہو نگے ۔اور بلاشبہ مسلمان قوم نے اپنی
چودہ سو سالہ تاریخ میں ہمیشہ کسمپرسی اور بے سرو سامانی کے باوصف نہ صرف
بے شمار جنگوں میں فتح یابی حاصل کی بلکہ اکثر اوقات بے سرو سامانی میں بھی
دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ۔بقول اقبال،
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ ۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
۔
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلمان ، مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الہی ۔
تاریخ اسلام میں جذبہء ایمانی نے کبھی بھی عددی کمتری اور بے سرو سامانیوں
کو مسلمانوں کی کمزوری نہیں بنے دیا ۔مثلاغزوہ بدر میں جذبہء ایمانی نے
اپنی بے سرو سامانی کے باوجود ایسے دشمن کو چت کیا ،جو اس وقت کے جدید جنگی
ہتھیاروں سے لیس اور عددی بر تری میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی ۔اسی
طرح جنگ یر موک میں جذبہء ایمانی کی بدولت ۴۰ ہزار بے سروسامان اسلامی
مجائدین نے قیصریت کی عالمی طاقت کے دو لاکھ لشکر کو شکست فاش سے دو چار
کیا ، جنگ قادسیہ میں پہلی بار اسلامی مجاہدین کا واسطہ ہاتھیوں سے مسلح
لشکر سے پڑا تو یہ جذبہء ایمان ہی تھا کہ مجاہدین کے حوصلے پست نہ ہوئے اور
انہوں نے نت نئے وار کر کے ہاتھیوں پہ سوار دشمن کو تہہ و بالا کر دیا ،اور
جنگ مدائن میں مسلمانوں نے بے خوف و خطر اپنے گھوڑے طوفانی دریا میں دوڑا
دئیے اور فارسی فوج مسلمانوں کی یہ دلیری دیکھ کر بنا لڑائی کے میدان جنگ
چھوڑ کر بھاگ گئی۔ اور پھر یہی جذبہ ء ایمانی ۱۹۶۵ کی جنگ میں پاک فوج اور
پاکستانی قوم کے دلوں میں منور تھا ۔ اور اسی جذبہء ایمانی نے ان کے دلوں
میں عددی کمتری اور وسائل کی کمی کو کمتری یا کمزوری نہیں بننے دیا ۔بلا
شبہ ۶ ستمبر کی جنگ کے دوران پوری قوم نے اپنی مسلح افواج کی حوصلہ افزائی
کی اور مالی و اخلاقی امداد بہم پہنچانے کے لئے اپنے تمام اختلافات کو پس
پشت ڈال کر صرف اور صرف ایک ہی مقصد کے لئے متحد ہو گئی۔ اور افواج پاکستان
نے بھی بھر پور طریقے سے دشمن کی ننگی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔یہ جنگ
سترہ روز تک جاری رہی ،جس میں پاکستانی افواج نے بڑی جرات اور بہادری سے
اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے ،اورشجاعت اور قربانی کی
وہ لازوال داستان رقم کی جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔یہ جنگ سترہ روز تک
جاری رہی اور جب بھارت کو ٹھیک ٹھاک نقصان اٹھانا پڑا اور وہ اپنے مطلوبہ
مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی اپیل
کر ڈالی ۔چنانچہ ۲۳ ستمبر کو یہ جنگ اقوام متحدہ کی اپیل پر روک دی گئی
۔بحر حال اس جنگ سے بھارتی افواج اور حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات تو اچھی
طرح سے آگئی کہ پاکستانی افواج اپنے دفاع سے غافل نہیں ،بلکہ اسے منہ توڑ
جواب دینے کے قابل ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ۶۵ کی جنگ جب بھارت کی طرف سے
شروع کی گئی تو بھارتی افواج کا نہ صرف مورال بلند تھا ،بلکہ ہتھیاروں اور
عددی برتری کے لحاظ سے بھی وہ پاکستان سے بہت آگے تھے ۔تو پھر کیا وجہ تھی
کہ وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ،تو اس میں صرف اور صرف
ایک ہی راز پو شیدہ ہے کہ ایک مومن اور مسلمان صرف اور صرف اپنے رب کی رضا
اور دین حق کی خاطر لڑتا ہے ،اس کے دل میں کسی بھی قسم کا لالچ یا مراعات
کا حصول پیش نظر نہیں ہوتا ہے ۔اور جب توحید کی قوت اور اﷲ پر ایمان کی
طاقت ہو تو کسی قسم کی کمزوری یا کمی آڑے نہیں آتی ،اور مومن اپنے زور بازو
پر یقین رکھتے ہوئے اپنے تن ،من دھن کی بازی لگا دیتا ہے ۔اور جب اﷲ کی
تائید شامل ہو تو فتح و نصرت خود بخود مقدر ٹہرتی ہے ،بے شک۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن ،
نہ مال غنیمت ،نہ کشور کشائی۔ |