جرائم کا خاتمہ کرپشن کی روک
تھام اور قانون کی بالا دستی ، سیاسی مداخلت کی بنا پر محض ایک خواب بن گیا
ہے۔ ایف آئی اے جیسے ادارے میں ڈائریکٹر اور اسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر
بہت سے ایسے افسران تعینات ہوئے جو فیڈرل سروس کمیشن کا امتحان دیئے بغیر
گریڈ16,17میں بھرتی ہوگئے ،وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بھی غیر قانونی
بھرتیوں کا کیس نیب میں زیر التوا ہے ، جو نیب کے مطابق ابھی تک بند نہیں
کیا گیا ، ڈپٹی چیئرمین اور تین ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی اس معاملے کو کئی
سالوں سے دیکھ رہی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی میں غیر قانونی اور
سیاسی بھرتیوں کیخلاف دائر کیس میں وفاق وزارت داخلہ ، ایف آئی اور دیگر کو
، رٹ پیٹشن 1801/15کے تحت نوٹس جاری کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ڈی آئی جی ایس
پی آر پی آفتاب پٹھان نے آئی جی سندھ کو ایک لیٹر کے ذریعے نے پولیس میں
500 اہلکاروں کی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ قانونی
تقاضے پورے کئے بغیر کانسٹیبلوں کو بھرتی کیا گیا اشتہار بھی نہیں دیا ان
اہلکاروں کو تنخواہ کہاں سے ملے گی اس کا ذمے دار کون ہے ، خط میں ایس ،
ایس آر پی سکھر کیخلاف محکمہ جاتی کاروائی کی درخواست بھی کی گئی۔وفاقی
وزرات پیداوار کے ماتحت ادارے"اینار پیٹروٹیکسروس لمیٹڈ" کے منیجنگ
ڈائریکٹر ثنا اﷲ شاہ کی جانب سے پابندی کے باوجود 2010 ء میں بغیر اشتہار
دیئے غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا لیکن ایم ڈی کے خلاف کاروائی کے
بجائے سیاسی دباؤ پر انہیں ان کے عہدے پر پھر بحال کردیا گیاتھا۔2014ء میں
جھڈو تعلقہ کونسل میں نوکریوں پر پابندی کے باوجود سیاسی دباؤ اور افسران
کی رشوت خوری کے سبب غیر قانونی بھرتیاں کیئں گئیں ۔کونسل کے ملازمین جاوید
کانی و دیگر نے بتایا کہ کونسل کا بجٹ کا 85فیصد حصہ ملازمین کی تنخواہوں
پر ہی خرچ ہوجاتا ہے ، مزید بھرتیوں سے تعلقہ کونسل کا دلوالیہ نکل چکا ہے۔
جمعیت علما ئے اسلام کے صوبائی ڈپٹی سالار صلاح الدین نے انکشاف کیا کہ
چترال لیویز میں 25فروری تک بے روزگار نوجوانوں کو درخواستیں دائر کرنے کا
کہا گیا لیکن اس قبل ہی 30جنوری 2015ء کو میرٹ اور قانون کے بغیر کثیر
تعداد میں غیر قانونی طور پر بھرتی کرلیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کہ حکام
بالا کے حکم پر براہ راست نوجوان بھرتی ہوئے تھے۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان
یونس ڈاگا نے غیر قانونی اساتذہ کو گھر بھیجنے والی ضلع سکردو نے محکمہ
تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں کی جب تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیکر
ابتڈائی رپورٹ پیش کی تو سیاسی رہنماؤں میں بے چینی پھیل گئی۔ اسی طرح دیا
مر میں غیر قانونی بھرتیوں کا اسکنڈل جنوری2015ء میں سامنے آیا کہ99 افراد
غیر قانونی و غیر مقامی بھرتی کئے گئے، اصل متاثرین کی حق تلفی ہوئی ، طلبا
اتحاد کونسل کے رہنماؤں نے بتایا کہ دیا مر بھاشہ ڈیم میں بغیر اشتہار غیر
قانونی بھرتیاں کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں اور کوئی سنوائی کرنے والا
نہیں۔ سپریم کورٹ نے جب گریڈ 16کے سابق ٹرانز یشن آفیسر، سہون کو ہٹایا گیا
توانکشاف ہوا کہ سابقا دور حکومت میں گریڈ ایک سے گریڈ 10تک 443ملازمین غیر
قانونی طور پر بھرتی ہوئے ، 443ملازمین کے علاوہ آفس اسٹنٹ نے ایک سو زائد
آڈر اپنے رشتے داروں میں تقسیم کئے، مسلمانوں کوسینٹیری ورکر ریگولر کیا
گیا ، ملازمین کی بھاری تعداد کی تنخواہوں کے سبب سہون میں ترقیاتی کام
متاثر ہوئے ۔سیکرٹری تعلیم سندھ فضل اﷲ پیچوہو نے بتایا کہ2012ء کے بعد
محکمے میں غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں اور ایسے افراد کو مقرر کیا گیا جن کا
ٹیچنگ سے کوئی واسطہ نہیں ، نیب حکام اس پر تحقیقات کر رہے ہیں۔انھوں نے
بتایا کہ ایک معاملہ ایسا بھی آیا تھا کہ ایک پرائمری ٹیچر نے انگوٹھا لگا
کر تنخواہ ووصول کرتا تھا، گھوسٹ سکولوں اور گھوسٹ ملازمین کی ایک بہت بڑی
تعداد ہے جو غیر قانونی بھرتی ہوئی، یہ سب رشوت اور سفارش کے تحت کیا جاتا
ہے۔صنعتکاروں کے مطالبے پر سندھ انڈسٹریل اسٹیٹ لمیٹڈ ( سائٹ) میں سیاسی
بنیادوں پر غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کا اسکینڈل سامنے آیا جس میں چند
سالوں میں سینکڑوں افراد کو غیر قانونی بھرتی گیا گیا۔سندھ انڈسٹریل اسٹیٹ
لمیٹڈ ( سائٹ) کی دس سالہ آڈٹ کا مطالبہ اور گوسٹ ملازمین کو بھرتی کرنے
والوں کے خلاف کوئی کاروائی تاحال نہیں کی جاسکی ہے۔ 2013ء میں پاکستان
اسپورٹس بورڈ میں گریڈ ایک سے 17گریڈ کے تین سو ملازمین کی بھرتی میں 150سے
زائد غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا جس میں ملازمین کی بھرتی میں تعلیمی
کوائف اور عمر کی حد تک کو نظر انداز کردیا گیا۔متعدد ملازمین ، میر ہزار
خان بجارانی ، پیر آفتاب شاہ اور میر اعجاز جکھرانی کے دور میں ہوئے اس کا
انکشاف وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ کو دی گئی بریفنگ میں ہوا ،
وزرات بین الصوبائی رابطہ نے غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات شروع کیں لیکن
ذرائع کے مطابق ہنوز آج تک ملازمین سابق وزرا کے گھروں میں کام کر رہے ہیں
اور تنخواہ سپورٹس بورڈ سے لے رہے ہیں۔لاتعداد غیر قانونی بھرتیوں کی ایک
طویل ترین فہرست میں واٹر بورڈ، کے ایم سی ، کے ڈی اے ، تحصلیں، ٹاؤن
کونسلیں سرکاری ہسپتالوں اور دیگر قومی اداروں کی بھی ہے، لیکن سیاسی اثر
رسوخ کی بنا ء پر باقاعدہ کوئی کاروائی نہیں کی جاتی کیونکہ ایسے سیاسی
ایشو بنا دیا جاتا لیکن اس کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر جعلی تقرر نامے دینے
کا بھی انکشاف ہوا ہے۔گذشتہ دنوں سندھ کے محکمہ بلدیات میں جعلی بھرتیوں کا
انکشاف ہونے کے بعد 100سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کردیا۔ یہ
بھریاں سیاسی سفارش پر گریڈ 1سے گریڈ 14تک 2012سے 2013 کی گئی تھیں ۔ محکمے
کو نو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ،سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں
جعلی تقرر ناموں کا ایک بہت بڑا اسکینڈل ابھی تک انصاف کا منتظر ہے۔گریڈ2سے
گریڈ 16تک کے متاثرین اپنے تقرر ناموں کے ساتھ ابھی تک در بدر کی ٹھولریں
کھا رہے ہیں۔ اندرون سندھ ، سوشل سیکورٹی آفسوں اور اسپتالوں میں منصوبہ
بندی کے تحت سینکڑوں نوجوانوں کے تقرر ناموں کو جعلی قرار دیکر نوجوانوں کا
مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا۔16مارچ 2013ء کو سندھ حکومت کے خاتمے سے قبل
محکمہ محنت میں ایک ہزار سے زائد نوکریوں کے آرڈر تیار کئے گئے لیکن ان
تقرر ناموں پر دستخط کرنے والے مجاز ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ( میڈیکل ) علی
اکبر پلیجو اورڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن (جنرل) امیر حید رکی مسلسل غیر حاضریوں
کے سبب 13مارچ 2013ء کوان کی جگہ سابق صوبائی وزیر محنت امیر نواب نے چیف
سیکرٹری کوٹری سرکل اشتیا ق خٹک اور کراچی سے علی اکبر منگی ڈائریکٹر
لانڈھی ڈائیکوریٹ کراچی کو ایڈیشنل چارج دے دیا۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر
کمشنر سیسی اور وزیر محنت امیر نواب کے دستخط موجود ہیں ،اصل تقرریاں کس
طرح جعلی بن جاتی ہیں اس پر ایک ادارے کا مختصراََ تجزیہ کریں تو پتہ چلتا
ہے کہ سیسی کے کورننگ باڈی کے 138ویں اجلاس کے ایجنڈے کے صفحہ نمبر17میں
اسکیل2تا سکیل19نوکریوں کی اجازت دی گئی اور پھرسندھ ایمپلائر سوشل سیکورٹی
انسٹی ٹیوشن نے قومی اخبارات میں باقاعدہ اشتہار دیا اور اس میں ان تمام
گریڈ کے ملازمیں کے لئے طریق کار و تاریخ 31مئی 2012مقرر کئی گئی ۔ ایک
اشتہارINF KRY -2261 12 ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کے کمشنر نے جاری کیا جبکہ
ایک اشتہار ڈاکٹر علی پلیجو ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن میڈیکل کے کمشنر نے قومی
اخبارات میں جاری کیا۔ INF-KRY2300/12 نمبر کے تحت مختلف گریڈ کیلئے اشتہار
23مئی2012ء کو جاری ہوا جس میں سیسی ہیڈ آفس کے لئے 05جون 2012ء تک
درخواستیں طلب کی گئی تھی۔اس کے بعد 25مئی 2012اور 25مئی2012ء کی مشتہر
اسامیوں کیلئے قومی اخبارات میں ٹیسٹ شیڈول کیلئے 27 تا 28جون 2012ء سہ پہر
گیارہ بجے سے دوپہر بارہ اور ساڑھے تین بجے کا وقت دیا گیا۔تمام مراحل کے
بعد منتخب امیداواروں کو ٓآفرلیٹر جاری ہوئے جس میں جوائنگ کیلئے جگہ بتائی
گئیں لیکن پھر یکدم سارے عمل کو جعلی قرار دے دیا گیا۔حیران کن بات یہ تھی
کہ چیف میڈیکل آفسر کوٹری سرکل اشتیاق خٹک اورڈائریکٹر سوشل سیکورٹی کراچی
علی احمد منگی نے بھی دستخطوں کو جعلی قرار دے دیا اور دوسری جانب یونین کے
احتجاج پر سیکرٹری محنت نے ایکشن لیتے ہوئے مبینہ چیف میڈیکل آفسر کوٹری
سرکل اشتیاق خٹک اورڈائریکٹر سوشل سیکورٹی کراچی علی احمد منگی کو فوری طور
پر چارج چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے حکم نامے نمبر Admin2013/ 1637SSمیں
کمشنر نے محکمہ کے تمام ڈیپارٹمنٹس ، ڈائریکٹرمیڈیکل ، سپریٹنڈنٹ اور سرکل
چیف آفیسر کے دستخطوں سے جاری لیٹر پر کوئی کاروائی نہیں کی جائے۔متاثرین
نے متعدد اداروں میں درخواستیں دیں لیکن ہمیشہ کی طرح معاملات سرد خانے میں
ڈال دئیے گئے۔ تمام تر قانونی طریقے کار پر عمل درآمد کے بعد تقرریاں کا
جعلی ہونا حیران کن عمل ہے۔ ان اسامیوں کیلئے دوبارہ قومی
اخبارات2جون2015کو اشتہارات جاری کئے گئے حالانکہ ان اسامیوں کے ٹیسٹ اور
انٹرویو کئے جانے کے بعد آفر لیٹر اور جوائنگ لیٹر بھی جاری ہوچکے تھے۔
دوسری جانب ابھی تک سندھ کی تحقیقاتی کمیٹیاں سراغ نہیں لگا سکی ہیں کہ
سینکٹروں تقرر نامے جیسے جعلی قرار دیا گیا اس کے ذمے دار کون تھے اور کیا
یہ تقرر نامے کسی خاص مقصد کے تحت جاری کئے گئے تھے ۔اہم ترین بات یہ ہے کہ
جن افسران نے یہ دستخط کئے خود اپنے دستخطوں کو جعلی قرار دیکر معاملے کو
سرد خانے میں کیوں ڈال دیا ۔چیف سیکرٹری سندھ ، وزیر محنت محکمہ انسداد
رشوت ستانی کی معنی خیز خاموشی نے اس بڑے اسکینڈل پر سوالیہ نشان کھڑا
کردیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جعلی دستخطوں سے تقرریوں میں دستخطوں کی
فرانزک جانچ کیوں نہیں کرائی گئی اور جعلی دستخط کو فرانزک نتیجے کے لئے
کیوں بھیجا نہیں گیا۔ جبکہ سوشل سیکورٹی کے ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ تمام
تقرریوں پر دستخط اصلی ہیں اور من پسند تحقیقات میں بیانات کی آڑ لیکر اس
معاملے کو ابھی تک سرد خانے میں ڈالا ہوا ہے۔سوشل سیکورٹی ایڈوائری کمیٹی
کے رکن ڈاکٹر سلیم طاہر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتنی بڑی تقرریوں کے
ہونے اور جوائنگ رپورٹ دینے کے عمل سے افسران بے خبر ہوں یہ ہو ہی نہیں
سکتا.جن محکموں میں ایک دن میں سات سو انٹرویو چند گھنٹوں میں لئے جائیں تو
میرٹ کے قتل عام پر سوموٹو کب اور کون لے گا ۔ غیر قانونی بھرتیوں و
تقرریوں کسطرح بن جاتی ہےSESSI مثال ہے جس کے متاثرین کا کوئی پرسان حال
نہیں۔ |