گلشن کا کاروبار

مغل شہنشاہ کے دور میں زنجیر عدل ہوا کرتی تھی جسے کوئی بھی مظلوم ہلا کر اپنی فریاد براہ راست بادشاہ تک پہنچا کرمطمئن ہوکر گھر بیٹھ جایا کرتا تھااس لیے کہ اسے اپنے بادشاہ پر یقین تھا کہ اب اسے انصاف مل کررہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی کیونکہ بادشاہ انصاف کرنے والا ہوتاتھا مگرہمارے بادشاہ نما حکمرانوں نے امریکہ ،برطانیہ اور دبئی میں جائیداد بنا لی اور پیسے سوئس بنکوں میں جمع کرکے پھر اپنا شوق حکمرانی کرنے عوام کی گردنوں پر سوار ہوگئے ملک دہشت گردی کی نظر ہوگیا آئے روز بم دھماکوں میں بے گناہ اور معصوم شہری اپنی جان سے گذرنا شروع ہوگئے رہے سہے لوگ غربت کی جلتی ہوئی بھٹی میں مکئی کے دانوں کی طرح بھنے جانے لگے غربت نے لوگوں کو سر سے لیکر پاؤں تک ایسا جکڑا کہ انکی رہی سہی عقل ودانش بھی کنارہ کرگئی ایک ایک روپے کی خاطر ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑنامعمول بن گیازندہ رہنے کے لیے اور پھر مرنے کے بعد کفن دفن کے لیے بھی ایک دوسرے کے محتاج بنا کر ہمیں غلام بنا لیا گیا کہ پھر اچانک شہدا کے وارث جنرل راحیل شریف نے اس ملک سے گند اور گندگی پھیلانے والوں کے خلاف ایک ایسا آپریشن شروع کیا اور سب سے پہلے بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گردوں کو دھول چٹائی اور اب ایسے دہشت گردوں کو پکڑا جارہا ہے جنہوں نے عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالے اور معاشی دہشت گردی کرتے رہے پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں پہلی بارسیاسی ،معاشی اور قومی دہشت گرد وں اور کرپٹ لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالا جارہا ہے عوام کو چاہیے کہ وہ اب تو متحد ہ ہو جائے کسی سیاسی حکمران، وڈیرے ،جاگیر دار اور بابو کے لیے نہیں بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے متحد ہوجائے اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے گذر گیا تو پھروہ فرق بھی ختم ہو جائیگا جو اب ہمارے سیاستدانوں نے چھوٹے چوروں اور بڑے ڈاکوؤں میں پیدا کررکھاہے انکے خیال کے مطابق چھوٹے چور کو بیشک لٹکا دو مگر بڑے ڈاکو کو کچھ نہ کہو کیونکہ اسی کے دم قدم سے تو گلشن کا کاروبار چل رہا ہے گلشن سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے کچھ دن پیچھے چلتے ہیں جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ماضی میں وزارتوں کا مزہ لوٹنے والے خورشید شاہ صاحب نے فرمایاتھا کہ آرمی چیف اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا سسٹم کو چلنے دیں شاہ جی بات کررہے ہیں اس سسٹم کی جو قیام پاکستان سے آج تک رائج ہے میگا کرپشن کرکے ملک کی جڑین کھوکھلی کرنے والے سسٹم کی ،خاندانی بادشاہت قائم کرنے کے سسٹم کی ،دہشت گردوں کی پشت پناہی اور بے گناہوں کے خون سے اپنی سیاست چمکانے کے سسٹم کی ،دھاندلی کے زریعے برسراقتدار آنا اور پھر بار بار باریاں لینے کے سسٹم کی ،مک مکا،کمیشن اوررشوت کے بازارگرم کرنے کے سسٹم کی،ملک سے غداری کرکے بلوچستان کو الگ کرنے کے سسٹم کی ،چائینہ کٹنگ کے نام پر اربوں روپے کے فراڈ کے سسٹم کی ،غربت میں بے تحاشہ اضافے کے سسٹم کی ،لوٹ مار اور چور بازاری کو پروان چڑھانے کے سسٹم کی ،مہنگائی کے قدموں تلے غریبوں کو کچلنے والے سسٹم کی ،بے روزگاری اور بھوک کے ہاتھوں موت بانٹنے والے سسٹم کی، بہاولپور سے تعلق رکھنے والی خاتون ایم پی اے جسکی بیٹی کو اسکے دیور نے پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی اور پھر انصاف کے حصول کے لیے اس خاتون ایم پی اے کو سپیکر کے ترلے اور منتیں کرنے والے سفارشی سسٹم کی اور ایک ایسے نہ ختم ہونے والے سسٹم کی جہاں غریب کا بچہ صبح سے شام تک مزدوری کرے تاکہ اسکے گھر میں کہیں فاقہ کشی نہ شروع ہوجائے ،اور شاہ جی ایسے سسٹم کو چلتے رہنے دینا چاہتے ہیں جہاں بڑے ڈاکوں ایوانوں میں اور بھوک مٹانے والے چھوٹے چور جیلوں میں چکیاں پیس رہے ہیں جیلوں کا ذکر آیا تو بتاتا چلوں کہ اس وقت پنجاب کی جیلیں کرپشن کا گڑھ اور جرائم کی یونیورسٹیاں بن چکی ہے ہیں جیل کے اندر داخل ہونے سے لیکر جیل کی بارک تک ہر جگہ نیلام ہورہی ہے جیل کے اندر اور باہر مختلف پرکشش مقامات پر تعیناتیوں کی بولیاں لگائی جارہی ہیں اور اندر بند قیدیوں اور حوالاتیوں کو الٹی چھری سے ذبح کیا جارہا ہے اس بارے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہمارے سیاستدان سب جانتے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی اکثریت جیلوں میں یہ سب تجربے کرچکی ہے کہ کس کو کتنے پیسے دیکر کس طرح کی سہولت لینی ہے اگر اسمبلیوں میں بیٹھے یہ سیاستدان صرف جیل کے نظام کو بدلنا چاہیں تو بھی نہیں بدل سکتے ہیں کیونکہ یہ طاقتور مظلوم لوگ تو اپنے سیکریٹری اسمبلی کو نہیں بدل سکتے جو آئے روز پنجاب اسمبلی کو میکدہ بنا کر جام چھلکا رہا ہوتا ہے ایسے خیر خواہ سیاستدانوں سے خیر کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے اسی لیے تو شاہ جی کہہ رہے ہیں کہ خدارا سی سسٹم کو چلنے دیں کیونکہ اگر یہ سسٹم بند ہوگیا توکہیں ملک کا نظام ہی تبدیل نہ ہوجائے پھرمظلوم کو حصول انصاف کے لیے کسی سفارشی سسٹم کی ضرورت نہیں پڑے گی ہمارا موجود ہ عدالتی نظام ہی اس قدر اچھا بن جائیگا کہ ہمیں پھر کسی فوجی عدالت کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ،ہماری این جی اوز اور قومی ادارے اتنے فعال ہوجائیں گے کہ مشکل وقت میں ہمیں کسی اور کے کندھے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہمارے بابو جو اب کرپشن کے بادشاہ ہیں حقیقی معنوں میں عوام کے خادم بن جائیں گے اور نام نہاد خادم اعلی بن کرکوئی عوام کاحاکم اعلی بننے کی کوشش نہیں کریگا ،کسی غریب کو ہسپتال میں دو گولی پینا ڈول کے لیے سارا دن ذلیل وخوار نہیں کیا جائیگا ،ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز جیسے اہم محکمے میں انٹی کرپشن کو مطلوب افراد اعلی عہدوں پر کام نہیں کررہے ہونگے اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ کسی بھی بے گناہ کو زندگی سے محروم نہیں کیا جائیگا خدا را اب تو گلشن کا کاروبار بند ہونا چاہیے ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.