صرف قومی مفاد کو ہی ترجیح دیں

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سات سال سے جاری تعلقات اکثر نشیب و فراز کا شکاررہے۔ 2007ء میں میثاق جمہوریت ، 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ ن کے وزراء بھی شامل تھے2009 ء تک معاملات ٹھیک چلتے رہے پھر اچانک پنجاب میں گورنر راج کا نفاذ کرکے مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت ختم کردی گئی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پھر ایک دوسرے کے سامنے آگئیں 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن وفاق میں بر سر اقتدار آئی تو پیپلز پارٹی نے فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار ادا کیا پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک مسلم لیگ ن کے مقابلے پر سامنے آئی اس وقت بھی پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی نظر آئی اب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہونے کے بعد دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہیں ۔کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ، کراچی ٹارگٹ آپریشن کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور متفقہ رائے سے کیا گیا تھا کرپشن میں ملوث اگر کسی شخص کو ثبوت و شواہد کے ساتھ گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت یا ان کی قیادت کے قریب ترین نظر آتا ہے ڈاکٹر عاصم حسین جو کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب ترین سمجھے جاتے ہیں ان کی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری زیادہ برہم نظر آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ چیف سیکر ٹریوں کے علاوہ بعض صوبائی وزرا ء حفاظتی ضمانتوں پر ہیں یہ افراد بھی پارٹی قیادت کے قریب نظر آتے ہیں ان سے کی جانے والی تفتیش مزید گرفتاریوں کی راہ ہموار کرسکتی ہے ۔ڈاکٹر عاصم حسین 90روز کی تفتیش مکمل ہونے سے قبل ہی سیکورٹی اداروں کو بہت کچھ بتا چکے ہیں بلکہ 28 افراد کی لسٹ دینے کی بھی اطلاعات زبان زد عام ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ توقع سے بڑھ کر سیکورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں حالیہ گر فتاریاں اسی کا تسلسل ہیں جن کی تفتیش کی بنیاد پر بعض دیگر کرداروں پر کار روائی کی جائے گی ۔آپریشن کے ذمہ داروں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان چپقلش کیارخ اختیار کرتی ہے وہ اپنا کا م جاری رکھیں گے پیپلز پارٹی کے تمام تر جارحانہ رد عمل کے باوجو د کرپشن اور جرائم کے خلاف سکیورٹی اداروں کی جانب سے کارروائیاں نہ صر ف جاری رہیں گی بلکہ ان میں تیز ی متوقع ہے۔ رواں سال جون کے وسط میں اسلام آباد میں آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں مقتد اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس بار محتاط رہے اپنے سخت ترین بیان میں ان کی توپوں کے رخ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف رہے اسلام آباد کے بیان پر ان کی تنقید کو خود ان کے پارٹی ارکان نے ان کی ذاتی رائے قرار دے کر لا تعلقی اختیا ر کرلی تھی کوئی بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا دفا ع کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ حکومت نے وفاقی وزیر داخلہ کو سخت جواب دینے کا کہہ کر خود دوسر ے روز وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا تھا حالیہ بیان میں آصف علی زرداری نے فوج اور رینجرز کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا ۔کسی بھی سیاسی رہنما کی سوچ کا پابند اس جماعت کے اراکین کو تو کیا جاسکتا ہے مگر پوری قوم کو اسے اپنا نے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح کسی بھی جماعت کو ریاست کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ایک ایسے وقت جب پاکستان بے پناہ مسائل میں گھرا ہوا ہے سیاسی رہنماؤں پر لاز م ہے کہ وہ قوم کو متحد کریں مگر افسوس کہ بعض رہنما سیاسی انتشار میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مفاہمت کے نام پر قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔مفاہمت کی اس سیاست کا انداز ہ سندھ میں کرپشن کے میگا سیکنڈلز منظر عام پر آنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جہاں قومی وسائل کی بندر بانٹ کچھ اس انداز سے کی گئی کہ آج بس سندھ برائے فروخت کا اشتہار آناباقی رہ گیا ہے تاہم جہاں تک ایم کیو ایم کے کھالیں جمع کرنے پر پابندی بارے واویلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قانون نافذ کر نے والے اداروں کا کہنا ہے کہ زبردستی کھالیں جمع کرنا در حقیقت بھتہ وصولی کی ہی ایک شکل ہے اوریہ پابندی صرف ایم کیو ایم پرہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں پر بھی لگائی گئی ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور کر اچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی سے شروع کیا گیا مگر جب آپریشن بلا امتیاز شروع ہوا تو بجائے سیاسی جماعتیں خود کو دہشت گر د اور شدت پسند عناصر سے علیحدہ کرتیں الٹا ان کا دفاع کرنے کے لیے سامنے آگئیں وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جمعہ کے روز ہونے والی ملاقات کو ایم کیو ایم او ر حکومت مذاکراتی عمل کے حوالے سے خاصااہم قرار دیا جارہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ حکومت نے ایم کیو ایم کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ سکیورٹی اداروں کے کام میں رکاوٹ بننے والے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاسکتے اسی طرح حکومت نے سیاسی سر گرمیوں پر پابندی لگانے کے ایم کیو ایم کے الزام کو بھی سختی سے مستر د کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کی آڑ میں مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی یہی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ فلاحی سر گرمیوں سے ہونے ہوالی رقوم دہشت گردی میں استعمال ہونے کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جاسکتی حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کو سیاسی تحفظات دور کرنے کی مبینہ پیشکش درست ہے کیونکہ اب یہ حقیقت ان پر آشکا ر ہوچکی ہے کہ کرپشن کاپیسہ ہی دہشت گردی میں استعمال کیا جاتا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے صرف قومی مفاد کو ہی ترجیح دیں اس لئے بہتر ہوگا کہ ایسے مطالبات کو ترک کردیا جائے جس سے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 19335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.