سلیم احمد زخمیؔ بالودوی مرحوم
میڈیا اور خصوصاً انٹرنیٹ کے بر سرِ کار آنے کے بعد اُردو کو جو فروغ حاصل
ہوا ، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ذرائع ابلاغ کے اِن نیے اور منفرد مظاہر کے
نمودار ہونے کے بعد اُردو شعرو سخن کو بھی عالمی سطح پر فروغ حاصل ہوا
ہے،جو فی الحقیقت حیرت انگیز ہے۔لیکن صورتحال کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ
متشاعروں کی بھرمارہوگئی ہے اور شعر و سخن کی وقعت کو شدید نقصان اُٹھانا
پڑ رہا ہے۔ کئی باصلاحیت شعراء پس منظر میں چلے گیے ہیں اور داد و دہش کے
خواہشمندوں کی دُکان خوب چل پڑ ی ہے۔ اِس کے باوجود بھی انٹرنیٹ اور خصوصاً
فیس بک کے حوالے سے جن قادر الکلام شعراء تک ہماری رسائی ہوئی،اُن میں
شفیقؔرائے پوری ایک نمایاں نام ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ شعراء کا ایک
بہت بڑا طبقہ لب و رُخساراورزُلف وغازہ کے سحر سے باہر نکلنے کو تیار
نہیں،ایک بامقصد شاعری کو گلے لگانا ، گھسے پٹے اسلوب سے ہٹ کر ،ندرتِ خیال
اور فکر و نظر کی بساط بچھانا ، کوئی معمولی کام نہیں ہے۔فکر و فن اور شعر
وسخن کی خدمت کے حوالے سے یہ سارے اعزازات شفیق ؔ صاحب کویقینا حاصل
ہیں۔اُن کے یہ اشعار اُن کی صلاحیت ِشعری اور وسعتِ فکری کے غماز ہیں:
مرا ضمیر ہے ،منصف مجھے سزا دے گا
صداقتوں سے اگر انحراف میں نے کیا
دکھا کے لوگوں کو آئینہ کیا ملا مجھ کو
تمام شہر کہ اپنے خلاف میں نے کیا
……
اک مہرِ نیم روز تھا اک چودھویں کا چاند
کس درجہ اِختلاف مرے بھائیوں میں تھا
اِس کا نہیں ملال تماشہ بنے رہے
غم تو یہ ہے کہ وہ بھی تماشائیوں میں تھا
اگرچہ موصوف کے کلام سے ہم فیس بک پر مستقلاً محظوظ ہوتے رہے ہیں ، اورگھسے
پٹے اسلوب سے اِن کے اجتناب اور اِن کی بامقصد شاعری کے قائل رہے ہیں، مگر
جناب شفیق رائے پوری کی وساطت سے چھتیس گڑھ کے ادبی گلستانوں سے شعر و سُخن
کی خوشبوؤں کے جو قافلے ہم تک پہنچ رہے ہیں اور ہمارے مشام جاں کو معطر
کرنے کا باعث بن رہے ہیں ،جی چاہتا ہے کہ اِن کی نہ صرف خاطر داری کی جائے
،بلکہ اِن کی جانفرائی سے شعر و سخن کے شائقین کو متعارف بھی کرایا
جائے۔شفیقؔ صاحب کے اِس مختصر سے تذکرے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی
چاہیے کہ ہم شفیق رائے پوری صاحب کی شاعری کے بارے میں کوئی مضمون تحریر
کرنے جا رہے ہیں، ممکن ہے کسی وقت اُن کی شاعری پر بھی مضمون لکھنے کی
خواہش پیدا ہو ۔لیکن یہ چند سطورہم اُس عظیم اُستاد شاعر کے فن اور شخصیت
پر لکھے جانے والے مضمون پر تمہیداً تحریرکررہے ہیں،،جن کے حلقۂ تلامذہ میں
شفیق صاحب کا بھی شمار ہوتا ہے اور جن کی وساطت سے اُن کے اُستادِ محترم
سلیم احمد صاحب زخمیؔ بالودوی مرحوم کا کلام ہم تک پہنچا ہے، نیزہم یہ باور
کرانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایک شاگرد اِس قدر باکمال ہو، جس کا
اندازہ اُن کے مذکورہ بالا شعروں سے ہوتا ہے، تو اُس کے اُستاد کے مقام و
مرتبے کا کیا عالم ہوگا اور وہ کس پایہ کا شاعر و فن کار ہوگا۔ واقعتا
اُستادِ محترم سلیم احمد صاحب زخمیؔ مرحوم کے کلام کو پڑھ کر ہم بے حد
محظوظ و متاثر ہوئے اور ہم سے رہا نہ گیا کہ ہم اُن پر اِظہارِخیال کی
سعادت سے محروم رہ جائیں۔لیکن اظہار خیال سے پہلے محترم سلیم احمد زخمیؔ
بالُودوی(المتوفی:۱۹۹۵ء) کے کوائفِ زندگی کی کچھ مختصر سی تفصیلات پیش
ہیں:
اُن کی پیدائش ناگپور میں ۱۹۱۸ء میں ہوئی تھی۔ اُن کے والدبزرگوار کا نام
مولوی خدا بخش شیداؔ تھا، اور دادا کا نام شیخ عالم تھا۔’’شیداؔ‘‘ تخلص سے
صاف ظاہر ہے،کہ فن شاعری اُنہیں وراثت میں ملی تھی۔ اِن کا آبائی وطن
براہین پور(یو پی) اوروطنِ ثانی بالود درگ(سی جی) تھا۔افسانہ نگاری سے آپ
کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ء میں ہوا۔ـ’’فریبِ اُلفت‘‘،’’ زہر کا گھونٹ‘‘
اور ’’بھوت‘‘ ان کے مشہور افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔جہاں تک ذوقِ شاعری کی
بات ہے، تو ابتدا میں مرزا آغا حسین ناگپوری سے صرف تین غزلوں کی حد تک
اِصلاح لی ۔ بعد ازیں مولانا ناطق گلاوٹھی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل
ہوئے۔پہلا مشاعرہ ۱۹۴۲ء میں پڑھا ، جس میں ناطقؔ گلاوٹھی ، علامہ شاکر
نائطی، حضرت ابرؔ احسنی، بہزادؔ لکھنوی، بیگم اختر، دورؔ لکھنوی اور ظفرؔ
ناگپوری وغیرہ، جیسے علامہ ہائے فکر و فن شریکِ مشاعرہ تھے۔’’عجیب و غریب
واقعات‘‘ اِن کی تالیف کا نام ہے جو کبھی شرمندۂ اشاعت نہ ہو سکی۔ افسوس کہ
موصوف کا مجموعۂ کلام بھی ابھی تک غیر مطبوعہ ہی ہے ۔ خدا کا شکر کہ اب اُن
کے شاگرد عزیزشفیق رائے پوری اورعبد السلام کوثر صاحب جیسے اُن کے رفقاء کی
کوششوں سے شائع ہونے جارہا ہے۔خوشی کی بات ہے کہ چھتیس گڑھ اردو اکادمی کے
سیکریٹری جناب امتیاز احمد انصاری صاحب اِس کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لے
رہے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ اُن ہی کی سیکریٹری شپ کے دوران کتاب منظر
عام پر آجائے۔یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ اکادمی نے ہر دو سال میں ایک
زندہ اور ایک مرحوم شاعر کے مجموعہ ہائے کلام کو شائع کرنے کا بیڑہ اُٹھایا
ہے۔اُردو حلقوں میں یہ احساس عام ہے کہ استاد محترم سلیم احمد زخمیؔ
بالُودوی مرحوم کے مجموعۂ کلام کی اشاعت کو اردو اکادمی اپنے لیے باعث
افتخار سمجھتی ہے۔خدا کرے کہ ان کا کلام منظرِ عام پر آئے اور دنیائے سخن
کو معلوم ہو کہ اُردو شاعری کے عظیم اساتذہ کمالِ فکروفن کی کس بلندی پر
فائزتھے اورکس جانفشانی کے ساتھ اردو کی خدمت میں مصرو ف کار رہے۔اﷲ غریقِ
رحمت کرے، ستائش سے بے نیاز،اُردو زبان اور اردو شاعری کا یہ مخلص خدمت
گارقابلِ ستائش ہے،کہ جس کی خدمات اِس غرض کے لیے کبھی نہیں رہیں کہ صاحبِ
کتاب بن جائے اور ایک عدد مجموعۂ کلام کے مصنف کہلائے،بلکہ اسے تو خدمت سے
کام تھا اوربلا شبہ دل و جان سے اس نے اپنے حصے کی خدمت بحسن و خوبی انجام
دی۔ موصوف کے کلام پرتبصرے کی ہماری کیا مجال ، اپنے تاثرات قارئین کی خدمت
میں پیش کرنے کو ہم اپنے لیے مبارک اورباعثِ سعادت سمجھتے ہیں، بلکہ اُن کے
کلام سے استفادے کا ایک موقع سمجھتے ہیں:
زخمی ؔہے بُرا ڈھونڈنا عیبوں کو کسی کے
توفیق خدا دے تو پرکھ صرف ہنر کو
ہمیں امید ہے کہ ہنر کو پرکھنے کی جس توفیق کی دُعا حضرتِ زخمی ؔ فرمارہے
ہیں، ہمارا احساس ہے کہ وہ ہمیں یقینا حاصل ہے اور ہم کسی قسم کی عیب بینی
یا عیب چینی کی جرٔت کے بغیر صرف اُن کے محاسنِ شعری پر کچھ عرض کرنے کی
جسارت ضرور کر یں گے۔
معاصر تخلیقی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ لفظوں کی کرتب
بازیوں کے درمیان بیشتر تخلیق کاروں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کیا تخلیق کر
رہے ہیں اور اُن کا مخاطب کون ہے۔اِن کی نظر تو سطحِ الفاظ پر ٹکی رہ جاتی
ہے، اِن کی بات کا مفہوم گہرائیوں میں نہیں رہتا۔جیسا کہ حضرتِ زخمی
خودارشاد فرماتے ہیں:
الفاظ ہی کی سطح پہ ان کی نظر رہی
مفہوم میری بات کا گہرائیوں میں تھا
لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ شاعر موصوف ایک متعین خیال کی آبیاری کرتے
ہوئے خدمت ِ فکر و فن میں مصروف ہو جاتے ہیں۔کبھی و ہ زندگی کے روکھے پن کا
بغور مشاہدہ فرماتے ہیں اور اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عصر حاضر کی انسانی
زندگی کس قدر مشینی بن کر رہ گئی ہے کہ ذاتی مفاد ہی دورِ حاضر کے انسان کی
پہلی ترجیح ہے،خلوص کا فقدان دورِ حاضر کا المیہ ہے۔ وہ تڑپ کر کہتے ہیں کہ
خلوص بے زبان پرچھائیوں میں تو نظر آتا ہے ، مگر خود صاحب پرچھائی میں نہیں
پایا جاتاہے :
اتنا خلوص بھی نہ جُٹا پائے یار لوگ
جتنا خلوص بے زباں پرچھائیوں میں تھا
کبھی انسانوں کی بے ضمیری پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں،کہ غلط روی پہ اندر سے
ٹوکنے والے ضمیر کو ہی لوگوں نے مار دیا ہے ، ظاہر ہے جواندر سے ٹوکنے پر
معمور تھا(یعنی ضمیر)وہی موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے تو اب آدمی کو گمراہ
ہونے سے کون بچا پائے گا۔
غلط روی پہ ہمیشہ جو ٹوکتا تھا ہمیں
کوئی ہمارے ہی اندر تھا مر گیا ہوگا
بے رہ روی کے عروج کے زخم خوردہ زمانہ میں، حضرتِ زخمی کی ہمہ جہت فنکاری
اُنہیں ایک ایسا منفرد شاعرانہ لہجہ عطا کرتی ہے، جس کی صحت مندی کو باور
کرانے کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اُن کی قوت تخلیق اُن
کی صحتِ فکر ی کی غماز بن جاتی ہے۔وہ حالاتِ حاضرہ کی زبوں حالی کے اِظہار
کے دوران بھی اپنی صحتِ فکری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، بلکہ اپنی بات
کہتے ہوئے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منواتے ہیں۔دورِ حاضر میں
اِنسانی اقدارکے تنزل کو لے کر وہ نوحہ کنا ں نظرآتے ہیں۔ انسانوں نے خود
اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے ، اِس پر کئی شعر اِن کے
مجموعۂ کلام میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً،ایک شعر میں وہ کہتے ہیں ، لوگ اب
ہونٹو ں کی ہنسی کو لوٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ان کی آنکھوں میں آنسو
چھوڑ جاتے ہیں ، چاہے وہ چمکدار ہی کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں:
رہ جائیں گے آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو
لے جائیں گے سب لوٹ کے ہونٹوں کی ہنسی لوگ
عدو تو عدو ہوتے ہیں لیکن خود دوستوں کی کم ظرفی کا کیا حال ہے ، اِس پر
اِن کا یہ شعر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو عصرِ حاضر میں پائی جانے والی بے
مروتی کا احساس دلا جاتا ہے :
دوستو ! کم نہیں کچھ یہ بھی تمہارا احساں
نہ کیا تم نے جو شرمندۂ احساں مجھ کو
یہ شعر بے ساختہ ہمیں حفیظ میرٹھی کی یاد دلا گیاجنہوں نے فرمایا تھا:(کیسی
بھی مصیبت ہو بڑے شوق سے آئے…… کم ظرف کے احسان سے اﷲ بچائے)۔اِس کے باوجود
اُنہیں اس بات کا یقین ہے کہ انسان جس دور سے گزر رہا ہے اِس میں ساری
انسانیت کے مسائل یکساں ہیں، چاہے ایک انسان دوسرے انسان سے کتنی ہی دور
کیوں نہ رہتا بستا ہو۔ہر شہر ،ہر آدمی اپنے مسائل کے اعتباریکساں صورتحال
سے گزررہا ہے:
آدمی ہی کی طرح آدمی ہوتے ہوں گے
آپ کا شہر مرے شہر ہی جیسا ہوگا
حوصلہ مندانہ دبد بے کے ساتھ اُن کے سخنورانہ تیوراُنہیں ایک قلندر مزاج
شاعرکا پیکر عطا کرتے ہیں ، نتیجتاً وہ مصلحت و مصالحت پسندی کی بے ساکھیوں
کواُٹھا کر پھینکتے نظر آتے ہیں۔اُن کے تجربات کی صداقت سے اُبھرنے والی
بالیدگئی شعور کا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے۔اور بے فیض خارجی نظریات سے
اجتناب کا حوصلہ اُن کی فنکاریت خیزی کے استحکام کا ذریعہ بنتا ہے۔یہی سبب
ہے کہ وہ بڑی باکی سے معاشرے کی مکروہات کو طشت از بام کرتے ہیں:
ماضی کے فسانے میں چمکتے ہیں جو کردار
کیا سچ ہے کہ ایسے بھی تھے دنیا میں کبھی لوگ
……
اپنی آواز سنی آپ ہی ہم نے شاید
دشتِ غربت میں ہمیں کس نے پکارا ہوگا
……
ہے علم و فن میں تاک ہنرور ہے آدمی
لیکن ستم یہ ہے کہ ستمگر ہے آدمی
حقا ئق زندگی کا گہرا مشاہدہ اُنہیں اسلوبِ اِظہار کے لیے کسی اورفکری
تہذیب کی چوکھٹ پر دستِ سوال دراز کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ وہ اپنی راہ
خود چنتے ہیں اور اِسے ہموار کرکے بڑے سلیقے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔جیسے کوئی
پھولوں کی رعنائیوں میں رہنے والا رنگ و بو کے پردوں میں چھپ کر نکل
جائے۔اُن کی شاعری کی گہرائی اور گیرائی، کشش اورد رخشندگی نے اُنہیں
انفرادیت کا احساس بھی عطا کیا ہے اور اُنہیں راہِ سخن پر سفر کا حوصلہ اور
ذوقِ قربِ منزل کا قرینہ بھی عنایت کیا ہے۔اُن کے شاعرانہ کمال کے دلائل ،
اُن کی تخلیق کاری کے دامن میں یقینا تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
زخمی ؔمرا کلام اُسی کا کمال ہے
وہ ایک شخص جو مری تنہائیوں میں تھا
زخمیؔ صاحب نے اپنے کلام میں جو کمال پیدا کیا ہے،اِس کا سارا کریڈٹ وہ اُس
شخص کو دینا چاہتے ہیں جو اُن کی تنہائیوں کا ساتھی رہا ہے، یعنی خود اپنے
آپ کو۔ پھر یہ کہ، زندگی کے متنوع مسائل کو دلپذیری ، مگر ندرتِ فکر و خیال
کے ساتھ حل کرنے کی ذمہ داری بھی حضرتِ زخمی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اٹھاتے
نظر آتے ہیں۔ گویا وہ فنکار اور فنکاری کو ایک دلنواز معنویت عطا کرتے ہیں۔
نا سمجھ بن کے سمجھتا ہوں میں ان کا مطلب
وہ سمجھتے ہیں مری بات نہ سمجھا ہوگا
……
ایسے بھی تھے کہ راہ سے پتھر ہٹا گئے
ایسا بھی ہے کہ راہ کا پتھر ہے آدمی
تخلیقی امکانات کی نئی بلندیوں پر اُن کی رسائی کا منظر اُن کے کلام میں جا
بجا نظر آتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے تخلیقی عمل کی بدولت اُنہوں نے
اپنی کائناتِ شاعری کی محدودیت کے باوصف اسے بجا طور پر لامحدود کر دیا
ہے۔اُن کا ذائقہ دار فنکارانہ شعور اور پرسوز شاعری و سخنوری کا حال یہ ہے
کہ یہ دِل پذیر شعریت، پر کشش غنائیت ، انقلاب آفریں فکریت، گہری معنویت
اور حقیقت پسندانہ عصریت سے معمور نظر آتے ہے۔اپنے تہذیبی اقدار سے وابستگی
کا اُن کا عزم اور اپنے تجربات کی صداقت پر اُن کاغیر متزلزل اعتماد ،نہ
صرف خارجی تازگی بلکہ اُن کے باطن کی پاکیزگی کا اندازہ کرنے میں ممد و
معاون ثابت ہوتا ہے۔ نوعِ انسانی کے تجربات و مشاہدات کو وہ اپنے ذاتی
تجربات و مشاہدات کا پرتو سمجھتے ہیں۔اُن کے کچھ اچھے شعر ہم نذرِ قارئین
کر رہے ہیں:
شگوفہ پھول بنا ا ور بکھر گیا ہوگا
لگا کے قہقہہ موسم گزر گیا ہوگا
……
تذکرہ جن کا کتابوں میں پڑھا تھا زخمی ؔ
نہ ملا ان کے سوا کوئی مسلماں مجھ کو
……
راستہ اپنا بناتے ہو بناؤ لیکن
اپنی قسمت کی لکیروں پہ ہی چلنا ہوگا
……
خیر آہٹ ہی سہی پاؤں کی دھوکا ہوگا
آرہا ہوگا وہ آجائے گا آتا ہوگا
……
اس لیے لوگ برا کہتے ہیں ہم کو زخمی ؔ
ہم برے کو بھی سمجھتے ہیں کہ اچھا ہوگا
……
اس دور میں کمال کا پیکر ہے آدمی
اڑتا ہے اور دیکھیے بے پر ہے آدمی
جیسا کہ اِن اشعار سے واضح ہے،وہ اپنے نجی تجربات کو بھی اس طرح بیان
کردیتے ہیں کہ وہ بنی نوع انسان کے تجربات بن جا تے ہیں۔وہ کسی Stereotype
رجحان کے قائل نظر نہیں آتے۔وہ فکر ونظرکی بلندی ، تجربہ و مشاہدہ کی
گہرائی، اور مواد و موضوع کی گیرائی کو پریشان کر دینے والی یک رخی سے بچا
لے جانے میں یقینا کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کا کلام پڑھتے ہوئے متنوع
مگر دل پذیر فکر اور تجربے کی فرحت کا ہمہ دم احساس ہوتا ہے۔ زبان کی مٹھاس
اِن کے اشعار کی جان ہے اوران کے کلام میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ وہ آج
کے فکری تمدنی رجحات کی لہروں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اورنئی نسل جس طرح
اپنی زبان وتہذیب سے کٹتی چلی جارہی ہے، اُس کی تنبیہWarning کے سلسلے کا
بھرپور مواد اپنی شاعری کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ہمارے اِس دعویٰ میں قطعی
کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اِن کی جڑیں اپنی تہذیبی روایات کی زمین میں بہت
دُور تک پھیلی نظر آتی ہیں۔اوراصلاً یہی راز اِن کے سخن کی جاذبیت اور کشش
کا بھی ہے۔
دعا ہے کہ وفا شعاری کے پیکرشاعرِ مرحوم کی خدائے عز و جل مغفرت فرمائے،
اور اُن کے فکر و فن سے بیش از بیش استفادے کی ہم طالب علموں کو توفیق عطا
فرمائے۔ آمین۔ |