سنگھ اورسرکار:شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ

سنگھ پریوار کے ساتھ سرکار کی مشترکہ نشست پراس قدر اظہار خیال ہوا کہ عرصۂ دراز کے بعد مایاوتی کانام اور تصویربھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئی ورنہ تو لوگ ہاتھی کی مایا کوبھول ہی گئےتھے؟ مایا وتی نے سوچا ہوگا مسلمانوں کو رجھانے کا یہ نادر موقع ہے۔ ملائم سنگھ گوناگوں وجوہات کی بناء پر بی جے پی سے قریب ہوتےجارہےہیں ۔ پہلے توایوان پارلیمان میں وہ اچانک حزب اختلاف کے احتجاج سے الگ ہوگئے اور اب بہار کے مہاگٹھ بندھن سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اگر شردپوار کی این سی پی کے ساتھ ملائم سنگھ ایک نیا محاذ بنا کر بہار کے دنگل میں کود پڑیں تو ممکن ہے گھر کے نہ گھاٹ کےجتن رام مانجھی بھی ان کے ساتھ بی جےپی کی ناؤ کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش میں لگ جائیں۔ ایسے میں مسلمان لازماً ملائم سنگھ سے ناراض ہوکر متبادل تلاش کریں گےاور مایاوتی کے مایا جال میں پھر سے پھنس جائیں گے۔ اس لئے مسلمانوں کی دلجوئی کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔مسلمانوں کی نفسیات کچھ ایسی ہے کہ وہ اپنی تعریف سے بھی زیادہ سنگھ پریوار پر تنقید سے خوش ہوتے ہیں۔

بہوجن سماج پارٹی کی جو مشکل ہے وہی مسئلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کو خوش کرنا بی ایس پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے ضروری ہے اسی طرح اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے سنگھ پریوار کی خوشنودی بی جے پی کی مجبوری ہے۔ مسلمان جس طرح بی جے پی کو ہرانے کیلئے تن من دھن سے جٹ جاتے ہیں بالکل اسی طرح سنگھ کے رضا کار بی جے پی کو کامیاب و کامران کرنے کیلئے اپنا ساری توانائی جھونک دیتے ہیں۔ ان مفت کی فوجوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ رکھنا اور کچھ نمائشی اقدامات سے ان کو خوش کرتے رہناسیاسی جماعتوں کی ابن الوقتی کا تقاضہ ہے۔انتخابی سیاست میں ہر سیاسی جماعت اپنے رائے دہندگان بشمول کارکنان کا جذباتی استحصال کرتی ہے۔اس طرح وہ نہ صرف اقتدار حاصل کرتی ہیں بلکہ جب کامیاب ہو جاتی ہیں تو اسے دوام بخشتی ہیں۔

زعفرانیوں کا یہ الزام کہ سیکولر جماعتیں مسلمانوں کے اشارے پر چلتی ہیں ایسا ہی ہے کہ جیسےیہ کہا جائے کہ بی جے پی کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی سیکولر جماعت مسلمانوں کے مفاد میں کوئی ٹھوس کام نہیں کرتی ہاں ان کے دورِ اقتدار میں چند مسلم رہنماوں کے وارے نیارے ضرور ہوجاتے ہیں ۔کوئی مفتی وزیرداخلہ تو کوئی سلمان وزیر خارجہ بنا دیا جاتا ہے مگر عام مسلمان کی حالتِ زار پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا ۔اسی طرح بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی کچھ سشما اور جیٹلی جیسے لوگ مالا مال تو ہوجاتے ہیں لیکن ہندو عوام کا بھلا نہیں ہوتا۔ سنگھ پریوار کے چند رہنماوں کے ساتھ حکومت کے کچھ وزراء کا مل بیٹھنا اور بادلِ ناخواستہ پند و نصائح زہر مار کرلینے کو سنگھ کے آگے حکومت کی سجدہ ریزی قرار دینا ایک سادہ لوحی ہے۔یہ اور بات ہے کہ فلمی اداکاروں کی مانند سیاسی رہنما بھی اس طرح کی افواہوں کو اپنے مفاد کے پیش نظر پھیلاتے رہتے ہیں۔

اس میں کسی شک نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سنگھ پریوار کا ایک اٹوٹ انگ ہے لیکن اب یہ پسر جوان ہوچکا ہے وہ ازراہِ عقیدت اپنے بزرگوار کی باتیں سن تو لیتا ہے مگر سب نہیں مانتا۔جو مناسب لگتی ہیں ان پر عمل کرتا ہے باقی پر معذرت کرلیتا ہے۔ حکومت میں شامل اکثر و بیشتر وزراء سنگھ کی شاکھاؤں میں تربیت حاصل کرکے آئے ہیں اس لئے یہ لوگ ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے رابطے میں رہتے ہیں۔ اٹل جی اور اڈوانی جی کے زمانے میں بھی یہی صورتحال تھی اور بی جے پی کو جب بھی اقتدار نصیب ہوگا یہ فطری عمل ہوگا۔ سنگھ اور بی جے پی ایک دوسرے کیلئے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جیسے نہرو گاندھی خاندان اور کانگریس یا مایاوتی اور بی ایس پی ۔فرق صرف یہ ہے کہ ایک پبلک لیمیٹیڈ کمپنی ہے جس کے کئی شیئر ہولڈرس ہیں اور دوسرا ایک مخصوص خاندان کا پرائیوٹ لیمیٹیڈ ادارہ ۔ان تمام سیاسی تاجروں کی فطرت تمام تر ظاہری فرق کے باوجود یکساں ہے۔

ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنگھ اور بی جے پی نےایسا بڑا تماشہ اس سےقبل مرکز تو کجا کسی ریاست میں بھی کیوں نہیں کیا؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو پردھان سیوک کہنے والے مودی جی نے بھی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اس طرح کے کسی اجتماع میں شرکتنہیں کی۔ دراصل اٹل جی نے رجوّ بھیا کے زمانے میں اقتدار سنبھالا لیکن خوش قسمتی سے بہت جلد سدرشن سر سنگھ چالک(سربراہ) بنا دئیے گئے۔ سدرشن اپنی طبعی اور تنظیمی عمر میں اٹل و اڈوانی سے چھوٹے تھے اس لئےسدرشن کا ان پر زور نہ چلتا تھا۔ فی الحال مودی اوربھاگوت ہم عمر ہیں مگر دیگر وزراء اور امیت شاہ خاصے جونیر ہیں اس لئے بھاگوت کو باآسانی گرو مان کر ان کے آگے زانوئے تلمذ طے کردیتے ہیں ۔اس طرح بھاگوت کی آتما کو شانتی (روحانی تسکین )مل جاتی ہےاور سنگھ پریوار خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اٹل جی کی حکومت مخلوط تھی جس میں کئی(بظاہر) سنگھ مخالف جماعتیں بھی شامل تھیں اس لئے وہ اپنے حامیوں کی ناراضگی کا بہانابنا کر کنی کاٹ لیا کرتے تھے لیکن مودی جی ایسا نہیں کرسکتے ۔

بی جے پی کو چونکہ پہلی مرتبہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل ہوگئی ہے اس لئے سنگھ رضا کاروں کی توقعات پہلے کی بہ نسبت بہت بڑھ گئی ہیں۔ اٹل جی کی سرکار پر رام مندر بنانے کا بہت دباؤ تھا اس لئے کہ اڈوانی جی نے اسی بنیاد پر ووٹ مانگا تھا لیکن مودی جی پر ایسا دباؤ نہیں ہے ۔ مودی جی ترقی و خوشحالی کا بلند بانگ دعویٰ کرکے اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں اس لئے عوام ان سے اپنے وعدے نبھانے کی توقع کرتے ہیں جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہےعوام کی بے اطمینانی میں تیزی کے ساتھاضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سنگھ کے رضاکار جنہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے انتخابی کامیابی حاصل کی تھی وہ بھی شدید مایوسی کا شکار ہورہےہیں ۔ دراصل انہیں رضا کاروں کو اطمینان دلانے یابے وقوف بنانے کیلئے یہ تماشہ کیا گیا۔مرکزی وزراء کو ایک قطار میں بھاگوت کے سامنے دنڈوت کرتے ہوئے دیکھ کر سنگھ کے کارکن دھنیہ ہوگئے اور ان خوابوں کو بھول گئے جنہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے انہوں نے اپنا وقت اور توانائی صرف کی تھی۔

وینکیا نائیڈو کا پہلے دن یہ کہنا کہ ہمارا سنگھ کے ساتھ بیٹھنا ایسا ہی ہے جیسے ایک سعادتمند بیٹے کا اپنی ماں کے پاس جانا دراصل سنگھ کارکنان کا جذباتی استحصال تھا۔ دوسرے دن راج ناتھ صاف کردیا کہ ہم نے ان سے کوئی احکامات نہیں لئے اور نہ ان کو احتساب دیا۔ ان لوگوں کے پاس معلومات کا خزانہ ہے اس لئے تبادلۂ خیال کیا گیا اور رائے مشورہ تو کسی سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ راجناتھ نے تھنک ٹینک کی بات کہی جس سے رہنمائی کیلئے رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ بی جے پی کی اپنی بھی اڈوانی اور جوشی جیسے لوگوں پر مشتمل ایک مارگ درشک کمیٹی ہے۔ حکومت نے آج تک ان کے ساتھ کسی اہم تو درکنار غیر اہم مسئلہ پر بھی مشورہ نہیں کیا۔اس نشست میں جہاں سنگھ کی جانب سے ۹۵ افراد کو جمع کرلیا گیا اور حکومت کے ۲۰ وزراء حاضر ہوگئے تھے توازراہِ تکلف ہی سہی مارگ درشک کمیٹی کے بزرگ ارکان کو بھی بلا کر ان کی تالیف قلب کا سامان کردیا جاتا لیکن خودغرض اور کینہ پرور سیاستدانوں سے اس طرح کی توقعکارِ عبث ہے۔جہاں تک رہنمائی کا تعلق تھا وہ تو سرے سے مقصود ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی مسلمانوں کی حق تلفی میں بی جے پی آریس ایس سے دو قدم آگے نکل چکی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے آخری دن بڑے طمطراق سےاس نشست میں شریک ہوکر مذکورہ مفروضے کی تصدیق فرما دی ۔ پہلے تو سنگھ نے انہیں اپنی سہولت سے حاضر ہونے اجازت دے کر اپنی اوقات بتا دی۔ اس کے بعد مودی جی نے حسب عادت ایک انتخابی تقریر کرکے یہ واضح کردیا کہ کس کی اہمیت کیا ہے؟مودی جی نے یہ اعتراف ضرور کیا کہ میں آج اس مقام پرسنگھ کے سنسکاروں کی بدولت پہنچا ہوں لیکن یہ ایک ذومعنی جملہ ہےجس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان سنسکاروں کا فائدہ اٹھا کر میں نے جو بلندی حاصل کرلی تم اس سے محروم ہو ۔ اس کے بعد مودی جی نے خود اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس دوران بہت ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ انہیں عوام تک لے جائیں (انہیں اس سے آگاہ کریں) گویا سنگھ سے رہنمائی لینے کے بجائے اسے کام میں لگا کر لوٹ آئے۔ یہ احکامات لینا اور احتساب دینا ہے یا احکامات صادر فرمانا؟

اس نشست کے بعد لوگ امید کررہے تھے کہ سنگھ نے حکومت کوکم از کم للت مودی یا ویاپم جیسے معاملے میں کوئی ہدایت دی ہوگی ۔ لیکن پتہ چلا کہ اس نے تو صرف حکومت کی تعریف و توصیف بیان کرنے اور اسے مزید وقت دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا۔ جہاں تک مہلتِ عمل کا سوال ہے وہ ہندوستان کی عوام نے بی جے پی کو دے دیا ہے اور سنگھ نہ بھی چاہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ رام مندر جیسے تنازع پر سنگھ ترجمان نے کہہ دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ پاکستان کی جانب سے سرحد پر ہونے والے یکے بعد دیگرے حملوں کو لے کر سنگھ سے کڑے رویہ کی توقع کی جارہی تھی لیکن اس پر بھی اس نے حکومت کوپاکستان کے ساتھ بھائی چارگی کےماحول میں بات چیت جاری رکھنے کی تلقین کردی ۔سرحدپرچینیحملوںکےخلاف سنگھ برابرآگاگلتارہتاتھا۔ وہ اپنے ارکان کو چین کے دورے پر جانے تک کی اجازت نہیں دیتا تھا مگرپچھلےایکسالسےاسکیزبانپرقفللگاہواہے۔ آج کل اپنی عوام کو چینی مال استعمال کرنے پر ڈانٹتاتو ہے مگر حکومت کوبرآمدات بند کرنے کیلئےنہیں کہتا۔ قومی تناظر میں اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار حکومت پر اثر انداز ہونے کے بجائے اس کے زیر اثر آرہا ہے۔ بقول شاعر ؎
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی،ہونٹ ہلائے گا کوئی اور

اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ خود مودی جی نے ابھی تک تو کوئی افطار پارٹی نہیں دی بلکہ صدرجمہوریہ تک کی دعوتِ افطار میں شرکت کرنے سے باز رہے مگر سنگھ نے نہ صرف افطار پارٹیوں کا بلکہ علماء کی مجالس تک کا اہتمام کرڈالا۔ اس سے قطع نظر کے کس قدر مسلمان اس کے جھانسے میں آئے سنگھ کی جانب سے ان حرکات کا سرزد ہونا بجائے خود اس کی نظریاتی شکست ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک وتنظیم چلانا یازبردست مہم چلا کر کسی جماعت کو انتخاب میں کامیاب کردینا ایک کام ہے اور حکومت کے انتظامی امور کو بحسن خوبی انجام دینا دیگرفعل ہے ۔ مودی سرکار کی پے در پے ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کئی سالوں کا عملی تجربہ بھی نریندرمودی ، راجناتھ سنگھ اورمنوہر پریکر کو اچھا منتظم نہیں بنا سکا۔

تحویل اراضی کے معاملے میں حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس بیچ فحش ویب سائٹس پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی مگر پھر گھبرا کر یو ٹرن لے لیا اور اب پونہ فلم انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کو لے کر مدافعت میں آگئے ۔گجندر چوہان کو غیر فعال بنانے کی سعی جارہی ہے۔ سابق فوجیوں کی پنشن کے معاملے میں اس حکومت کی ناتجربہ کاری اپنی مثال آپ ہے ۔ وظیفہ یافتہ فوجی ۸۴ دنوں تک احتجاج کرتے رہے اور حکومت گھوڑے بیچ کر سوتی رہی لیکن جب دیکھا کہ اس کے منفی اثرات بہار انتخابات پر پڑ سکتے ہیں تو ضابطۂ اخلاق کے نافذ ہونےسے تین دن قبل جلد بازی میں اس کی منظوری کا اعلان کردیا اور وہ بھی ایسے کہ مظاہرین کے ۷ مطالبات میں سے صرف ایک کو قبول کیا گیا اس لئے احتجاج ختم نہیں ہوا۔

اس معاملے کی تفصیلات بے حد دلچسپ ہیں ۔ صبح ۱۱ بجے سابق فوجیوں کے نمائندوں کووزیردفاع ملاقات کیلئے بلایا تو اس وقت رضاکارانہ سبکدوش ہونے والے فوجیوں کو اس سے الگ رکھنے کا مسئلہ زیر بحث آیا ہی نہیں ۔ شام ۵ بجے خود وزیردفاع پریکرنے اعلان کردیا کہ رضاکارانہ وظیفہ یافتہ فوجی اس سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ اسی شام ۷ بجے دوبارہ جب وفد نے دوبارہ ملاقات کی تو وزیر دفاع نے کہا نہ جانے وہ شق کہاں سے آگئی؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود وزیردفاع نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ایک معمولی سی غلطی سے ۴۵ فیصد فوجیوں کی پنشنشہید کردی ۔ بعدمیں وزیراعظم نے تردید کیلوگبھرمپھیلاکرگمراہکررہےہیں اور کہا سارے فوجی اس سے فائدہ اٹھائیں گے جبکہ یہ کارخیرخود ان کے وزیر دفاع سے سرزد ہو رہاتھا۔وزیراعظم کے مطابق ۱۴ مہینوں سے وہ اس پر کام لگے ہوئے ہیں مگر وزیردفاع فرماتے ہیں کہ کاغذات کی تیاری میں دوہفتوں سے لے کر ایک ماہ تک لگ سکتا ہے۔

اگر سابق فوجیوں کو وزیراعظم کی زبان پر اعتبار ہوتا توان کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کردیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مظاہرین نے کہا کہ ہم اپنا مرن برت تو ختم کئے دیتے ہیں لیکن احتجاج اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جبتک کہ ہمارے سارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے اور ہمیں لکھ کر نہیں دیا جاتا۔ فوجیوں کا عدم اعتماد بجا ہے ۔ وزیرخزانہ اسے نامعقول اور غیر عملی قرار دے چکے ہیں۔وزیراعظم کی یقین دہانی کے باوجودسرکاری افسران کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے بہتر ملازمت کیلئے فوج کو خیرباد کیا وہ اس سہولت کے مستحق کیونکر ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی پنشن کی محرومی کا یہ فائدہ بتلاتا ہے کہ اس سے فوجیوں کی فرار سے حوصلہ شکنی ہوگی۔

بداعتمادی کی یہ انتہا ہے کہ سابق فوجی تک اس حکومت اور اس کے سربراہ کی زبان پر اعتبار نہیں کرتے ایسے میں عوام کس شمار میں آتے ہیں؟ سنگھ سے حکومت کی گفت و شنید کا ناٹک سنگھ پرچارکوں کا اعتمادتو بحال کرسکتا ہے مگرعام لوگوں پر اس تماشے کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ یہ باتاظہر من الشمس ہے کہ سابق فوجیوں کو پنشن دینے کا فیصلہ سنگھ کے کہنے پر نہیں بلکہ بہار کے انتخابات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اگروہ انتخابات سر پر نہ ہوتے یا اس میں بی جے پی کی شکست کے امکانات روشن نہ ہوتے تو یہ فیصلہ ہر گز نہ ہوتا۔ نام نہادزعفرانی دیش بھکتوں کے دل میں اگرقوم کی عزت و وقار خیال ہوتاتووہ دہلی کے مدھیانچل بھون میں تین دن کی سرکاری خرچ پر پکنک منانے کے بجائے جنتر منتر پر جاکر ان سابق فوجیوں کو اعتماد میں لیتےاور ان کا احتجاج پروقار انداز میں ختم کرواتے۔ مظاہرہ کرنے والےسابق فوجیوں کی حالتِ زار اورنااہل حکومت کی بے حسی پرآنس معین کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎
پتھر ہیں سبھی لوگ ،کریں بات توکس سے؟
اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں، توکسے دیں؟
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے؟
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں، توکسے دیں؟
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449787 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.