پاکستان کی تمام عوام ایک ایسے نظام کی خواہش رکھتے ہیں
جس میں بنیادی حقوق انھیں دئیے جائیں ،معاشی طور پر انھیں پر یشانی کا
سامنا نہ ہو، امن و سکون کی زندگی ہر پاکستانی کا دیرینہ خواب ہے۔اب چاہے
دریا راوی ،یا دریا سندھ ،یا دریائے سوات کے کنارے ایک عورت اکیلی جائے یا
خاندان کیساتھ ، لیکن پر امن جائے ۔ کیونکہ بلا امتیاز ، رنگ و نسل و مذہب
ہر ایک انسان چاہتا ہے کہ اس کی مرضی کی زندگی کسی کے بیرونی مداخلت کے
بغیر گذرے۔ نظریہ چاہیے کوئی بھی ہو ، جبر کے ذریعے کسی پر مسلط کرنے کی
اجازت دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو نہیں دیتا ۔اسلام توخود امن و
سلامتی کا نام اورمکمل نظام حیات ہے اور دین میں جبر کا ازخود سب سے بڑاا
مخالف ہے لہذا کسی بھی قومیت کا شہری اس حوالے سے متضاد رائے نہیں رکھتا کہ
اسلام کے نام لیوا کبھی بھی اصلاح کے نام پر فساد کے پھیلاؤ کا سبب نہیں
بنیں گے۔
اسلامی تشخص میں اس بات میں کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ
اسلام محبت ، خلوص اور تدبر کے ساتھ عملیت پسندی کی تعلیم دینے والا آفاقی
دین الہی ہے ۔ جس میں تحریف کیلئے خود اس کے ماننے والوں نے اپنے درمیان
تفرقے کی دیوار اونچی کی اور تفریق کے ذریعے اﷲ کی رسی کو تھامنے کے بجائے
مختلف فرقوں میں بٹ گئے ۔اب ان تفرقوں میں بٹ جانے والوں نے اپنے نظریات کو
اسلام کا لبادہ دیکر دوسرے مسلک پر زبردستی حاوی کرنے کی کوشش کی ہے تو
ایسے کوئی باشعور درست نہیں سمجھے گا۔ جب ہم قومیتوں کی بات کرتے ہیں تومیں
ایسے اس طرح لیتا ہوں جیسے ایک پختون قوم ہے ، اور اس میں پشتو زبان دوسروں
کیلئے ایک زبان ہے لیکن سب اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خطے
کی زبان ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ہر تھوڑے فاصلے کے بعد اس میں تبدیلی واقع
ہوجاتی ہے اور بولنے والا ایسے جب اپنے علاقائی لب و لہجے میں بیان کریگا
تو بادی النظر یہی لگے گا کہ پٹھان بات کر رہا ہے ۔ لیکن نسلی طور پر
پٹھان، پختون،پشتون ،افغان ایک ہی ہیں اور اس میں بھی مختلف قبیلے ہیں ۔
اسی طرح سندھ ، پنجاب ، بلوچ ، اردو سمیت کسی بھی زبان کو لے لیں اس کی
بنیادی ادائیگی زمینی فاصلوں کی وجہ سے تقسیم ہوکر تبدیل ہوجائے گی لیکن با
حیثیت قوم اس کی نسل افغان ، پنجابی ، بلوچی، بروہی یا کوئی بھی ہو وہی
قومیت کہلا ئے گی ۔پاکستان کی سلامتی بقا ء کا کوئی بھی دشمن جس لبادے میں
بھی ہو ایسے پاکستان سے زیادہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے ایسے عناصر کی
ضرورت ہوتی ہے جن کے ذریعے بین الاقوامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا
جاسکے ۔سیاسی طور پر پاکستان کی صورتحال معلق و غیر یقینی رہتی ہے ۔
دفاعی طور پر مختلف طریقہ کار اختیار کرکے پورے پاکستان میں ایسی فضا پیدا
کردی گئی ہے کہ مقاصد پاکستان کا حصول جن نظریات کے تحت کیا گیا تھا وہ
مشرقی پاکستان کیساتھ ہی دریائے بنگال میں ڈوبو دینے کی کوشش کی گئی
۔پاکستان کی بنیاد صرف دو قومی نظرئیے پر رکھی گئی تھی اور نظریہ کبھی بھی
ایک دو سال کی پیداوار نہیں ہوتا کہ متحدہ ہندوستان کے حامی یکدم پاکستان
کے بانی بن گئے بلکہ تاریخ میں پسنے والی قوموں میں انقلاب مختلف ادوار میں
پیدا ہوتے ہوئے آتش فشاں بن جاتے ہیں اور ایک دن وہ لاوا پھوٹ کر تباہی مچا
دیتا ہے۔تاریخی طور پر تو جنگ آزادی1857ء کے دس سال بعد 1867ء میں سید
احمد خان نے اردو ، ہندی جھگڑے کے باعث ہندو ،مسلم علیحدہ علیحدہ اور کامل
قوموں کا نظریہ پیش کردیا تھا ۔یہ نظریہ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے
والوں کے لئے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور پاکستان کی تخلیق
کیلئے اس نظریہ کو اخذ کرکے 1947ء میں پاکستان کو ہندوستان سے الگ مملکت
میں ڈھالا گیا ۔مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے اس دو قومی نظرئیے کو منطقی
انجام تک پہنچانے کیلئے 1906ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل
انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت
بھی قائم کردی۔دو قومی نظریہ کے خالق کے طور پر علامہ اقبال کا نام بھی لیا
جاتا ہے جس میں1930ء الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں
سالانہ اجلاس کی صدارت میں دو قومی نظرئیے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔1936ء
سے 1938ء تک سراقبال نے جتنے مکتوب جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی
نظرئیے کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
محمد علی جناح خود دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے نہ صرف
آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تاحیات صدر بننے کی پیش کش کو مسترد کیا بلکہ
علما ء دیو بند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی اور اسی
بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔قائد اعظم کے نظریات وہی ہیں جو اسلام کے ہیں
۔ اسلام تمام مذاہب کا احترام ، عبادات کی مکمل آزادی ،تفرقوں سے نفرت اور
امن و سلامتی کا درس دیتا ہے اور 11اگست کی تقریر بھی اسی نظرئیے کے متن کے
تحت تھی ۔قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بننے کے بعد فلاں فرقے
یا مسلک کی حکمرانی پر مبنی آئین بنایا جائے گا اور اگر کوئی نہیں مانے گا
تو اس پر جبر سے نافذ کیا جائے گا۔قصور صرف اُن مورخوں کا ہے جنھوں نے دو
قومی نظرئیے کو متشدد بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا۔شدت پسند طبقہ جیسے ہم
باہمی نفاق کے باوجود ایک سمجھتے ہیں وہ بھی دو قومی نظرئیے کے تحت اپنے
اپنے مسلک کی اجارہ داری اس طرح چاہتا ہے کہ اس کے مسلک والے مسلم ، باقی
دوسرے غیر مسلم ہیں۔پاکستان میں جو لہر شدت پسندی کی ابھری ہے وہ بھی چند
مہینوں کی پیدوار نہیں ہے بلکہ غلط ملکی خارجہ پالیسوں نے آج قائد اعظم کے
گھر میں آگ لگا دی ہے۔
لادینیت،فرقہ کا کوئی تصور پاکستان کی اساس نہیں تھا ورنہ مسلم لیگ کے خالق
خود قادیانی تھے اور آج قادیانی اسی ملک میں غیر مسلم ہیں جن کے جد امجد ان
کے نظریات والے تھے۔جناح نے جب پاکستان کی کابینہ تشکیل دی تو اس میں بھی
غیر مسلم شامل تھے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کسی خاص
شارح کے مطابق بنایا گیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو علما ئے دیو بند پاکستان بننے
کی مخالفت کیوں کرتے ؟ ۔ انھیں تو ایک مسلم حکومت کیلئے بھرپور ساتھ دینا
چاہیے تھا ۔پاکستان مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔جس میں تمام
مذاہب کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذار سکے۔اُس وقت حالات و وقعات اس طرح
رونما ہوچکے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد فرقہ وارانہ مذہبی تشدد کی بنا
ء پر مذہبی آزادی ختم ہوجاتی اس لئے مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کئے گئے
پاکستان کو ہی ہر پاکستانی اپنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد مذہبی آزادی
، احترام انسانیت ، بھائی چارے، امن و سکون پر رکھی جائے۔کیونکہ یہی عوام
چاہتے ہیں۔پاکستان کو دہشت گردی سے پاک "استانــ"بنانے کے لئے دو قومی
نظریہ کی اساس کو تسلیم کرنا ہوگا۔دو قومی نظریہ سے مراد کسی مذہب کے
پیروکاروں پر جبری اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا نہیں بلکہ امن و سلامتی کے
تصور سے دلوں کو مسخر کرنا ہے۔
"خدائے عظیم و برتر کی قسم ، جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں
نہ پھینک دیں ، ہم ہار نہ مانیں گے ، پاکستان کی حفاظت کیلئے میں تنہا لڑوں
گا ، اسوقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت ہے اور جسم میں خون کا
ایک قطرہ بھی موجود ہے مجھے آپ سے کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ
پاکستان کی حفاظت کیلئے جنگ لڑنے پڑے تو کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں ، پہاڑوں
میں ، جنگلوں میں اور دریاؤں میں جنگ جاری رکھیں ۔"(ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی
کتاب ، قائد اعظم کے آخری ایام)۔قائد اعظم جانتے تھے کہ بیرونی جارحیت کیا
ہوتی ہے اور اس کے لئے کس عزم کی ضرورت ہے ۔انگریز مسلمانوں کے خلاف کیا
کرنا چاہتا تھا اس کے متعلق قائد اعظم نے اکتوبر 1938ءسندھ مسلم لیگ کی
سالانہ کانفرنس میں کہا تھا کہ "برطانیہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھیڑیوں
کے حوالے کرنا چاہتا ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ برطانیہ سے وہی بازی لے جا
سکتا ہے جس میں قوت ہو ۔"اب انھیں کیا معلوم تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب
پاکستان کی سرزمیں ایسے بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہوگی جہاں ڈالروں کے عوض
سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا ، جہاں امریکہ کی خوشنودی
کیلئے اقتدار اسی قوتوں کو دے دیا گیا جن کے نزدیک پاکستانی جان کی کوئی
اہمیت نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے رسہ کشی 63سال سے غریب عوام
کی بد حالی کا موجب بن رہی ہے۔
متحدہ ہندوستان کے مشہور نیشنلسٹ اخبار "مدینہ"(بجنور) کی ۱۷ ِاپریل ۱۹۶۳
ٗ کی اشاعت میں مولانا اسرا راحمد آزاد دیو بندی کا ایک مقالہ شائع ہواتھا
جس میں انہوں نے لکھا تھا "یہ الزام بے بنیاد ہے کہ علما ء ہند اَس ملک میں
اسلامی حکومت کیلئے کوشاں رہے ہیں ۔دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے
علما ء نے کم از کم اس صدی کے آغاز سے ہندوستان میں جمہوری اور سیکولر
حکومت کو اپنا واضح نصب العین قرار دے لیا تھا "۔
دارالعلوم دیو بند کے شیخ الحدیث اور جمعیت العلما ء ہند کے صدر (مولانا)
حسین احمد (مرحوم) کا ارشاد تھا "ایسی جمہوری حکومت جس میں ہندو ، مسلمان ،
سکھ ، عیسائی سب شامل ہوں ، حاصل کرنے کیلئے سب کو متحدہ کوشش کرنی چاہیے
ایسی مشترکہ آزادی اسلام کے عین مطابق ہے اور اسلام میں اس آزادی کی اجازت
ہے ۔(رُمزم ،مورخہ ۷ ِ جولائی ۱۹۳۸ ء) ۔"مولانا مدنی کا پمفلٹ ، متحدہ
قومیت اور اسلام کے صفحہ نمبر ۶۱ میں فرماتے ہیں"کانگریس میں ہمیشہ ایسی
تجاویز آتی رہتی ہیں اور پاس ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے مذہب ِ اسلام کے
تحفظ ار وقار کو ٹھیس نہ پہنچے ۔"
غیر مسلم پاکستانیوں کے حوالے سے ۱۹۶۴ ء میں محمد منیر (ریٹائرڈ) چیف جسٹس
آف پاکستان نے روزنامہ"پاکستان ٹائمز" کے ایک مقالے میں لکھا جس کا عنوان
تھا Day to Remember جیسے ۱۹۷۹ ء اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں
دوہرایا گیا کہ"تشکیل پاکستان کے وقت کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ
پاکستان ایک اسلامی مملکت ہوگی۔"
پاکستان میں کونسا طرز نظام رائج کیا جانا تھا اس پربحث کے بجائے بین
السطور اس بات کو موضوع بنانا مقصود ہے کہ کیا پاکستان جس نظرئیے کے تحت
حاصل کیا گیا وہ بنگلہ دیش بننے کے بعد ختم ہوچکا ؟ ۔ اب محمد علی جناح
جیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے، اس بچے کچے پاکستان کو نظریہ پاکستان کے
مطابق ڈحالنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے ۔ ۱۱ ِ اگست ۱۹۴۸ ء محمد علی جناح
کی جس تقریر کو وجہ جواز بنا کر نظریہ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے ہم ایسے بھی موضوع بحث نہیں بناتے کیونکہ نصابی کتابوں سے اس اقتباس کو
بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کرنے کے بعد طوطے کی طرح پاکستانیوں کو
"نظریہ پاکستان" رٹانے کی کوشش کی جاتی رہی بالاآخر اس اقتباس کو بھی نصاب
سے ختم کردیا گیا اور قوم کو قیاس آرائیوں پر بحث مباحثے کے لئے چھوڑ دیا
گیا ۔لیکن تاریخ یوں آسانی سے مٹا ئی نہیں جاسکتی ۔ کسی شک و شبے سے بالاتر
کم از کم یہ بات طے شدہ ہے کہ محمد علی جناح نام نہاد خود ساختہ " مذہبی
پیشوائیت" کی اجارہ داری نہیں چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاک و ہند کے تمام
تاریخ میں اس بات کو کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ شیعہ ہونے کے باوجود محمد
علی جناح نے کبھی اپنے فقہ ، یا مسلم لیگ کے بانی سر آغا خان نے اسمعیلی
ہونے کی بنا ء پر"آغا خانی" طرز حکومت ، یا سر ظفر اﷲ خان نے احمدی ہونے کی
بنا ء پر"قادیانی"اسٹیٹ کا مطالبہ کیا ہو۔اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں مسلمانوں
کا اجتماع اور قربانیاں تاریخ کا حصہ بننے کے بجائے فرقہ وارانہ فسادات کی
روئیداد بن جاتی۔
پاکستان بننے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل ، فروری ۱۹۴۸ ء میں اہل امریکہ کے
نام براڈ کاسٹ پیغام میں واضح طور پر کہا کہ "پاکستان کی دستور ساز اسمبلی
نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری
شکل کیا ہوگی ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ
دار جمہوری انداز کا ہوگا ۔اسلام کے یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر
منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوسکتے تھے۔اسلام نے ہمیں وحدت
ِانسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و دیانت کی تعلیم دی ہے ۔ آئین پاکستان کے
مرتب کرنے کے سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کا
ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں، کچھ بھی ہو، یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں
کسی بھی صورت میں بھی تھیا کریسی رائج نہیں ہوگی جس میں حکومت مذہبی
پیشواؤں کے ہاتھ میں دے جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش )خدائی مشن کو پوارا
کریں۔( تقاریر بحیثیت گورنر جنرل صفحہ ۶۵)"
محمد علی جناح نے واضح طور پر بتا دیا کہ وہ تھیا کریسی نظام کو رائج نہیں
ہونے دیں گے ۔ا س سے پہلے ۵ ِ فروری ۱۹۳۸ ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی
یونین سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان طالب علموں سے کہا تھا "اس میں کوئی شک و
شبہ نہیں کہ مسلم لیگ نے تمہیں اس ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیوں سے آزاد
کردیا ہے جیسے مولوی یامولانا کہتے ہیں (تقاریر ِ قائد اعظم حصہ اول صفحہ
۴۸)۔"یہ ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیاں فرقہ واریت تھی جو تھیاکریسی کی
بنیاد ہے۔ ۱۱ ِ اپریل ۱۹۴۶ کو دہلی میں مسلم لیجسلیٹر کنونشن کے آخری
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح نے وضاحت کی "اِسے اچھی طرح سمجھ
لیجئے کہ ہم کس مقصد کیلئے یہ جنگ کر رہے ہیں ۔ ہمارا نصب العین تھیا کریسی
نہیں ۔ ہم تھیا کریٹک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے ۔(تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ
محمد اشرف ، جلد دوم صفحہ ۳۸۶)"
محمد علی جناح سے اپریل ۱۹۴۳ ء میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے
ایک پیغام کیلئے درخواست کی ۔ آپ نے جواب میں فرمایا ـ"تم نے مجھ سے کہا ہے
کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں ، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس
پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت افروزی کیلئے
کافی ہے ، وہ پیغام ہے خدا کی کتاب عظیم ، قرآن کریم ۔"(تقاریر ، جلد اول
صفحہ ۵۱۶)
۱۳ ِ نومبر ۱۹۳۹ ء قوم کے نام عید کا پیغام نشر فرمایا ۔(اس زمانے میں ملک
میں ہنگامہ اور فساد ہورہے تھے ) آپ نے قوم سے کہا ـ"جب ہمارے پاس قرآن
کریم ایسی مشعل ِ ہدایت موجود ہے تو پھر اس کی روشنی میں ان اختلافات کو
کیوں نہیں مٹا سکتے ؟ (تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ محمد اشرف ، جلداول
صفحہ۱۰۸)"وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر ، خدا کی عظیم کتاب ،
قرآن مجید ہے ، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں
زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔۔۔ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول
ﷺ،فلہذا ایک قوم ۔(تقاریر ، جلد دوم صفحہ ۵۰)۔
اب جو عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ بزور طاقت کسی فرقے کے خلاف شدت پسندی کرکے
وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنا لیں گے تو ایسی سوچ خلاف اسلام ہے کیونکہ
جب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام بزور طاقت نہیں پھیلایا اور اصحاب
رسول ﷺ ،اسلامی حکومتوں یا تمام فقہ کے اماموں نے کبھی کسی فرقے کے خلاف
قتل وغارت کو جائز قرار نہیں دیا تو پھر پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و
غارت اور حملوں کا واحد مقصد ، اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پاکستان کی
بقا ء اور سا لمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کی بنیاد کو کمزور کرکے
بنگلہ دیش کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا مقصود ہے۔پاکستان کے بانیان اور اکابرین
نے کبھی بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد
نہیں کی۔ایک فلاحی و رفاعی مملکت کا بہتر ین تصور اسلام کے سوا کون دے سکتا
ہے اور دنیا میں لافانی اصولوں اور قوانین پر مشتمل نظام حیات قرآن کریم سے
بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے ؟۔محمد علی جناح نے کبھی کسی فرقہ وارایت کا پرچار
نہیں کیا۔موجودہ پاکستان "جناح کا پاکستان" تونہیں رہا لیکن "بچے کچے
پاکستان" کو جناح کے تصورات کا پاکستان ضرور بنا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
نام نہاد خودساختہ مذہبی پیشوائیت نے محمد علی جناح کے افکار کی بنا ء پر
انھیں "کافر اعظم " اور قوم نے انھیں"قائد اعظم" خطاب دیا تھا۔
ملت اسلامیہ کا وہ چراغ جس نے نائن الیون 1948ء تک لاکھ اندھیروں کا
مقابلہ کیا اور کامیاب و کامران دنیا سے رخصت ہوا ان کی وفات پر دنیاکے
عظیم سیاست دانوں اور مفکروں نے ان کیلئے خراج تحسین پیش کیا ۔ حتی کہ لندن
ٹائمز جیسے اخبار نے لکھا ۔"انہوں نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونہ پیش
کرکے اپنے اس دعوی کو ثابت کردیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان میں وہ
ذہنی لچک نہیں تھی جو انگریز کے نزدیک ہندوستانیوں کا خاصہ ہے۔ان کے خیالات
ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت ، واضح اور بین ہوتے تھے ۔ ان کے دلائل میں ہندو
لیڈروں جیسی حیلہ سازی نہ تھی بلکہ وہ جس نقطہ نظر کو ہدف بناتے تھے اس پر
براہ راست نشانہ باندھ کر وار کرتے تھے وہ ایک ناقابل تسخیر حریف تھے ․"
قائد اعطم نے پاکستان بڑی مشقت اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا
پاکستان کو لگنے والے زخم کسی پرائے کے دَین نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کی
کارستانیاں ہیں ۔ ملکی خارجہ و داخلہ پالیسی اگر قائد اعطم کے افکار اور
مقاصد تشکیل پاکستان کے تحت رکھی جاتی تو آج ایک فون پر دہمکی کے ڈر سے
ملکی حرمت کو غیروں کے پاؤں تلے روندنے کی کوئی جرات نہیں کرتا ۔اگرہمیں
پاکستان کو قائدا عظم کے خوابوں و افکار کے مطابق بنانا ہے تو ہمیں عملی
طور پر اپنی ذات کو انُن کے افکارکو ڈھالنا ہوگا۔قائد اعظم کا پاکستان صرف
ان کے نظریات کی روشنی میں ہی کامیاب ہوسکتا ہے اگر ہم نے اب بھی اپنی
غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا تو تصورات جناح صرف ہماری داستانوں کی طرح
کتابوں میں پڑھنے کے لئے رہ جائیں گے۔ہمیں قائد اعظم کا پاکستان صرف جناح
کے اصولوں کے مطابق بنانا ہوگا کیونکہ اساس پاکستان بھی یہی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کے یوم رحلت پر خصوصی مضمون ۔
|