برصغیر جنوبی ایشیاکی تاریخ میں قیام پاکستان ایک ایسا
منفرد واقعہ ہے جس کے خمیر میں ’’ اسلام کی واضح جھلک پائی جاتی ہے
مسلمانان ہند کی حق خو دارادیت کی تحریک کامرکزی خیال یہ تھا کہ برصغیر پاک
وہند میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسی اسلامی مملکت کی تشکیل کی جائے جہاں
مسلما ن اپنی تہذیب و تمدن ، ثقافت اور عقیدے کے مطابق آزاد زندگی بسر
کرسکیں تحریک پاکستان کا مزاج اپنی ہیت کے اعتبار سے اسلامی ، جمہوری
اورفلاحی تھا چنانچہ قیام پاکستان کے بعد یہی تین بنیادی ستون اس ملک کی تر
قی واستحکام کے لیے لازم قرار پائے تحریک پاکستان ایک ہمہ گیر نظریاتی
تحریک تھی یہ مسلمانان ہند کی ایک ایسی با مقصد جدو جہد تھی کہ جس کا مطمع
نظرانسانی اخوت اورمعاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک خود مختار
فلاحی ریاست کا قیام تھا اس حوالے سے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مملکت پاکستان کی
بنیاد کن اصولوں پر قائم ہونی چاہیے تھی ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں قائد
اعظم محمد علی جناح کے افکار کو مد نظر رکھنا ہوگا قائداعظم اور علامہ
اقبال دومحسن شخصیات ہیں جن کی فکری اورعملی راہنمائی نے ہندوستان کے
مسلمانو ں کو نہ صرف ایک منزل کی راہ دکھائی بلکہ قوم کو اس منزل تک پہنچا
کر دم لیا لہذا پاکستان کے بنیادی خدو خال سمجھنے کے لیے ہمیں قائداعظم کے
اقوال زندہ کی طر ف رجوع کرنا ہوگا جو آج بھی ہمارے لیے اسی طرح مشعل راہ
ہیں جس طرح آج سے تریسٹھ سال قبل تھے ہما را المیہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم
کے لیے جو نصب العین مقر ر کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی شعور ی
کو شش نہیں کی گئی ۔قائداعظم کے بعد صاحب اختیار شخصیات نے سنجیدگی سے اپنی
ذمہ داریاں نبھانے کی طرف توجہ نہیں دی بد قسمتی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ
قائد کے افکار کی روشنی میں قوم کی صحیح راہنمائی کا فریضہ ادا کیا جاتا
۔بلکہ اس کے برعکس نقائص نکالے جانے لگے جس میں غیر تو غیر اپنے بھی شامل
ہوگئے اوراس طرح تحریک پاکستان کی فکری اساس کو ہی مشکو ک کرڈالا نتیجہ یہ
ہوا کہ نظر یہ پاکستان کو گاہے گاہے بحث و تخصیص کا نشانہ بنایا جانے لگا
اوریہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی سطح پر منفی انداز میں نئے سرے سے زیر بحث
لایا جاتا ہے دراصل بد خوابوں کی کو شش یہ ہوتی ہے کہ قوم کو نظریاتی اتحاد
اور یکجہتی کے جوہر سے محروم کردیا جائے اس مقصد کے حصول کیلئے وہ پاکستان
کی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقر یر کا حوالہ
دیتے ہیں حالانکہ در حقیقت وہ تقر یر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان
میں تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب و ذات مساوی حقوق حاصل ہوں گے اس تقریر
کو پڑھ کر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس میں قائداعظم ریاست میں شہریوں
کے حقوق کے مساوی ہونے کا اعلان کررہے ہیں اس میں ریاست کی نوعیت یا
نظریاتی حیثیت معین نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس کا تعلق بنیادی طورپر اقلیتوں
کے حقوق کی طرف ہے اوریہ بات تو اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے جس سے
اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان مخالف سیکو لر
حلقے اس تقریر سے یہ اخذکرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان
کو لا دین ریاست بنا نا چاہتے تھے جبکہ ان لوگو ں کے اس لغو تصور میں کوئی
حقیقت نہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں جوقائداعظم کی ان بیسو ں تقریر وں اوربیانات کو نظر انداز
کردیتے ہیں جن میں تو اتر کے ساتھ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ
پاکستان میں اسلامی نظریات پر مبنی جمہوری نظام حکومت ہوگا جہاں قوم اپنی
تہذیب و تمدن ، ثقافت ، روایات اور مذہبی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر
کرسکے گی ان کی تقاریر کا نچوڑ یہ تھا کہ برصغیرمیں مسلمانان ہند کی قومی
آزادی اورتہذیبی تحفظ کے حوالے سے اسلامی نظریہ حیات کے اصولوں پرمبنی
ریاستی اورسماجی ڈھانچے کی تشکیل کی جائے گی جس سے ایک اسلامی مملکت کے
فلاحی نتائج سامنے آئیں گے اور دوسرے بھی اسلام کی لازوال صداقت سے مستفیض
ہوں گے قا ئد اعظم نے ایک موقع پر اس طرح کہا ’’پاکستا ن کا منشاء صرف
آزادی اورخود مختاری کا حصول نہیں بلکہ وہ اسلامی نظریہ حیات ہے جو ایک بیش
قیمت عطیے اور خزانے کی حیثیت سے ہم تک پہنچا ہے جسے ہم نے نہ صرف قائم
رکھنا ہے بلکہ ہم تو قع کرتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کے فوائد اور حصول میں
ہمار ے ساتھ شریک ہوجائیں گے ‘‘ قائد اعظم کے اس طرح کے کئی بیانات ہیں جو
پاکستان قائم ہونے سے پہلے کے دورسے تعلق رکھتے ہیں اوریہ سلسلہ قیام
پاکستان کے بعد بھی جاری رہا ۔قائد اعظم نے11 اکتوبر 1947ء کی تقریر میں جب
انہوں نے پاکستان سو ل، بری ، بحری اورفضائی زمین سے خطاب کیا اس تقریر میں
انہوں نے بڑے واضح انداز میں قیام پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے
فرمایا ’’ پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم پچھلے دس سال سے جدو جہد کررہے تھے
اب وہ اﷲ تعالی کے فضل سے ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے لیکن ہمار امنشاء اپنے
لیے ایک آزاد مملکت کا حصول نہیں تھا بلکہ اصل منشا ایک ایسی مملکت کا حصول
تھا جہاں ہم اپنی روایا ت اوراسلامی خصوصیات کے مطابق ترقی کرسکیں جہاں
ہمیں معاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں کے نفاذ کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں
اورجہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں ‘‘ اس بیان میں
قائد اعظم نے کتنی وضاحت سے فرما دیا ہے کہ محض مملکت کا حصول ہی ہمار ا
مدعا نہیں تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ ایسی مملکت حاصل کی جائے جہاں ہم
اسلامی روایات اور اصولوں کے مطابق اپنا نظا م مملکت قائم کرسکیں کیا اس
فرمان میں یہ با ت کھل کر عیاں نہیں ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں
اسلامی عدل و انصاف پر مبنی نظام حکومت کے داعی تھے اسی بات کو بہت پہلے آپ
نے ایک اورانداز میں کہا اور یہ بات 2 نومبر1941 ء کی ہے جب آپ نے مسلم
یونیو رسٹی علی گڑھ کے طالبعلمو ں سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’’ مجھے
اپنی اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی روایات ،اپنی ثقافت اور اپنی زبان بر
قرار رکھتے ہو ئے زندگی بسر کرنے دو ‘‘ آپ نے طلباء کو بھی زور دے کر مشورہ
دیا تھا کہ میں تو ایسا ہی کر تا ہو ں لیکن آپ بھی اپنے اپنے صوبوں میں
ایسا ہی کیا کریں تاکہ اسلامی طرز زندگی نمایا ں ہو کر سامنے آئے۔
25جنوری1948 ء کو کراچی بارایسو سی ایشن سے اپنے خطا ب کے دوران زور دے کر
واضح کردیا کہ ان کے نزدیک پاکستا ن میں اسلامی قوانین ہی کی روشنی میں نظا
م حکومت وضع کیا جائے گا یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جس طر ح نہ صرف
آج کے دور میں بلکہ پہلے بھی کچھ حلقے جان بو جھ کر اسلا می یا غیر اسلامی
معاشر ے کے حوالے سے بے بنیاد بحثیں چھیڑا کرتے تھے اسی طرح قیام پاکستان
کے بعد بھی ایک مخصوص حلقے کی طرف سے عملا شکو ک وشہبات پھیلائے جاتے رہے
تاکہ قوم صحیح راہ کا تعین نہ کرسکے چونکہ اس وقت قائد اعظم اس قسم کے
اعتراضا ت کا وقتا فوقتا جواب دے کرقوم کی راہنمائی کرتے رہتے تھے اس قسم
کی شرارتوں کا جو اب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’ میں ان لوگوں کی بات نہیں
کرسکتا جو دانستہ طور پرشرار ت سے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستا ن
کا دستو ر شریعت کی بنیاد پر نہیں بنا یا جائے گا اسلام کے اصول آج بھی اسی
طرح قابل اخلا ق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے میں ایسے لوگوں کو جو بد
قسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صر ف
مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کو ئی خوف ، ڈر نہیں ہونا چاہیے
اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے ہر شخص سے انصاف
رواداری اور مساوی برتاؤ اسلا م کا بنیادی اصول ہے پھر کسی کو ایسی جمہوریت
، مساوات اور آزادی سے خوف کیو ں لاحق ہو جو انصاف ، رواداری اور مساوی
برتاؤ کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہو ‘‘ چو نکہ اس دور میں دستور
پاکستان کی ہیئت کے بار ے میں قصداً شکو ک وشہبات پھیلائے جارہے تھے لہذا
قائد نے اپنے خطاب میں نے ببانگ اعلان فر مایا کہ ’’ ان کو کہہ لینے دیجئے
ہم دستو ر پاکستان بھی بنائیں گے اور دنیا کو بھی دکھائیں گے کہ یہ رہا ایک
اعلی آئینی اور اسلامی نمونہ‘‘’ پاکستان ۔( موجودہ حالات میں سوال یہ پیدا
ہوا ہے کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کی جدوجہد قائد محترم کر رہے تھے ؟ اس کا
جواب ہم سب پاکستانیوں کے پاس ہے خدا را اس پر غوروفکر کریں)میرے ہم وطنو
دنیا جانتی ہے کہ پھر پاکستان بھی بنا اور دستور پاکستان بھی اﷲ پاک اسلام
کے اس قلعہ پاکستان کی خیر فرماے اور پاکستان کو دشمن کی حسد والی نظر سے
محفوظ رکھے آمین۔ |