اکثر لوگوں کا ذہن یہاں آکر
اُلجھ جاتا ہے کہ اگر الیکشن کا نظام نہ ہو تو حکومت بنانے کا طریقہ کار
کیا ہونا چاہے۔ انہیں الیکشن کے علاوہ تمام راستے بند نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ
ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے پاس ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ جب اسلام الیکشن کے
نظام کو کنڈم کرتا ہے تو اس کا متبادل قابل عمل اور بہتر راستہ بھی دکھاتا
ہے۔متبادل پر گفتگو سے پہلے میں چند تمہیدی کلمات کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ان
میں ہمارے مخاطب نہ تو مفاد پرست جاہل سیاستدان ہیں اور نہ ہی ان کے شکنجے
میں جکڑے ہوئے اَن پڑھ عوام ۔ ہمارے مخاطب دراصل وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ
نے علم و عمل اور عقل و خرد کی نعمت سے نواز اہے، جن کے پاس حکمت و دانش کا
نور اور مومنانہ فراست کا اُجالا موجو دہے۔ ہماری مراد علماء ، فقہاء،
پروفیسرز، سکالرز، ادیب اور دانشور لوگ ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جس سرکاری و غیر سرکاری ادارے کو بھی
ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے لیے باقاعدہ Add دے کر درخواستیں طلب
کرتاہے ۔ جس درجہ کی ملازمت ہوتی ہے، اسی کے مطابق کوالیکفکیشن مانگی جاتی
ہے اور شرائط رکھی جاتی ہیں۔ درخواستوں کی وصولی کے بعدسکروٹنی ہوتی ہے،
تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے، رزلٹ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر جو لوگ پاس ہوتے
ہیں ان میں سے بھی اعلیٰ درجہ کے کامیاب لوگوں کو انٹرویو کے لیے بلایا
جاتا ہے۔ ماہرین ان سے سوال و جواب کر کے ان کاجائزہ لیتے ہیں۔ پھر ان میں
سے بھی جو سب سے بہتر لوگ ہوتے ہیں ان کا چناؤ کیا جاتا ہے اور انہیں ان کی
متعلقہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ لیکن ذمہ داری سونپنے سے بھی پہلے خفیہ
اداروں کے ذریعے ان کے اخلاق و کردار اور نیک نامی کی باقاعدہ چھان بین کی
جاتی ہے۔۔ اس طرح صرف اہل لوگ ہی اچھے منصب پر فائز ہوتے ہیں اور کرسی کے
وقار کوقائم رکھتے ہیں۔ ان کی مدت ملازمت بھی کم و بیش۳۰۔۳۵سال ہوتی ہے ۔یعنی
جب تک وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے اہل ہوتے ہیں تب تک ان کی خدمات سے
فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بعد میں ان کو باعزت ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم اہل علم و فکر سے گزارش کرونگا کہ جب تمام تر
شعبہ جات کی چھوٹی بڑی ملازمتوں کے لیے مخصوص کوالیفکیشن ضروری ہے تو’’
حکومت‘‘ جس نے تمام شعبہ جات کو چلانا ہے اور ان سب کی نگرانی کرنی ہے خود
سوچنا چاہیے کہ اس کے لیے کتنی زبردست قسم کی کوالیفکیشن ،کڑی شرائط ، اعلیٰ
درجہ کی صلاحیت ،بلند اخلاق و کردار، وسعت نظر اورگوناگوں علوم و فنون کی
مہارت ضروری ہے ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک پروفیسر، ایک ڈاکٹر، ایک جج
اور ایک افسر کا انتخاب توکئی مراحل سے گزارار کر بڑے بڑے ماہرین نہایت
باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کریں، مگر پورے ملک کے حکمرانوں کا انتخاب
عامۃ الناس کے سپرد کر دیا جائے جنہیں خبر ہی نہ ہو کہ جن لوگوں کو ہم
منتخب کرنے جا رہے ہیں ان کی علاقائی ذمہ داریاں کیا ہیں، قومی ذمہ داریاں
کیا ہیں اور بین الاقوامی ذمہ داریاں کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ منتخب کرنے والے
عوام کو پتہ نہ ہو بلکہ خود ان لوگوں کو بھی کچھ پتہ نہ ہو جو اپنے آپ کو
انتخاب کے لیے پیش کررہے ہیں۔ایسی صورتحال میں نتیجہ یہی نکلے گاکہ لوگ ذات
پات، رنگ ، زبان، صوبہ، مسلک اورذاتی تعلق وغیرہ کی وجہ سے ووٹ ڈالیں گے
اور منتخب ہونے والے بھی وہی کچھ کریں گے جو اب تک الیکشنوں میں منتخب ہونے
والے کرتے چلے آرہے ہیں ۔ وزیر تعلیم وہ ہوگا جسے تعلیم کاکچھ پتہ نہ ہوگا،
وزیر صحت وہ ہوگا جسے میڈیکل سائنس سے زندگی میں کبھی پالا نہ پڑا ہو ،
وزیر سائنس وہ ہوگا جسے سائنس کی ہوا بھی نہ لگی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
یہ ناخواندہ ، عیش و عشرت کے دلدادہ،شرابی کبا بی، بگڑے ہوئے نواب، دولت کے
بھوکے اورقوم کی تقدیر سے کھیلنے والے منتخب نمائندے جب بڑے بڑے قومی شعبہ
جات کے نگران بنیں گے تو ہر طرف بحران ہی بحران ، اندھیرے ہی اندھیرے،
مایوسیاں ہی مایوسیاں اور زوال ہی زوال ہوں گے کوئی بھی ادارہ یا شعبہ
تباہی و بربادی سے نہیں بچ سکے گا اور سارے ملک کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔
ایسے کم علم اور اقتدار کے حریص منتخب نمائندے کیا پالیسیاں بنائیں گے اور
کیا قوم کا بھلا سوچیں گے؟ وہ تو ایسے لوگوں کے ہاتھوں کھلونا ہوں گے جن کے
پاس قومی یا بین الاقوامی سطح کی ڈنڈے کی طاقت ہوگی یا پالیسی وغیرہ بنانے
کی صلاحیت ہوگی ۔اگر آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر خود ہی سمجھ
لیجئے کہ ووٹوں کا مروجہ نظام ملک وقوم کے لیے کس حد تک خطرناک ہے۔ جس طرح
ملک کے باقی تمام اداروں کے لیے باقاعدہ سلیکشن ہوتی ہے بالکل اسی طرح
حکومتی ادارہ جو کہ تمام اداروں سے زیادہ اہم اور برتر ہے اس کی بھی
باقاعدہ سلیکشن ہونی چاہیے اور ہمیں اس کے لیے الیکشن کمیشن کی بجائے
سلیکشن کمیشن بنانا چاہیے۔
سلیکشن کمیشن کا بنیادی خاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے قومی و بین الاقوامی
امور کے ماہر ، دینی و عصری علوم سے مزین، اخلاق و کردار میں سب سے فائق،
ذہانت و فطانت میں نابغہ ،احکام شرعیہ کے پابند ، ملک و قوم کے ساتھ مخلص،
کھرے ، بااعتماد، دیانتدار اور غیر جانبدار قسم کے بہترین لوگوں کا ایک
بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ ملک بھر سے درخواستیں طلب کرے ۔درخواست دہندہ کے
لیے بنیادی کوالیفکیشن ماسٹر ڈگری، ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول کی تعلیم ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ درخواست دہندہ کے لیے اچھے اخلاق وکردار، ذہانت وصلاحیت ،
عزت وشہرت ، صداقت ودیانت وغیرہ امور بھی لازمی ہوں۔ ایسے تمام پڑھے لکھے
لوگوں کا سب سے پہلے تحریری ٹیسٹ ہو۔ جس میں درخواست دہندہ کی قرآن و حدیث
میں مہارت،انتظامی امور کی قابلیت،قومی و بین الاقوامی امور پر گہری نظر،
مختلف قومی شعبہ جات کے بنیادی سٹرکچرزسے واقفیت،جنرل نالج،ریاضیاتی علوم
وغیر کا جائزہ لیا جائے۔
تحریری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے لوگوں میں سے ضرورت کے مطابق اعلیٰ
درجہ کے افراد کومنتخب کر لیا جائے۔ پھر ان کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے۔
انٹرویو میں ان کی صلاحیتوں کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد ان میں سے مزید
افراد کو چھانٹ لیا جائے ۔ پھرخفیہ اداروں کے ذریعے ان کی نیک نامی اور عزت
وشہرت کی چھان بین کرائی جائے۔ جو شخص نیک نامی کے معیار پر پورا نہ اترے
اس کو فہرست سے خارج کردیا جائے۔ اب ان منتخب افراد کے لیے ایک زبردست قسم
کا چھ، سات ماہ کا تربیتی کورس رکھا جائے جس میں ان کو مختلف قسم کے لیکچرز
دیئے جائیں، زبانیں سکھائی جائیں، تقریری، تحریری ، ذہنی، فکری اور اخلاقی
مقابلہ جات کرائے جائیں۔ ان کے دلوں سے حبِ جاہ ختم کی جائے۔ خدمت عوام
کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ فکر آخرت اور خوف خدا پیدا کیے جائیں۔ قومی و بین
الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کی عملی مشقوں سے گزارا جائے۔ نچلی
سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک مختلف مقابلہ جات میں کامیابیاں حاصل کرنے
والوں کی مثلاً اس طرح درجہ بندی کر دی جائے۔
(۱)اعلیٰ ترین درجہ (۲)اعلےٰ درجہ (۳)متوسط درجہ
پھر ان میں جو’’ اعلیٰ ترین درجہ‘‘ کے افراد ہوں انہیں ملک کی مرکزی مجلس
شورےٰ قرار دے دیا جائے۔ مرکزی مجلس شوریٰ مل کرخفیہ رائے شماری کے ذریعے
سادہ اکثریت رکھنے والے فردکو اپنا امیر منتخب کرلے اور سب اس کی بیعت کر
لیں۔ اس امیر کو پورے ملک کا حکمران مقرر کر دیا جائے۔ پھر ساری عوام سے اس
حکمران کی بیعت لی جائے۔ وہ حکمران مرکزی مجلس شوریٰ کی پارلیمنٹ کے ذریعے
وفاق کا ادارہ چلائے، ان کی کابینہ بنائے، ان کی مختلف کمیٹیاں بنا کر
انہیں مختلف اداروں اور شعبوں کے ذمہ داریاں سونپے۔پھر جو ’’اعلیٰ درجہ‘‘
کے افراد ہیں انہیں مرکزی مجلس شوریٰ کے زیر نگرانی تمام صوبوں کا کنٹرول
دے دیا جائے ۔ صوبائی حکومت مکمل طور پر مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی پابند
ہو اور ان کی ذمہ داریاں اورعہدے بھی مرکزی حکومت کے زیر نگرانی طے
پائیں۔جو لوگ ’’متوسط درجہ‘ ‘ میں کامیاب ہوں انہیں مختلف کلیدی عہدوں پر
فائز کیا جائے۔
سلیکشن کمیشن کے ذریعے بننے والی یہ حکومت صرف چار پانچ سالوں کے لیے منتخب
نہ ہوبلکہ خلفاء راشدین کی طرح اس وقت تک کے لیے اپنی ذمہ داریاں عبادت
سمجھ کر تندہی سے سرانجام دے جب تک کہ وہ اس کی اہل ہے۔ مرکزی و صوبائی
شوریٰ کے ممبران کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ عمر کی ایک خاص حد کی شرط
بھی لگائی جاسکتی ہے جیسا کہ ملک کے دیگر اداروں میں بھی ایسا ہوتا
ہے۔مقررہ مدت کے بعداس ممبر کو ریٹائرمنٹ دے دی جائے۔سلیکشن کمیشن دراصل
ایک مستقل نوعیت کاتھنک ٹینک ہوگا۔جو کہ وقفہ وقفہ سے ٹیسٹ ،انٹرویوز
اورٹریننگ سلسلہ جاری رکھے گااور وفاقی و صوبائی پارلیمنٹ میں حسب ضرورت
مزید افراد کی سفارش کرتا رہے گاتاکہ وفات پا جانے والوں، استعفیٰ دے جانے
والوں ،کسی اہم وجہ سے معزول کر دیئے جانے والوں، معذور ہو جانے والوں یا
ریٹائرڈ ہو جانے والوں کا خلا پر ہوتا رہے۔ سلیکشن کمیشن قومی و بین
الاقوامی امور کے حوالے سے سیمینارز وغیرہ کا اہتمام بھی کرے گا اور بہترین
پالیسیاں بنا کر مرکزی و صوبائی حکومت کو پیش کرتا رہے گا۔ علاوہ ازیں اپنے
پاس ملک کی پوری آبادی کا ریکارڈ بھی محفوظ رکھے گا ۔وغیرہ وغیرہ۔میرے
نزدیک یہ ایک بہترین قابل عمل فارمولا ہے ۔اس کو بروئے کار لا کر ہم اپنا
ملک سو فیصدصحیح طور پر چلانے کے لیے بہترین اوراہل لوگوں کے ہاتھوں میں
تھما سکتے ہیں۔نیز عامۃ الناس کے ووٹوں کے ذریعے اوپر آجانے والے نااہلوں
سے بھی بچ سکتے ہیں۔سلیکشن کمیشن کے ذریعے اوپر آنے والے حکمرانوں کا نہ
صرف یہ کہ اپنے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں رعب ہوگا، عوام ان سے محبت کریں
گے، وہ عوام سے محبت کریں گے، ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا قائم ہوگی۔ مسائل
فوری طورپرحل ہوں گے۔تمام شعبہ جات اور ادارے برق رفتار سے ترقی کریں گے
اور ملک جنت نظیر بن جائے گا۔مذکورہ فارمولا کو بروئے کار لانے کے لیے سب
سے پہلے قوم کے دانشور لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد
پوری قوم کو الیکشن کے نظام سے متنفر کر کے سلیکشن کے نظام کی طرف متوجہ
کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی تنظیم یہ کام کرے گی اور عوام کو اپنے ساتھ لے کے
چلے گی وہ ملک کی سب سے بڑی خیر خواہ ہوگی۔
اگر ملک کی مروج مقتدرہ اس فارمولا کو بروئے کار لانے میں رکاوٹ بنے تو
پوری قوم کو جلسوں جلوسوں اور احتجاجوں کے ذریعے میدان میں لا کر مقتدرہ پر
دباؤ ڈالا جائے گا تاکہ وہ فوری طورپر ایسا غیر جانبدار سلیکشن کمیشن وجود
میں لائے۔ اگرمقتدرہ عوامی دباؤ کو بھی خاطر میں نہ لائے تو بذریعہ پرامن
انقلاب ایسی حکومت کو بھگا کر عارضی مدت کے لیے ایک عبوری حکومت بنائی جائے
جو ملکی قانون کوبھی مکمل طور پر اسلامائز کرے اورایسا سلیکشن کمیشن بھی
تشکیل دے جو ایک یا دوسال کے اندر اندر مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نئی اہل
حکومت کے اوپر لانے کا بندوبست کرے۔یاد رہے کہ یہ کام انقلاب کے بغیر ممکن
نہیں۔کیونکہ مروجہ جمہوری حکمران نہ تو قانون کو اسلامائز کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں اور نہ ہی ان سے کسی اور قسم کی خیر کی توقع ہے۔ امید ہے کہ ملک
و قوم کا درد رکھنے والے اہل علم و دانش کو میراا یہ فارمو لا پسند آئے گا۔
یہ فقط بنیادی خاکہ ہے ۔اس میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش موجود ہے۔ سکالرز
اس میں بہتری لاسکتے ہیں۔میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مروجہ نظاموں سے
متنفرا قوام عالم کے لیے یہی فارمولا آخری جائے پناہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب
کہ سب نظاموں کے چراغ بجھ جائیں گے اور دنیا کو امن و سکون کے لیے اسی چراغ
سے روشنی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ |