ملک میں تیزی سے گرتی ہوئی
مقبولیت نے نریندرمودی کی نیندیں حرام کررکھی ہیں اوراس ڈراؤنے خواب سے
نکلنے کیلئے وہ ساری قوم کودھوکہ دینے کیلئے اب جنگی جنون کے پیچھے چھپنے
کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اس کی آڑمیں بہارمیں ہونے والے انتخابات میں شکست
سے بچ سکیں۔تمام باخبرسیاسی تجزیہ نگاراس بات پرمتفق ہیں کہ بھارتی جنگی
جنون کی حقیقت یہ ہے کہ مودی اپنی سیاسی بقاء کی لڑائی میں مصروف ہیں،
انتخابات میں تواقتصادی ترقی کے کھوکھلے نعروں اور انتہاپسندتنظیموں کی
مددسے کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن اقتدارمیں آنے کے بعد انتہاپسند
دہشتگردوں اوران کی سرپرست تنظیموں کوجس اندازمیں چھوٹ دی اورانہوں نے
عالمی سطح پرجس طرح سیکولر بھارت کاچہرہ بگاڑکرپیش کیا اس پر بھارتی عوام
کی اکثریت جوبھارت کوہرمذہب کے افرادکیلئے پرامن بنانااور عالمی سطح
پرسیکولربھارت کی تصویر پیش کرناچاہتی ہے،اب مودی کے خلاف ہوچکی ہے اوریہی
روّیہ ان کیلئے وبالِ جان بن رہاہے۔بھارتی جنتانے اپنے اس اختلاف
کااظہاربعدمیں ہونے والے تمام انتخابات میں کیاجن میں مودی کوذلت آمیزشکست
کاسامنا کر نا پڑا ہے ۔ مودی نے اقتدارمیں آکرنہ صرف پاکستان میں دہشتگردی
میں تشویشناک حدتک اضافہ کردیابلکہ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ ورکنگ باؤنڈری
پربھی جارحیت کواس حد تک بڑھاوادیاکہ صرف اگست میں بھارتی فوجوں کی جانب سے
آٹھ مرتبہ جبکہ جون سے اب تک ١٥٠مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی
ہے۔
افغانستان کے صدراشرف غنی کااپنی خارجہ پالیسی پرمکمل یوٹرن لیتے ہوئے
پاکستان سے اپنے تعلقات استوارکرنا بھی مودی کے جنگی جنون کی ایک اور
مزیدوجہ ہے ، نیز بلوچستان کے حالات میں تیزی سے مثبت تبدیلی اور بلوچستان
کے گرفتار دہشتگردوں کے''را''سے تربیت لینے کے اعترافات نے مودی کی
پالیسیوں کوناکام اورننگاکردیاہے۔ واضح رہے کہ افغان سرحد پر بھارت نے ١٢قونصلیٹ
دفاترکھول رکھے ہیںجہاں سفارت کاری نہیں بلکہ پاکستان میں تباہ کاری کی
منصوبہ بندی اورعملی پیش رفت کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں جہاں پاکستانی پرچم
لہراناجرم سمجھاجاتاتھااب تیزی کے ساتھ ناراض نوجوان سیکورٹی اداروں کے
سامنے ہتھیارپھینک کراپنی عام زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں حتیٰ کہ براہمداخ
بگٹی نے آزادبلوچستان کانعرہ واپس لینے کااعلان کرتے ہوئے واپسی کی اجازت
مانگی ہے۔٦ ستمبریوم دفاع کی ٥٠ ویں سالگرہ کے موقع پرسارابلوچستان
پاکستانی پرچموں اورپرجوش نعروں سے ایک مختلف بلوچستان
نظرآرہاتھا۔افغانستان کی سرحدوں پرلہراتے یہ سبز ہلالی پرچم افغان علاقے
میں قائم بھارتی قونصلیٹ خانوں کی برسہا برس کی سرمایہ کاری اورمنصوبہ بندی
کی ناکامی سے مودی کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ضربِ عضب میں
شاندارکامیابی نے پاکستان میں موجود بھارتی''را''کے ایجنٹوں کیلئے کام
کرناناممکن بنادیاہے ۔پاک افواج کی ان کامیابیوں نے مودی کوپاگل بنارکھاہے۔
لاہوراورکراچی میں''را''کانیٹ ورک پکڑاگیا ، لاہورمیں پکڑاجانے والا بھارتی
ایجنٹ سرحد کے قریب گاؤں کا رہائشی تھا۔اس کے قانون کے شکنجے میں آجانے سے
بھارت کے بہت سے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں۔
مودی پاکستان کوتنہاکرنے اوراس کے بااعتماددوستوں کوتوڑنے کی سازشوں میں
میزبان ملکوں کوانتہائی مشکل حالات سے دوچارکرنے میں بھی مصروف ہیں۔متحدہ
امارات جواپنے معرضِ وجودمیں آنے کے وقت سے اب تک پاکستان کاانتہائی قابل
اعتماددوست ہے،مودی وہاں دورے پرگئے اوردبئی میں جلسہ عام سے تین گھنٹے کی
طویل تقریرمیں پاکستان کانام لیے بغیر دہمکیوں میں کہاکہ جن کیلئے یہ جملے
کہے گئے ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے۔مزیدبرآں سعودی عرب کے شہرتبوک میں تاریخ
میں پہلی مرتبہ بھارتی جہازلینڈکرنے لگے ہیں اوردکھ کی بات تویہ ہے کہ
ہماری حکومت کوتوفیق نہیں ہوئی وزیراعظم یا کوئی اعلیٰ عہدہ دارمتحدہ
امارات کادورہ کرکے مودی کی زہرافشانی کے اثرات مدہم کرتے اورسعودی عرب
کادورہ کرکے تجدید محبت کرتے جبکہ واقف کاروں کاکہناہے کہ چندمہینے قبل
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے تو پاکستان کیلئے انتہائی فراخدلانہ پیشکش کی
تھیں جس سے پاکستان کی موجودہ حکومت فائدہ نہ اٹھاسکی۔
یہ معاملات وزارتِ خارجہ سے متعلق ہیںاورخارجہ پالیسی چلاناوطن عزیزکی
سلامتی کے ساتھ ساتھ ترقی وخوشحالی کی اوّلین ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں
بدقسمتی سے نوازحکومت آج تک کوئی باصلاحیت وزیرخارجہ کاتقررہی نہیں کرسکی۔
بھارت میں چھ ماہ تک انتخابات ہونے والے ہیں اور مودی کوان میں اپنی صاف
شکست نظرآرہی ہے لہنداوہ ایک بارپھراپنے ملک میں ایسے حالات پیدا کرناچاہتے
ہیں کہ قوم کوجذباتی کیفیت میں مبتلاکرکے انتخابی نتائج میں اس کافائدہ
اٹھاسکیں جس کیلئے وہ صرف سرحدی اشتعال انگیزی تک ہی محدودنہیں رہیں گے
بلکہ اپنے منتخب محاذپرمحدودپیمانے پر جنگ شروع کرنے کی سازش بھی کرسکتے
ہیں۔ اس سازش کوناکام بنانااب پاکستان کی وزارتِ خارجہ اوروزیرخارجہ نہ
ہونے کے بناء پر سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے لیکن صدافسوس کہ ہماری سیاسی
قیادت نجانے کس خوف میں مبتلاہے کہ بھارت کواس کی کھلی جارحیت پربجائے اس
کے کہ وزیر اعظم زبانی کلامی بھارت کومنہ توڑ جواب دیتے،عوام کاحوصلہ
بلندکرتے اوردفاعی اندازکے کچھ احکام جاری کرتے،ان کی طرف سے انتہائی نرم
مؤقف سامنے آیاہے۔اس وقت وطن عزیزکوکسی ذہین وزیر خارجہ کی اشدضرورت ہے
کیونکہ وزارتِ خارجہ ایک ہمہ وقت قلمدان ہے ،جسے وزیراعظم نے
لاتعداداندرونی اور بیرونی بکھیڑوں کے ساتھ خود سنبھال رکھاہے۔
یوں توورکنگ باؤنڈری پربھارت کی روزافزوں اشتعال انگیزیوں کاسلسلہ مسلسل
جاری ہے اورپاکستان کے حکام اورعوام دونوں اس پرکبیدۂ خاطرہیں لیکن حال ہی
میں سیالکوٹ کے نواحی چیراڑاورہڑہال سیکٹرمیں پاکستانی شہری آبادی پربھارتی
فوج کی گولہ باری سے آٹھ پاکستانی کی شہادت اور پچاس سے زائدزخمیوں کی
اطلاع نے تمام پاکستانیوں کے دلوں پرگہرے زخم آئے ہیں۔وزیراعظم اورسیاسی
رہنماؤں نے صرف تشویش اورمذمت کے اظہار پراکتفاکیالیکن آرمی چیف فوری
طورپران متاثرہ علاقے میں پہنچے جہاں انہوں نے بھارت کومنہ توڑ جواب دینے
کاحکم دیا۔بعدازاں انہوں نے سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا
بھارت نہتے شہریوں کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے لیکن ہم آئندہ ایسی جارحیت کی
قطعاًاجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان نے لائن آف کنٹرول اورورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی ان بھارتی اشتعال
انگیزیوں کامعاملہ اقوام متحدہ میں اٹھادیاہے ۔پاکستانی سفیرملیحہ لودھی نے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل برائے امن
اورسلامتی کونسل کے صدرکوخطوط میں پاکستان کی تشویش سے مطلع کرتے ہوئے
حالات کی نزاکت کی طرف توجہ دلائی ہے اوربھارتی جارحیت پردباؤ بڑھانے کیلئے
دوست ممالک سے بھی رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ادھرامریکانے پاکستان اوربھارت
کودوبارہ امن مذاکرات کاراستہ اختیارکرنے پر زور دیاہے ۔ امریکابہادرنے یہ
بہادری اس وقت دکھائی جب اسے اندازہ ہوگیاکہ بھارت نے اپنے طرزِ عمل سے
دونوں ملکوں میں خطرناک حدتک تشویش بڑھادی ہے۔خودامریکاکوتشویش ہے کہ دونوں
ایٹمی طاقت ہیں ،اس لیے ایٹمی جنگ کے خدشے کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔یہی
وجہ ہے کہ قومی سلامتی کی امریکی مشیرسوزن رائس پاکستان آئیں تو ڈیڑھ گھنٹے
تک میاں نوازشریف اوردیگر عمائدین سے ملاقات میں جہاں اس معاملے پر امریکی
تشویش سے آگاہ کیاوہاں حقانی نیٹ ورک کیلئے ''ڈومور''کامطالبہ بھی کیا۔
دونوں ملکوں کے نمائندوں نے اس ملاقات میں پاک امریکا تعلقات، خطے کی
سلامتی کی صورتحال اورافغان مصالحتی عمل پر غورکیاگیا۔ فریقین نے سلامتی
اورخطے میں امن و استحکام کیلئے مل کرکام کرنے پربھی اتفاق کیا۔ملاقات رواں
سال اکتوبرمیں وزیراعظم نواز شریف کے امریکاکے متوقع دورے کی تفصیلات پربھی
غور کیا گیا۔سوزن رائس کوضربِ عضب کی کامیابیوں کے بارے میں بھی آگاہ
کیاگیا جبکہ پاکستان کی طرف سے پاکستان کی سرحدوں پربھارتی جارحیت،اشتعال
انگیزیوں اورملک میں''را''کی مداخلت ،دہشتگردوں کومالی معاونت اوراسلحہ
فراہم کرنے کے شواہداورمصدقہ ثبوت بھی پیش کیے گئے۔ نوازشریف نے مقبوضہ
کشمیرمیں بھارت کی انسانی حقو ق کی سنگین خلاف ورزیوں کانوٹس لینے اورمسئلہ
کشمیرکواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے پربھی زور دیا۔
جنرل راحیل سے بھی دوگھنٹے کی طویل ملاقات میں امریکی مشیرسوزن رائس کواس
بات پرقائل کیا گیاکہ افغان امن عمل کوسبوتاژکرنے میں ''را''کااہم کردار ہے
اورپاکستان میں بھی''را'' افغانستان کے خفیہ ادارے ''این ڈی ایس کے ساتھ مل
کرکاروائیوں میں مصروف ہے۔دوسری طرف چین، امریکا،برطانیہ اورجرمنی کوبھی
بھارت کی تمام اشتعال انگیزیوں اور اندرون، ملک دہشت گردانہ کاروائیوں کے
مصدقہ شواہد و ثبوت کے ساتھ آگاہ کردیاگیاہے۔ان تمام ممالک نے ایک مرتبہ
پھرافغانستان اور پاکستان پیداشدہ تعطل ختم کرنے اور اعلیٰ سطح کے روابط
بحال کرانے پراپنی آمادگی اور افغان مصالحتی عمل میں پاکستان
کواپناکرداراداکرنے اوراپنی مکمل حمائت کایقین دلایاہے۔
سرتاج عزیزنے حالیہ افغانستان کے دورے میں افغان حکومت کوپاکستانی حکومت کی
طرف سے دو اہم پیغامات پہنچائے ہیں کہ ہم پچھلی تین دہائیوں سے افغانستان
کیلئے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں ،اب اس کااحساس کرتے ہوئے آئندہ پاکستان
کے خلاف بیانات دینے سے اجتناب کیاجائے اور اب آپ کویہ فیصلہ کرناہے کہ آپ
طالبان سے مذاکرات کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں یا پھر طاقت کے بل پران سے
مزیدلڑائی کے خواہاں ہیں۔افغان حکومت کوان عناصرسے خبرداررہنا ہوگا جواس
خطے میں امن کے دشمن اور بھائیوں کے درمیان نفاق اوردشمنی پیدا کررہے
ہیں۔پاکستان اور افغانستان میں پیداشدہ تعطل ختم کرنے کیلئے اوراعلیٰ سطح
کے روابط بحال کرانے پرآمادگی ظاہر کی ہے جس کے بعدرواں ماہ ہی افغان عمل
شروع ہونے کا امکان ہے اورتوقع ہے کہ نوازشریف اور اشرف غنی کے درمیان
جلدبراہ راست ملاقات ہوگی۔ امریکی مشیرسوزن رائس اور جرمن وزیرخارجہ کادورۂ
پاکستان اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
بھارت کی جانب سے جنون آمیزاشتعال انگیزیوں پرپاکستانی قوم،منتخب سیاسی
قیادت اورعسکری کمان کی طرف سے ٦ستمبریومِ دفاع کی ایک پروقارتقریب میں
جنرل راحیل شریف نے بھارت کوواضح اوردوٹوک پیغام دیاہے کہ ''جنگ چاہے
روایتی ہو یا غیر روایتی،ہارٹ سوٹ ہویاکولڈسوٹ، ہم اس کے لیے تیار ہیں ۔
پاکستان کی فوج بیرونی جارحیت کا منہ توڑ مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت
رکھتی ہے،دشمن نے جارحیت کی کوشش کی تو اسے ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑے
گا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کومتنبہ کیاکہ کشمیری عوام گزشتہ سات
دہائیوں سے ظلم و بربریت برداشت کر رہے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ
کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے''۔ بھارت اگرامن کی
بجائے پرخطرراہ چاہتاہے تونتائج کے بارے میں ہزارمرتبہ سوچ لے! |