ہو سکتا ہے میری اِس بات سے بہت
سے مردوں کا بھی بھلا ہو جائے اِس لئے لکھ رہا ہوں کہ آجکل عورتوں کے حقوق
کے لئے بہت سی این․جی․اوز ہمہ وقت سر گرم ہیں اچھی بات ہے عورتوں کو اُن کے
جائز حقوق ملنے چاہئے مگر عرض ہے کہ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی
برابری کے حقوق ملنے چاہئیں۔
جی آپ بلکل سہی سوچ رہے ہیں کہ بھلا مردوں کے کون سے حقوق مارے جا رہے ہیں
تو جناب والیٰ عرض کچھ یوُں ہے کہ بندہ ناچیز کو سرکار کانوکر بننے کا شوق
بچپن سے تھامگر ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا کہ ابھی تمہاری عُمر ہی نہیں
ہے لہذا خُوب دل لگا کر پڑھو (پُرانے زمانے والا دلا لگا کے نہ کہ آج کے
زمانے والا) وقت گزرتا گیا بندہ پڑھتا گیا اور جب پڑھ چُکا تو پھر سے سرکار
کا نوکر بننے کا خواب جاگتی آنکھوں میں آنے لگا (سوتی آنکھوں سے صرف کترینہ
کے خواب دیکھتا ہوں)لہذا اخبارات چھاننے لگا اور ایک دن وہ وقت آ ہی گیا جب
ایک دِلرُبا سا نوکری کا اشتہار سامنے آیا اور مَیں دُور کہیں خواہشوں کی
دُنیا میں کھو گیاپھر اچانک نظر نیچے لکھی ہوئی منحوس سطر پر پڑی تو گویا
زندگی میں بننے سے پہلے ہی ٹُوٹتا ہُوا محسوس کِیا لکھا تھا این۔ٹی۔ایس
(National Testing Service )فیس 500 رُوپے اور حد عُمر 30 سال۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
بڑے نِکلے میرے اَرمان مگر پھر بھی کم نِکلے
سوچا ایک توبے روزگاری اوپر سے ٹیسٹ فیس خیر500 روپے جیسے تیسے کر کہ اکٹھے
کیئے اور مستقبل کے سنہرے خواب سجائے بینک میں جمع کروا کہ انتظار کرنے لگا۔
چِٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کونسا دیس جہاں تم چلے گئے
ایک دن یونہی این۔ٹی۔ایس کی جالے کی جگہ (ویب سائٹ کا اُردو ترجمہ) کادورہ
( وزٹ والا نہ کہ دل والا دورہ) کِیا تو گویا آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا
گیا میرے رزلٹ میں لکھا تھا زائدالعُمر (overage ( یعنی کہ بندہ اب کبھی
بھی سرکاری نوکر نہیں بن سکے گا حالانکہ بندہ صرف تیس سال آٹھ ماہ کا تھا
اور ابھی تک شوق سے یہ گانا سُنا کرتا تھا ـ"ابھی تو مَیں جوان ہوں" قِصہ
مختصر اُدھار کی رقم بھی گئی بیوی پر بٹھایا رعب بھی گیا (بڑھاپے میں اکژ
رعب ختم ہو جاتا ہے ) اور ہم پھر سے گنگنانے لگے "ـ دل کے ارمان آنسوؤں میں
بہہ گئے" پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیس اور اکتیس میں فرق کیا ہے؟
یعنی کی تیس سال گیارہ ماہ انتیس دن (فروری نکال کرکیونکہ وہ اٹھائیس کا
ہوتا ہے) تک بندہ تیس سال کا ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ اپنی اکتیسویں سال کی
صبح نہ دیکھ لے تو مجھے بتائیں کہ اس حساب سے مَیں کب اکتیس سال کا ہو گیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلام نے مرد کو گھر کا کفیل دار بنایا ہے (عربوں والا
کفیل نہیں حالانکہ ہوتا وہ بھی ایسا ہی ہے) اور عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ
داری مرد پر عائد کی ہے (اِس میں تندور والا نان بھی شامل ہے) یہ جانتے
بوجھتے ہوئے بھی عورت کی سرکاری نوکر انی بننے کی حد عمر 33 سال اور مرد کی
30 سال رکھی گئی ہے( 5 سال کی رعائت شامل کر کے بتا یا گیا ہے) اس کے ساتھ
عورت کا کوٹہ مقرر کیا گیا ہے مطلب وہ جنرل آسامی میں بھی حصہ دار ہے اور
کوٹہ تو ہے ہی اُن کا یعنی کہ سیٹ پکی تو کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟ (مولانا
فضل الرحمان والا تضاد نہ سمجھئے گا کیونکہ تضاد تضاد میں فرق ہوتا ہے ویسے
تو تضاد تضاد ہوتا ہے جیسے ڈگری ڈگری ہوتی ہے) اب آپ ہی بتائیں کہ مردوں کے
حقوق سلب ہو رہے ہیں کہ نہیں؟ چلیئے ایک قِصہ اور سُناتے ہیں یہ قصہ میرے
اور نادرا کے درمیان ہے-
(فلم یا محلے والی نادرہ نہیں بلکہ سرکار والی نادرا) قصہ کچھ یوں ہے کہ
شناختی کارڈ نیا کروانے کا منصوبہ بنایا اور جمعہ کا مبارک دن چُنا سوچا
مبارک دن ہے تو کام ٹھیک ہوگا اپنی نئی نویلی موٹر سائیکل کا کور اتارا
(جیسے نئی نویلی دلہن کا گھونگٹ اتارتے ہیں) سٹارٹ کیا پر کیا کریں یہاں
بھی بے روزگاری آڑے آگئی پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا کے مصداق ٹینکی خالی (
موٹر سائیکل ابا جی نے قسطوں پر لے دی تھی اور پٹرول ڈلوانے کی ذمہ داری
میری تھی) فوراََ شکار ڈھونڈنے نکلا اور بلآخر ایک دیرینہ دوست سے آرزو
پوری ہوئی محلے کے بچوں سے دھکا لگوا کر پٹرول پمپ پہنچا میلوں لمبی لائن
کے بعد باری آئی ہی تھی کہ پھر سے ناری بازی مار گئی (ایک بھائی صاحب اپنی
زوجہ محترمہ کے ساتھ آ پڑوس ہوئے اور ہم وہیں کے وہیں دیکھتے رہ گئے)
خیرپورے 100 روپے کا پٹرول ڈلوایا (وہ الگ بات ہے کہ انہوں نے100 کا میٹر
دکھا کر 70 روپے کا ڈالا) اور جا پہنچا نادراکے پاس مگر یہ کیا نادرا کے
چوکیدار جمعہ خان نے اندر جانے سے روک دیاکافی بحث وتکریم کے بعد پتہ چلا
کہ جمعہ کا دن صرف عورتوں کے لئے مختص ہے " ہائے ہائے یہ مجبوری یہ موسم
اور یہ دوری" (سُنا ہے کہ قیامت بھی جمعہ کے دن برپا ہو گی)
چنانچہ مجھے جمعہ خان سے ہفتہ کا دن لینا پڑا ۔لہذا یہاں پر بھی پہلا سوال
کِیا جاتا ہے کہ ہفتے کے چھ دن نادرا دفتر کھلا ہوتا ہے (چند نادرا کے دفتر
سوموار تا ہفتہ کام کرتے ہیں ) اور اِن چھ دنوں میں عورتیں کھلم کھلا آ جا
سکتی ہیں تو مرد وں پہ ایک دن کی پابندی کیوں؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ چھ
دنوں میں سے چار دن مشترکہ اور ایک دن عورتوں کے لئے اور ایک دن مردوں کے
لیئے مختص کر دیا جائے تا کہ مردوں کو بھی یکساں حقوق مہیا ہو سکیں۔
ہائے مختص سے یاد آگیا کہ بسوں، ویگنوں میں بھی مہان عورتوں کے لئے سیٹ
مختص (Reserve )ہوتی ہے سنہ 2000 ء (موجودہ نہ کہ قبل مسیح والا)جب میں
نویں جماعت کا طالبعلم ہوا کرتا تھا ایک دن سکول کی وردی میں ملبوس ویگن کی
فرنٹ سیٹ چھوڑ کر سوار ہوا تمام نشستیں بھر چکی تھیں سوائے ایک سیٹ کے جس
پر کوئی پینتالیس سال کی عمر کے لگ بھگ موٹی سی عورت بیٹھی تھی اُس کے ساتھ
بیٹھ گیا بس پھر کیا تھا اُس عورت نے واویلا مچانا شروع کر دیا کہ وہ اِس
آدمی کے ساتھ نہیں بیٹھے گی (آدمی یعنی کہ مَیں اور میں تب سولہ سال کی
بالی عمر میں تھا یقین جانئیے میرا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا تھا) مَیں تو
حیران تھا ہی وین میں سوار دوسرے لوگ بھی ہکا بکا تھے کہ ایک معصوم سے بچے
کو آدمی کہہ دیا خیر عورت اپنی نشست سے اُٹھ کر آگے والی فرنٹ سیٹ پر
ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئی (وہ الگ بات ہے کہ ڈرائیور واقع آدمی ہی تھا)ہاں
تو بات ہو رہی تھی نادرا کی تو میرا نادرا والوں سے دوسرا سوال ہے کہ کیا
مرد حضرات بلکل فارغ ہوتے ہیں جو جب چاہیں کہیں بھی آ جا سکتے ہیں تو عرض
کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جمعہ والے دن جمعہ پڑھنے کے بہانے دفتر سے جلدی
چھُٹی لے کر شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں اِس لئے کیا جمعہ والے دن مردوں
کو بھی شناختی کارڈ بنوانے کا پورا حق نہیں ملنا چاہیئے؟ اور یقین مانیئے
آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو کہ ایسی صورتحال سے دو چار ہوئے ہونگے
(ویسے دو+ چار= چھ ہوتے ہیں)۔ آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ میں کیا عورتوں کے
پیچھے پڑ گیا ہوں تو عرض ہے کہ میں تو صرف مردوں کے حقوق کی بات کر رہا ہوں
جو کہ کسی نہ کسی طرح سلب ہو رہے ہیں اور جب تک آواز بلند نہ کریں کوئی بھی
دھیان نہیں دے گا کیونکہ جب تک بچہ روئے نہ ماں بھی دُودھ نہیں پلاتی اِس
لئے میَں وقت کے حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اِسلام نے عورتوں اور
مردوں کو یکساں حقوق دیے ہیں تو پھر کیوں مردوں کے حقوق سلب کیئے جا رہے
ہیں ؟ کیوں معاشرے میں انارگی پیدا کی جا رہی ہے؟ کیوں مرد گھر تک محدود ہو
کر رہ گیا ہے اور عورت نے نان و نفقہ کی ذمہ داری سنبھال لی ہے؟ کیوں مرد
کی نسبت عورت کو ہر طرح سے برتری دی جا رہی ہے ؟ عورتوں کے لئے بسوں میں
علحدہ جگہ، نوکریوں کے لئے علٰحدہ کوٹہ، عمر میں رعائت، نادرا میں علٰحدہ
دن ، عورتوں کے لئے ہراساں کا قانون جس کے تحت وہ کسی بے گناہ کو سزا دلوا
سکتی ہے، عورتوں کا علٰحدہ پارک، کیا ہم مردوں کو اِن سب چیزوں کی ضرورت
نہیں؟ کیا ہمارے لئے عورتوں کی طرح علٰحدہ سہولتیں میسر نہیں ہو سکتیں ؟
میں بلکل بھی عورت کی آزادی پہ انگلی نہیں اُٹھا رہا میں تو صرف مرد کی قید
پہ سوال اُٹھا رہا ہوں اِس لئے ذرا سوچئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل حقوق مرداں
کا پلے کارڈ اُٹھائے نعرے لگ رہیں ہوں
" ساڈا حق ایتھے رَکھ" |