شہیرسیالوی ایک نام۔۔۔ایک پہچان
اور کچھ دوستوں کی زبان میں ’’ چورن اور منجن‘‘ کے القاب سے بھی جانے جاتے
ہیں۔موصوف انجمن طلبہ اسلام کے ایک مشہور جیالے ہونے کے ساتھ ساتھ وطنِ
عزیز سے بھی بے پناہ محبت کے عملی طور پر داعی ہیں۔۔ ۔ طلبہ سیاست میں اعلیٰ
مقام رکھتے ہوئے اور ایک خاص صرف ATI ہی نہیں بلکہ دیگر طلبہ تنظیمات میں
ایک معتبر نام کی حثیت سے جانے جاتے ہیں۔۔۔ عمر سے زیادہ پختگی کے حامل۔۔۔
پرسنیلٹی میں کشش ۔۔۔ الفاظ کے چناؤ میں ماہر۔۔ لاجواب دلائل سے خاموشی
طاری کرنا ۔۔۔ فنِ تقریر سے مجمع ہر سکوت طاری کرنا ۔۔۔ معاشرے کی گرمی اور
سردی کا طبیعت پر ذرا بھی اثر نا لینا۔۔۔ منکسر المزاج ۔۔۔ قوتِ فیصلہ ۔۔
غیر معتدل رویہ۔۔ بردباری۔۔۔ تحمل۔۔۔ کوریج اور پروٹوکول کی طرف راغب ہونا۔۔۔
مونچھوں کو تاؤ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اکثر تقریروں میں ٹینکوں والے اشعار
کا بولنا جناب کے اوصاف میں نمایا ہے۔۔۔ ٹینکوں والی خوبی کچھ زیادہ ہی
نمایاں ہے۔۔
سنا ہے جناب محبت میں ناکامی کے بعد ایک نئی محبت کی تلاش میں نکلے ہوئے
ہیں ۔۔۔ شاید سمجھتے ہیں کہ ’’ ایک در بند ۔۔ سو در کھلا ‘‘۔
پر لگتا ہے اس بار کچھ زیادہ ہی محبت کے افسانوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔اور
تو اوراب جناب شاعری میں خاصی دلچسپی لینے لگ گئے ہیں۔۔ اور جناب ایک کتاب
بھی لکھ رہے ہیں ۔۔۔ جو ’ ’یادِ ماضی ـ‘‘ کے نام سے ہو گی۔۔۔ جناب سوشل
میڈیا پر اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔۔ فیس بک پر تو ایسے چھائے ہیں اگر سوشل
میڈیا کے الیکشن کروائے جائیں تو جناب عالی بلامقابلہ صدر منتخب ہوں۔
حضرت نے پوری عمرتعلقات کو ہی فروغ دیا ہے ۔۔ تعلقات بنانا۔۔۔ پھر ان کو
قائم رکھنا ۔۔اس فنِ باکمال سے خوب آشنا ہیں۔ورنہ جناب اویویں موٹروے پر
ایک ٹائر پر کار چلانے سے مشہور نہیں ہوئے۔۔۔ بلکہ تعلقات کے فن سے شہرت کی
اوجِ ثریا کو چھو رہے ہیں
خیر یہ تو تھی ہنسی مذاق۔ ۔۔ دل پر مت لیجئے گا ۔۔۔۔!!!
برادر شہیر سیالوی سے میری پہلی ملاقات راولپنڈی میں ’’ سدا سلامت پاکستان
طلبہ کنونشن ‘‘ میں ہوئی۔
موصوف نے ایک بڑا سا جھنڈا پکڑا ہوا تھااوپر سے آرمی کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی
جس کی وجہ سے مجمع میں توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔۔ وہ ایک غیر رسمی سی
ملاقات تھی۔۔۔۔ جس کے بعد قربت بڑھتی گئی اور اکثر رات کے درمیانے حصے تک
ہمارے درمیان رازو نیاز کی باتیں ہوتی رہتی۔۔۔۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا
سلسلہ جاری و ساری رہا۔۔ دوسری ملاقات موصوف سے تب ہوئی جب موصوف کے ساتھ
روڈ ایکسیڈنٹ جیسا سانحہ پیش آیا ۔۔۔ مجھے بڑی اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب
برادرشہیرسیالوی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا تو میں اس وقت عمرے کی سعادت پر
تھا۔۔۔ حافظ مسعود سیالوی صاحب کا میسج ملا تو میں اس وقت حرم شریف کے اندر
موجود تھا۔۔۔اچانک سے ایسی خبر نے جہاں پریشان کیا وہاں حیرت میں بھی ڈال
دیا ۔۔۔ اسی لمحے رکنِ یمنی پر جا کر اﷲ کے حضور دعا کی اور دو نفل پڑھے
۔۔پھر فوری حرم شریف سے باہر نکل حافظ مسعود صاحب سے رابطہ کیا ور انہوں نے
بتایا کے ابھی تک بے ہوش ہیں۔۔۔ خیر گاہے بگاہے رابطہ رہا۔۔۔ اور پتہ چلتا
رہا کے موصوف کی حالت شیدید قسم کی خطرناک حد تک جا پہنچی تھی۔۔۔۔ مگر خدا
کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔ ایک نئی زندگی ملی ہے ۔ عمرہ شریف سے واپسی
پر شہیر بھائی سے رابطہ ہوا۔۔۔۔ تو پتہ چلا کہ کچھ طبیعت سنبھلی ہے ۔۔۔چند
دنوں بعد دوستوں کے ہمراہ رختِ سفر باندھا اوررات تقریباََ 10بجے کے قریب
راولپنڈی سی ایم ایچ اسپتال میں پہنچے۔۔۔ہماری یہ دوسری ملاقات تھی مگر یوں
محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سانسو ں کا تعلق جھڑا ہو ایک دوسرے سے۔۔۔ موصوف
کافی تکلیف میں تھے ۔۔۔ مگر پھر بھی ہر لمحہ ہمیں اس احساس سے دور رکھا۔
کچھ وقت ساتھ میں گزارا ۔۔۔۔ بڑے اچھے اور یادگار پل تھے ۔۔۔ اُس وقت جس
چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ برادر شہیر سیالوی کے والدِ قبلہ کا
رویہ تھا۔۔۔ میرے ذہن میں ایک چیز بڑی پختگی سے رچی بسی تھی اور اب بھی ہے
کہ اگر آپ کسی اچھے عہدے پر ہیں تو تھوڑی سی گرمی ضروری ہے ورنہ لوگ سیدھے
نہیں ہوں گے۔۔۔ جیسے کہ استری جتنی مرضی بھاری ہو اگر گرم نہ ہو تو ’’ وٹ
‘‘ نہیں نکلتے۔۔۔ بلکل میرے ذہن میں بھی ان کے والدِ قبلہ کے بارے میں یہی
خیالات تھے ۔۔۔۔ مگر اُن کی طبیعت کو اس کے بلکل برعکس پایا۔۔۔
جب ہم رات کو واپسی پر نکلنے لگے تو بولے بیٹا۔۔۔!!!
رات کافی ہو گئی ہے اور سفر بھی کافی لمبا ہے میں یہی کہوں گا کہ آپ یہاں
رُکیں میں رہائش کا انتظام کروا دیتا ہوں۔۔!!
انہوں نے بارہا بار کہا ۔۔۔ مگر پرائے دیس میں کہاں جی لگتا ہے۔۔؟
ہم نے کہا نہیں انکل ۔۔۔!!
در اصل کل کزن کی شادی ہے وہاں بھی جانا ہے لہذا ہمیں نکلنا پڑے گا۔۔۔ یہ
ایک سفید جھوٹ تھا۔۔ جسکی قیمت ہمیں خوب نبھانی پڑی۔ اس جھوٹ کا اندازہ
ہمیں وہاں سے نکل کر ہوا ۔۔ سردی انتہا کی تھی اور اوپر سے ٹرین بھی 3گھنٹے
کی ٹرین سے آئی۔ تب بس ایک ہی جملہ ہماری عکس بندی کر رہا تھا کہ ’’ رُل تے
گئے آں۔۔۔ پر چَس بڑی آئی اے ‘‘ ۔۔۔ اس کے بعد بھی کئی ملاقاتیں جاری رہی۔
ہر ملاقات میں کچھ نیادیکھنے۔۔۔ محسوس کرنے اور سیکھنے کو ملا۔۔۔ ہر ملاقات
کے بعد جذبات نے مزید شدت لی۔۔۔ قربتیں اور محبتیں بڑھیں۔ ۔۔ یہ کمال ہے
کسی کی شخصیت کا جو آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔۔۔ اور برادر محترم میں یہ
کمال کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔۔۔ میں اکثربرادرم شہیرسیالوی کو دیکھ کر اس
بات کو سوچتا ہوں کہ اصل زندگی یہی ہے جو اوروں کے درد میں جی جائے۔۔ جس کا
لمحہ لمحہ اوروں کے نام کر دیا ۔۔۔ ورنہ اپنا درد تو جانور بھی محسوس کرتے
ہیں ۔
ایک عرصے سے موصوف کے ساتھ محبت والفت کے سفر پر ہیں۔۔ کافی کچھ سیکھا،
دیکھااور محسوس کیا ۔۔۔ جہاں تک میں نے محسوس کیا برادرشہیر سیالوی الگ
دنیا اور سوچ کے انسان ہیں۔۔۔ یہ نوجوان کہنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتا
ہے ۔۔۔چند پروگراموں میں خاصی قربت رہی اور قریب سے دیکھا۔۔۔۔جناب نے اگر
کوئی فیصلہ لے لیا تو بس یہ کرنا ہے۔۔۔ اور کر دیا وہ۔۔ میں ایک چیز سے
کافی حیران ہوا کرتا تھا کہ۔۔۔ ایک سٹوڈنٹ کی مالی حثیت کیا ہوتی ہے۔۔ سب
اس سے واقف ہیں۔۔۔ پروگرامز کا جب اعلان کیا کرتے موصوف تو ایک سٹوڈنٹ کی
طرح خالی ہوتے۔۔۔ مگر جو پروگرام ہوتا ۔۔۔ اسکا بجٹ لاکھوں میں بنتا۔۔۔ اور
معلوم نہیں یہ نصرت کہاں سے آتی ۔۔پوچھنے پر جواب ملتا ۔۔بھائی یار اﷲ کرم
کرے گا نا۔۔۔ہمارے مشن میں کوئی منافقت نہیں ہے۔۔ سب ہو جائے گا۔۔۔
اور پھر چشمِ بینا نے دیکھا پروگرام بھی کامیاب ہوتے ۔۔ ظلم کے ایوان
تھرتھراتے۔۔اور عالمی ضمیر بھی اس پر کان دھرتا۔۔۔
دنیا کے کسی کونے میں امتِ مسلمہ پر کوئی ظلم ہوا اور انہوں نے اِسے اپنے د
ل کے کونے پر محسوس کیا ۔۔۔ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ہو یا کشمیر میں
بربریت کے بازار گرم کئے جائیں۔۔۔ عراق ہو یا افغانستان۔۔ برما ہو یا سانحہ
پشاور ہر لمحہ حق کی آواز بن کر ابھرتا دیکھا۔
سب سے اچھی خوب جو میں نے شہیر سیالوی میں دیکھی اور اپنائی بھی وہ ان کا
کارکنان انجمن کے ساتھ محبت و عقیدت بھرا رویہ ہے۔۔۔ اکثر جب انجمن کے
کارکنان سے ملتے ہیں تو جھک جانا ۔۔۔ہاتھ ملا کر اُن کے ہاتھوں کو سینے سے
لگانا۔۔۔۔ جب میں بھی پہلی بار ملا تو یہ میرے لئے بڑی عجب بات تھی ۔۔ ۔
میں نے سوچا اوروں کے ساتھ بھی شاید یہی رویہ ہو گا ۔۔ پر جب اوروں سے ملتے
دیکھا تو بڑی شان ِ بے نیازی دیکھی۔۔۔ پوچھنے پر معلوم ہوا یہ سب کیا ماجرا
ہے۔۔۔؟؟
فرمانے لگے بھائی۔۔۔۔!!آقا علیہ ا لسلام کے غلاموں سے محبت ہی کی بدولت تو
یہ سب عزتیں اور رفعتیں ہیں۔۔۔ بظاہر ہماری اوقات کچھ نہیں ہے مگر جب ہم پر
انجمن کا ٹیگ لگ جاتا ہے تو ہماری شا ن اور اقات بدل جاتی ہے۔۔۔یہ جھکاؤ صر
ف انجمن کے کارکنان کے ساتھ ہے ۔ بردر شہیر سیالوی میں جہاں بہت ساری
خوبیاں ہیں۔۔۔وہاں ایک بہت اعلیٰ درجہ خوبی یہ ہے کہ موصوف نعت گو شاعر بھی
ہیں۔۔۔ موصوف نے 7ویں کلاس میں پہلی بار بہت ہی باکمال الفاظ کا انتخاب
کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں نعت مبارک لکھ کر اپنے وجدانِ عشق کا
اظہار کیا۔۔ اور جب برادرِ محترم دسویں کلاس میں تھے تو 70نعتوں ، منقبتوں
کا ایک شاہکار مجموعہ لکھا۔۔
شہیر سیالوی ۔۔ یہ نام جب بھی ذہن میں آتا ہے۔۔۔ تو ایک بات ذہن میں بنا
دستک دیئے چلی آتی ہے کہ
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نظر آنے میں تو فردِ واحد ہوتے ہیں مگر ان کا
کردار ۔۔ ان کی سوچ۔۔۔ ان کے افکار۔۔ اور خیالات ایک مجمع کی اہمیت رکھتے
ہیں۔۔۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ایسے ہیرے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔۔۔۔ یہ
آوازیں ایسی ہیں جن کو مائیں روز روز جنم نہیں دیں گی۔۔۔ جو ہر لمحہ بے
باکی سے بول اُٹھیں۔۔ اپنی دنیا سے اورں کی دنیا کو مہکائیں۔۔۔۔ ماں کی گود
جو پہلی درسگاہ ہے پھر سے ایسے تربیت یافتہ اور باشعار لوگ معاشرے کو نہیں
دیں گی۔۔۔ بس یہ کچھ لوگ خدا کی طرف سے خاص عطا کردہ ہوتے ہیں۔۔۔ جو ہر رنگ
میں سما جاتے ہیں۔۔۔خوشیاں او محبتیں بانٹناشیوہ ہوتا ہے۔۔۔۔لوگ ان میں
سماجاتے ہیں۔۔۔منافقت اور عیاری ان کا شیوہ نہیں ہوتا۔۔۔ بلکہ صدقِ دل سے
اپناتے اور نبھاتے ہیں۔۔
یہ خش و خشاک میں اڑنے والے پرندوں کی طرح نہیں ہوے جو روز اپنی ضرورت کے
تحت آشیانے بدلتے رہیں ۔۔ یہ بڑے باکمال لوگ ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔ اﷲ پاک ایسے
لوگوں کو ہمارے درمیان تا دیر قائم و دائم رکھے۔۔۔ ہمارا فخراور غرور ہیں
شہیر جیسے لوگ۔۔
اور آخر مین دعا گو ہ ہوں کہ۔۔۔۔ اﷲ کرے جناب ڈوب جائیں۔۔۔!!! ارے بابا آگے
بھی تو سنو۔۔۔!!!!
ڈوبنا کہا ں ہے۔۔۔۔ ؟؟ سنتے جاؤ۔۔۔!! ڈرنے کی بات نہیں۔۔۔
ڈوبنا خوشیوں کیا یسے گہرے سمندر میں ہے جہاں تک کوئی غم نا پہنچ سکے۔۔۔
آمین |