انتخابی بگل بجنے میں مختصر عرصہ رہ گیا ہے تمام سیاسی
شخصیات نے اپنے اپنے حلقعہ انتخاب میں الیکشن مہم شروع کر دی ہے اسی طرح
نیلم ویلی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا
ہے ہمارا آج کیا ہے قارئین مبالغہ آرائی اور سیاسی وابستگی سے ہٹ کر کچھ
کہنے کی جسارت کروں گا گزشتہ ادوار میں تمام سیاسی جماعتوں نے نیلم ویلی کا
رخ کیا ہر امیدوار کا یہی منشور تھا نیلم ویلی میں خوشحالی لائی جائے گئی
اس امید پہ آپ نے بھی اپنے اپنے منتخب نمائندوں کو ووٹ بھی دیئے اور ہر طرح
جائز و ناجائز سپورٹ بھی کی لیکن آج جب نیلم ویلی کی جانب طاہرانہ نظر
دوڑائی تو وہ ہی سابق صورت حال تھی کچھ بھی تبدیلی نظر کیا امکانات نہ پاتے
ہوئے دل خون کے آنسو رو پڑا ۔نیلم ویلی کی عوام بے شمار مسائل کا شکار ہے
جن میں پہلا بنیادی مسئلہ نوجوانوں کے روز گار کا ہے ہر دوسرا نوجوان
ہاتھوں میں ڈگریاں لیے زمانے کی خاک چھانتا رہا کبھی ایک مداری کے پاس کبھی
دوسری مداری کے پاس مگر مایوسی اور بے چینی نے حوصلہ جستجو چھین لیا اس
دوران نیلم کے لیے جو بھی اسامیاں آتی وہ دوسرئے اضلاح کے مقابلے میں
انتہائی قلیل تھی اوران اسامیوں کی بندر بانٹ ریوڑیوں کی طرح کی گئی میرٹ
نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملی جیالوں کو نوازہ گیا میرٹ کا سر عام
تقدس مجروح کیا گیا پیپلزز پارٹی کے جہاں قائد اس میں قصور وار ہیں وہاں
اپوزیشن اس ظلم عظیم پہ کیوں خاموش تماشائی بنی رہی عوام بے روزگاری، غربت
،جہالت ،افلاس ،مہنگائی ،کرپشن ،کا شکار رہی ننگا ناچ نچاتی معثیت نے غریب
کے بچوں سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی پیپلزز پارٹی کا پانچ سالہ دو حکومت
تاریخ کا بد ترین دور تھا اتنا ظلم کسی بھی دور حکومت میں دیکھنے کو نہیں
ملا جب بھوک افلاس نے دہلیز پہ ڈھیرئے ڈالے تو ہر ظلم سہہ کر اپنے بچوں کے
پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی کس طرح میسر کی گئی ایک اسلامی ریاست میں
اس موضوع پہ بحث کی جائے تو حقیقت سامنے آنے پہ یہ گمان ہو گا ہم مسلمان
اغیار کی نظروں میں اچھوت و شودر ہیں خیر یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن یہاں یہ
بات کہنے میں حق بجانب ہوں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ اس قدر چھوٹا اور غلیظ
ہے جس کی مثال کے لیے لفظ ہی نہیں تاہم شرم ان کو آتی نہیں یا شرم ہم کو
نہیں آتی ۔جناب وزیراعظم پاکستان جب شاہ صاحب کی الیکشن مہم کے دوران نیلم
تشریف لائے یقینا یہ دورہ انتہائی کھٹن اس لحاظ سے دورہ تھاوہ بذریعہ روڈ
نیلم تشریف لائے اور آٹھمقام جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے موبائل سروس ہائی
وئے و دیگر اہم اعلانات داغ کر چلے گئے اس وقت ان کو شاہ صاحب کے لیے ووٹوں
کی ضرورت تھی جب ضرورت ختم ہو گئی تو نیلم ویلی کے مسائل جوں کے توں رہے
ایک بار ٹیوٹر پہ جب مریم نواز کو ٹویسٹ کیا آپ کے والد محترم نے اہلیان
نیلم سے وعدہ کیا تھا نیلم ویلی میں وہ اپنے دور اقتدار میں موبائل سروس
دیں گئے مگر ابھی تک ان کے اعلان پہ عمل درآمد نہیں ہوا وہ کہنے لگی ابھی
پاپا نے حلف بھی نہیں اٹھایا اور پہلے ہی آپ کو موبائل سروس یاد آگئی یہ ان
کا ایک طنز تھا ۔نیلم ویلی کو اﷲ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے مالا مال کیا
ہوا ہے وسائل کو احسن طریقے سے بروئے کار لا کر نیلم کے جملہ مسائل حل کیے
جا سکتے ہیں مگر ہم نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں دی عوام کی بد حالی کو
خوشحالی میں بدلا جا سکتا ہے اس کے لیے بیرونی امداد کی بھی ضرورت نہیں
ضرورت اس امر کی ہے نیلم ویلی کے مسائل نیلم ویلی کے وسائل سے ہی حل کیے
جائیں ۔ہمارا آج یہ ہے نیلامی کے لیے ہمیں جمع کیا جا رہا ہے اور ڈوگڈگی
بجائی جا رہی ہے عوام بے چاری معصوم سادہ لوح تالیاں بجا بجا کر داد دئے
رہی ہے لیکن اس بات سے اکثریت عوام اور سیاسی لیڈر بے خبر ہیں نیلم کے
نوجوان جاگ چکے ہیں کب ؟کیسے وہ میدان عمل میں کود پڑیں گئے شاہد پھر حالات
کا رخ کسی اور جانب ہو ہم کل بڑا تابناک تھا اور ہم نے اپنے آج کو بدلنا ہو
گا ورنہ ہم کو اغیار کے اہلکار یوں ہی اندھیروں میں رکھیں گئے ۔ان کو نیلم
ویلی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہر ایک نے نیلم فتح کرنے کا سہانا سپنا
دیکھ رکھا ہے ۔کافی عرصہ سے پیپلزز پارٹی کی الیکشن مہم عروج پہ ہے تمام
مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے غیر جانبدارانہ انداز سے اﷲ رب العزت کو حاضر
ناظر جان کر سوچیں کیا صرف پیپلزز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو
نہیں نوازہ گیا ؟کیا تقرریاں و تبادلے صرف اور صرف سیاسی بیس پہ نہیں ہوئے
اگر جیالے ہی اس کے حق دار ہیں نیلم ویلی کی باقی عوام کدھر جائے ؟لٹیرئے
ریاست پہ قابض ہیں اور یہ ملک ہمارا ہے ہم نے ہی اس کو بنانا اور سنورانا
ہے اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گئی ہم کیوں ٹوٹی نلکے کی ساست کے گرد
گھوم رہے ہیں زاتی مفادات کی خاطر اپنے دوسرئے مسلمان بھائیوں کی کیوں حق
تلفی کر رہے ہیں اب کی بار نیلم میں تبدیلی آسکتی ہے اگر ہم اجتماعی سوچ
سوچتے ہوئے اپنے امیدوار کے سامنے ایک ہی مطالبہ رکھیں اور حلف لیں نیلم کے
مسائل نیلم کے وسائل سے حل کیے جائیں جب تک نیلم میں مکمل خوشحالی نہیں
آجاتی تب تک نیلم کے وسائل کو نیلم سے باہر نہ منتقل کیا جائے ۔ |