بد عنوانی ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے
(عابد محمود عزام, karachi)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے
کہ بدعنوانی کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ایک ایسا
مرض ہے جو معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ کرپشن وبدعنوانی آکاس بیل کی طرح درختوں
کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے ، حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی
نہیں رہتا۔ بدعنوانی کی وجہ سے ہی ملک کے منصوبے جہاں بعض اوقات بروقت پایہ
تکمیل تک پہنچنے کی بجائے تاخیر کا باعث بنتے ہیں، وہاں ملک کومالی نقصان
بھی پہنچتا ہے، جس کا بوجھ پاکستان کے عام شہری پر پڑتا ہے اور یوں مہنگائی
میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم دنیا کی بہترین قوم ہے جس کو
اس بات کا قوی ادراک ہے کہ بدعنوانی نہ صر ف معاشی ترقی و سماجی بہبود کی
راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی ترقی کا سفربھی
متاثرہوتا ہے، اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق پاکستا ن میں روزانہ 7 ارب
روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اس طرح اگر ملک میں ہونے والی کرپشن کا حساب لگایا
جائے تو ہمارے ہاں سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 25 کھرب 55ارب کی کرپشن
کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے ایک آئینی ادارہ بنایا
گیا ہے، جسے قومی احتساب بیورو کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ملک سے کرپشن،
مالیاتی جرائم کے خاتمے اور اقتصادی دہشت گردی کو روکنے کا سب سے بڑا اور
بااختیار ادارہ ہے۔ قومی احتساب بیورو جسے زبان عام میں نیب کہا جاتا ہے،
آئینی اعتبار سے ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس ادارے کی بنیاد ی ذمہ داری ملک
کے سرکاری اور نجی اداروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر ہونے والی بد
عنوانیوں، کرپشن اور مالیاتی جرائم پر نظر رکھنا ہے، اس میں ملوث افراد کے
خلاف تحقیق و تفتیش کرنا اور نامزد افراد کو گرفتار کر کے انہیں سزائیں
دلوانا شامل ہے۔ اس حوالے سے نیب کو وزیر اعظم، کابینہ کے ارکان، ممبران
پارلیمنٹ، سیاستدان، بیورکریٹ، تاجر، سرمایہ دار، بینکار، دفاعی اور
کارپوریٹ اداروں سے منسلک تمام افراد کے خلاف کارروائی کا حق ہے۔
نیب اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملک سے کرپشن کی بیخ کنی میں مشغول
ہے۔ کچھ عرصے سے ملک میں کرپشن کے خلاف منظم آپریشن جاری ہے۔ اب تک بہت سے
کیسز میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے، جبکہ مزید کے خلاف
کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دنوں نندی پور پاور پراجیکٹ منصوبے میں
مبینہ کرپشن کا معاملہ میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ ذرایع کے مطابق نندی پور
پاور پلانٹ میں اربوں روپے کی کرپشن ثابت ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کو موجودہ
حکومت کے ایک میگا اسکینڈل کا نام دیتے ہوئے بعض اپوزیشن لیڈر شریف برادران
سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اس منصوبے میں
بدعنوانیوں کے مرتکب افراد کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کرانے کا اعلان کر
چکے ہیں اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ
نندی پور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی ہے اور اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ کسی
بھی فرم سے رینٹل پاور اور نندی پور پراجیکٹ کا آڈٹ کرانے کے لیے تیار ہیں،
جبکہ قائمہ کمیٹی سینیٹ کا نندی پورپراجیکٹ کے آڈٹ کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نندی پور پراجیکٹ کا 31دسمبر2014 تک 45 ارب روپے کا آڈٹ کرایا تھا۔ نندی
پور منصوبہ دسمبر 2007 میں منظور ہوا اور اپریل 2011 میں مکمل ہونا تھا۔
اڑھائی سال میں منصوبہ مکمل ہو جاتا تو 425 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل
ہوتی، تاہم تاخیر سے لوڈشیڈنگ کی مد میں معیشت کو 298 ارب روپے کا نقصان
ہوا۔ اس منصوبے کی کل لاگت 23 ارب روپے تھی، جو کہ اب ابتدائی لاگت کے تین
گنا سے بھی زیادہ ہو کر تقریبا 83 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پنجاب کے وزیر
اعلیٰ شہباز شریف اس منصوبے کی لاگت 58 ارب روپے بتا رہے ہیں۔ اس منصوبے کے
ذریعے 425 میگا واٹ بجلی حاصل ہونا تھی۔ وزیراعظم نے مئی 2014ءمیں پلانٹ (صرف
ایک ٹربائن) کا ڈیزل افتتاح اس حال میں کیا تھا کہ اس کا ہائی سلفر فیول
آئل (HSFO) پلانٹ بھی مکمل نہیں تھا اور یہ پلانٹ صرف 3 روز بعد بند ہوگیا
تھا، پھر یہ پلانٹ ایچ ایس ایف اوپر سمپل سائیکل کی بنیاد پر چلایا گیا، جو
گیس ٹربائنوں اور فیول ٹریٹمنٹ پلانٹ میں تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہو
گیا۔ نیب نے نندی پور پاور پلانٹ میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات مکمل کر
لی ہے۔ اس حوالے سے کرپشن میں ملوث سابق وزرا سمیت 5 اہم شخصیات کو گرفتار
کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر بابراعوان اور اس وقت کے وزرات
پانی و بجلی اور وزارت قانون و انصاف کے سینئر حکام اور بیورو کریٹس سمیت
30 سے زاید افراد سے تفتیش کی گئی ہے۔ ان تحقیقات میں سینیٹر ڈاکٹر بابر
اعوان سمیت 30 سے زاید افراد سے تفتیش کی گئی ہے۔ ذمہ داروں کو گرفتار کرنے
کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق کرپشن کا کینسر ملک کے ہر شعبے میں موجود ہے، جب تک اس کا
سختی سے علاج نہیں ہوتا، اس وقت تک اقتصادی اور معاشی شعبے میں ترقی اور
عام لوگوں کے حالات میں بہتری ناممکن ہے۔ اس وقت ملک میں بدعنوانی وکرپشن
کی ماضی و حال میں بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ گزشتہ روز کی رپورٹ کے
مطابق قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت
خارجہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ وزارت کے
کئی لوگ کرپشن کر کے بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں، جس سے ملک کی بدنامی ہو
رہی ہے۔ آڈٹ حکام کے مطابق وزارت میں مالی سال 1998-99 کی آڈٹ رپورٹ وزارت
سے منسلک کئی افسروں نے بے قاعدگی کی اور 17 سال گزرنے کے باوجود اس پر
کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد بھی ان کے خلاف
کارروائی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ اسی طرح ذرایع نے انکشاف کیا ہے کہ میاں
نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں او آئی سی کانفرنس کے اجلاس کے دوران قومی
خزانے کو بے دریغ لوٹایا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز کی ہی رپورٹ کے مطابق صدر
مملکت نے اپنے بیرون ملک دوروں پر 61 لاکھ روپے ٹپ میں اڑادیے ہیں۔ اسی طرح
گزشتہ روز کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان پوسٹ میں 5 سال کے دوران 55
کروڑ 90 لاکھ کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے538 کیس سامنے آئے، جن کے خلاف
ملک بھر میں 212 کیس رجسٹرڈ ہوئے، جس میں سے83 پولیس، 29 نیب اور99 ایف آئی
اے کے پاس ہیں۔ یہ تو صرف گزشتہ روز بدعنوانی کے حوالے سے میڈیا پر آنے
والی رپورٹس ہیں، جبکہ ملک میں جس بڑے پیمانے پر کرپشن و بدعنوانی ہورہی ہے،
وہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ دو ماہ قبل پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں
”قومی احتساب بیورو“ کی طرف سے ملک میں بدعنوانی کے 150 بڑے مقدمات کی ایک
ترمیم شدہ فہرست پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تھی۔ اس فہرست میں
ملک کے موجودہ وزیراعظم اور سابق صدر سمیت کئی موجودہ اور سابق اہلکاروں کے
نام بھی شامل ہیں۔ کرپشن کے 150بڑے کیسوں میں سے 54 کرپشن اسکینڈلز کی
تحقیقات کا آغاز رواں سال کیا گیا۔ جبکہ ابھی مزید کے خلاف کارروائی کا
سلسلہ جاری ہے اور روز کرپشن و بدعنوانی کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
عوامی حلقوں کے لیے یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ ملک میں کرپشن میگا
اسکینڈلز میں ملک کی اہم اور اعلیٰ شخصیات ملوث ہیں۔ کرپشن کی دیمک ملکی
سلامتی کے شجر کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہے۔ اسی کرپشن کا
نتیجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ اور غیرترقی یافتہ ممالک میں
ہوتا ہے، حالانکہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست ہے۔ کرپشن اسی وقت
فروغ پاتی ہے، جب اس کے مرتکبین کو اس امر کا یقین ہوتا ہے کہ وہ جب تک
اپنے منصب پر فائز ہیں، وہ آئین اور قانون سے بالا ہیں، مقدس بچھڑے ہیں اور
انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ درجنوں قومی اداروں میں مجموعی طور پر
کھربوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں، چونکہ ان قومی
اداروں کے سربراہ ایلیٹ سے تعلق رکھتے تھے یا ایلیٹ کے لائے ہوئے تھے،
لہٰذا ان کے خلاف بھی کارروائیاں سرد خانوں کی نذر ہو گئیں۔ ملک کے نامور
سیاستدانوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات کے کیسز بھی ہماری اعلیٰ
عدلیہ کی میزوں تک پہنچے، لیکن بوجوہ یہ کیسز بھی عشروں کا عرصہ گزرنے کے
باوجود زیر التوا ہی رہے۔ غیر ملکوں میں اربوں کی جائیدادوں کے اسکینڈلز
بھی میڈیا میں ہنگامہ بنے رہے، لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ
نکلا۔ اربوں کی کرپشن کے ریفرنسوں پر عشروں تک شنوائی ہوتی رہی، آخر میں
اخباروں کے کونوں میں تین چار سطری خبریں لگیں کہ ان کیسوں کے ملزمان بے
گناہ ثابت ہو گئے۔ یہ ایسی داستانیں ہیں جو ملک بھر میں بکھری ہوئی ہیں، یہ
اس لیے کہ اشرافیہ بے حد طاقتور ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے
کہ جب ملک کے مقتدر ترین سیاسی اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین
افسران کرپشن کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں تو نچلی سطح پر عام سیاسی کارکن ،
شہری اور ماتحت سرکاری عملہ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے کسی قسم کی
جھجک محسوس نہیں کرتا۔ |
|