جہاں میں کامیابی کی یقیں والوں سے یاری ہے

ایک معمولی سا تنکا ہوا کے رخ پتہ دیتا ہے ۔دہلی یونیورسٹی اور دہلی میں واقع جواہر نہرولال یونیورسٹی کے انتخابات کے نتائج تعلیم یافتہ نوجوانوں کےفکری وسیاسی رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ گزشتہ سال دہلی کے نوجوانوں کیلئے وزیراعظم نریندر مودی امید کی کرن تھے اور دہلی میں بی جے پی غیر معمولی کامیابی میں ان بہت بڑا حصہ تھا لیکن ۸ ماہ بعد دہلی کے صوبائی انتخابات میں ایک نیا منظر نامہ سامنے آیا۔ اس بار یہ نوجوان نریندر مودی کا دامن جھٹک کر اروند کیجریوال سے بغلگیر ہوگئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ بی جے پی نے جہاں تمام پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی وہیں عآپ نے ۷۰ میں سے ۶۷ نشستوں پر اپنا پرچم لہرا دیا تھا ۔ اس قدر کم وقت میں ایسا بڑا انقلاب کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا لیکن وہ برپا ہو کررہا ۔
دہلی میں فیالحالکیجریوال کا بول بالا ہے ۔ اپنی پارٹی کے اندر وہ سارے مخالفین کو ٹھکانے لگا چکے ہیں ۔ مرکز کی ریشہ دوانیوں پر بھی بڑی حد تک قابو پاچکے ہیں اس لئے یہ توقع کی جارہی تھی کہ نوجوانوں کے منظور نظر اروند کیجریوال کا جادو یونیورسٹی انتخابات میں سر چڑھ کر بولے گا اور کانگریس و بی جے پی کا صفایہ کردے گا لیکن افسوس کہ وہ طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ کالج کے طلباء نے اروند کیجریوال سے اپنا رخ پھیر لیا اور پھر دوبارہ انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب متوجہ ہو گئے جن پر وہ ماضی میں اعتماد کیا کرتے تھے۔
جواہرلال نہرو یونیورسٹی چونکہ اقامتی درسگاہ ہے اس لئے اس میں بیرونِ دہلی کے طلباء کی تعداد زیادہ ہوگی اور دہلی یونیورسٹی کے کالجوں میں مقامی طلباء کی بہتات ہونا فطری ہے۔ اس لئے ان نتائج سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر دہلی اور بیرونِ دہلی کی طلباء برادری کس رحجان کوکتنی اہمیت دیتی ہے۔ دہلی میں چونکہ مرکزی حکومت بی جے پی کی ہے اور صوبائی اقتدار عآپ کے ہاتھوں میں ہے اس لئے توقع یہ کی جارہی تھی اصل مقابلہ انہیں دونوں جماعتوں کے طلباء تنظیموں بالترتیب اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی ) اور چھاتر یوا سنگھرش سمیتی (سی وائی ایس ایس) کےدرمیان ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

دہلی یونیورسٹی میں اے بی وی پی کا بول بالا رہا ہے ۔ گزشتہ دو سالوں سے وہ چاروں اہم عہدوں (صدر، نائب صدر،سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری ) پر قابض رہی ہے۔ اس بار پھر سے یہی ہوا کہ اس نے ان چاروں نشستوں کو جیت لیا۔ سی وائی ایس ایس نہ صرف اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام رہی بلکہ وہ چار میں صرف ایک مقام پر دوسرے نمبر پر آسکی بقیہ تینوں عہدوں کیلئے اے بی وی پی کو کانگریس کی طلباء تنظیم این ایس یو آئی کو پچھاڑنا پڑا۔ این ایس یو آئی نے سکریٹری کا عہدہ آپسی لڑائی کے سبب گنوایا۔ این ایس یوآئی کے امیدوار امیت شیراوت کو ۱۰ ہزار سے زیادہ اور باغی امیدوار امیت چودھری کو ۹ ہزار سے زائد ووٹ ملے جبکہ اےبی وی پی کی انجلی رانا صرف ۱۴ ہزارووٹ حاصل کرکے کامیاب ہو گئیں۔

ڈی یو ایس یو کی صدارت پر ستیندر آوانہ بڑےآرامسےفائز ہوگئے ۔ انہوں نے این ایس یو آئی کےپردیپ وجین کو۶ ہزار سے زیادہ کے فرق سے شکست فاش دے دی۔ نائب صدر کے عہدے پر سی یو ایس ایس نے اے بی وی پی کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔گریما رانا کو صرف ۷۵۵ ووٹوں کے معمولی فرق سے شکست ہوئی ۔ اس عہدے پر عآپ نے اپنی موجودگی کا احساس زور دار طریقہ پردلایا۔ سکریٹری شپ پر اے بی وی پی کی انجلی رانا نے ۴ ہزار ۶ سو ووٹوں کے فرق سے اور جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر چرپال یادو نے ۶ ہزار کے فرق سے این ایس یو آئی کے امیدواروں کو شکست دے کر ثابت کردیا کہ طلباء نےپھر ایک زعفرانی پرچم اٹھا لیا ہے اور کانگریس ان سے لوہا لینے کی کوشش کررہی ہے ۔ طلباء برادری کے اندرجھاڑو کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔

ان تعلیم گاہوں کی اور ریاستی انتخابی مہم میں بھی ایک مماثلت ہے۔ گزشتہ مرتبہ نریندر مودی یہ بھول گئے تھے کہ وہ وزیراعظم ہیں اور دہلی کے انتخابات میں پارٹی کو کامیاب کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ امیت شاہ نے دہلی کے مقامی رہنماوں کو کنارے کرکے باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی یہی وجہ ہے کہ دہلی کی شرمناک شکست کیلئے کسی مقامی رہنما کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ ساری بحث کا محور مودی اور شاہ رہے۔ اس مرتبہ بی جے پی کی لیڈرشپ نے اپنے آپ کو کیمپس انتخابات سے دور رکھا حالانکہ ارون جیٹلی اے بی وی پی سے ہوکر سیاست میں آئے ہیں اور بی جے پی ترجمان سمبت پاترا بھی جے این یو طلباء یونین کے صدر رہ چکے ہیں ۔ اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ جو لوگ زمینی حقائق سے واقف ہیں انہوں نے صحیح انداز میں انتخاب لڑا اور اپنی کامیابی کو دوہرا دیا۔

اس کے برعکس اروند کیجریوال اور ان کے ساتھیوں نے وہ غلطی کی جو بی جے پی کے رہنما پچھلی مرتبہ کرچکےتھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اے بی وی پی کے قومی سکریٹری روہت چاہل نے اپنی کامیابیکا سہرہ جہاں کارکنا ن کے سر باندھا وہیں عام آدمی پارٹی کی حکمت عملی کو بھی اپنے حق میں سازگار گردانہ ۔ چاہل کے مطابق اگر کیجریوال اشتہاری تماشوں کے بجائے بنیادی مسائل پر اپنی توجہ مبذول کرتے تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے ۔ یہ تبصرہ اس بات کا غماز ہے نمائشی مہم جس طرح نریندر مودی کیلئے بے فائدہ ہے اسی طرح کیجریوال کیلئے بھی بے سود ہے۔ کانگریس کیلئے ان نتائج میں یہ امید کی کرن ہے کہ طلباء برادری کے اندر وہ بی جے پی کو تو اپنے پیچھے نہیں کرسکی مگر عآپ سے یقیناً آگے نکل گئی ہے اور برسرِ اقتدار جماعتوں کے تئیں نوجوانوں کی مایوسی اس کیلئے سود مند ثابت ہو رہی ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے انتخابات تو ایک چنگھاڑتی پہاڑی ندی کے طرح ہوتےہیں مگر جے این ایو ایک نہایت پرسکون تالاب کی مانند ہے ۔اس لئے جے این یو کے نتائج کسی اور رحجان کا پتہ دیتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک بھر سے جو ذہین طلباء جے این یو میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں ان کے اندر ہنوز اشتراکی نظریات کی حامل تحریکیں مقبول ہیں ۔ جس طرح اے بی وی پی گزشتہ دوسالوں سے دہلی کے چاروں عہدوں پر قابض ہے اسی طرح جے این یو کے ان چاروں نشستوں پر سرخ پرچم لہرا تارہا ہے لیکن اس مرتبہ اس کی سب سے نچلی پائیدان یعنی جوائنٹ سکریٹری کی کرسی پر زعفرانیوں نے کامیابی حاصل کرکے یہ بتادیا کہ ان کی قوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ نائب صدر اور سکریٹری کی جنگ میں بھی ان کا امیدوار دوسرے نمبر پر رہا۔

صدارت کیلئے اصل مقابلہ بائیں بازو کی طلباء تنظیموں کے درمیان تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی طلباء تنظیم اے آئی ایس ایف کے امیدوار کنھیا کمارنے اس بار انتہا پسند نظریات کی حامل اے آئی ایس اے کے وجئے کمار کو ۶۷ ووٹ کے فرق سے شکست دے دی ۔ اس کے باوجود نائب صدر کے عہدے پر شہلا رشید اور سکریٹری جنرل کی نشست پر اے آئی ایس اے کے راما ناگا پھر ایک بار کامیاب ہوگئے لیکن ان دونوں مقامات پر ان سے ہارنے والے امیدواروں کا تعلق اے بی وی پی سے تھا۔ جوائنٹ سکریٹری کے نسبتاً کم اہم عہدے پر تو اے بی وی پی کے سوربھ کمار شرما نے اے آئی ایس اے کے حامد رضا کو شکست دے دی۔
ایک ہی شہر میں واقعدو یونیورسٹیوں کے انتخابی نتائج کا فرق طلباء کی مختلف نفسیات کا اظہار ہے۔ عام کالج کے طلباء انتشار فکر کا شکار ہیں۔ وہ ہر لہر کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ باآسانی مختلف شخصیات کے جھانسے میں آجاتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی مدد سے ان کو اپنے قابو میں کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ جلد باز طبیعت کے حامل ہیں ۔ جس قدر جلدی کسی کے گرویدہ ہوتے ہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس سے بددل بھی ہوجاتے ہیں ۔ اس کے برعکس جے این یو کے طلباء میں فکری استحکام پایا جاتا ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر اپنا حق رائے دہندگی استعمال کرتے ہیں اور آسانی سے کسی ورغلانے میں نہیں آتے۔
دہلی یونیورسٹی کی طرح جے این یو میں این ایس یو آئی یا سی یوایس ایس کا کہیں دور دور تک اتہ پتہ نہ ہونے کا یہی بنیادی سبب ہے۔ جے این یو کے نظریاتی ماحول میں فکر ونظر سے عاری کسی تنظیم کی گنجائش نہیں ہے۔ اے بی وی پی اپنے فسطائی نظریہ کے باوجود ایک نظریاتی تنظیم ہے۔ دوسری چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ اشتراکی فکر کیلئے ان گئے گزرے حالات میں بھی اعلیٰتعلیم گاہوں کے اندر کشش باقی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے اس کے چار میں دو امیدوار مسلمان تھے جن میں سے ایک نے کامیابی حاصل کی اور دوسرامعمولی سے فرق ہار گیا ۔

اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) جیسی نظریاتی طلباء تنظیم کیلئے اس میں خوشخبری ہے۔ جے این یو کے ذہین طلباء اگر ہندوتوا کےنظریہ سے متاثر ہوسکتے ہیں تو اسلام سےکیوں نہیں ؟جے این یو کے مسلم طلباء اگراشتراکیت کا پرچم بلند کرسکتے ہیں تو وہاں کے غیر مسلم طلباء اسلام پسند تنظیم کے جھنڈے تلے انتخاب کیوں نہیں لڑسکتے؟ دراصل ان کامیابیوں کے پیچھے نظریہ کے علاوہ ان طلباء تنظیموں کی ٹھوس فلاحی خدمات بھی ہیں ۔ایس آئی او اگر طلباء کی بے لوث خدمت کا بیڑہ اٹھائے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی مانند جے این یو کے بھی اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ سکتی ہے۔ ایک زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اشتراکیوں کا گڑھ ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ سال ایس آئی اوکےصدارتی امیدوار عبداللہ عزامکی کامیابی نے ثابت کردیا کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ اس جانب اگر قدم بڑھایا گیا تو جلد یا بدیریقیناً کامیابی قدم چومےگی بقول ایک انگریزی شاعر؎
سفرآغاز جب کرنا
تو بس اتنا سمجھ لینا
جہاں میں کامیابی کی یقیں والوں سے یاری ہے
اگرتم بھی یقیں رکھو
تو پھر منزل تمھاری ہے۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238535 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.