پاکستانی اور داعش کے جھنڈوں کے بعد اب گائے

 میرا خیال ہے یہ 1985ء تھا جب ہمارے گاؤں(سلر اسلام آباد) میں بجلی ٹرانس فارمردو مہینے تک خراب رہنے کے بعد پہلگام بجبہاڈہ روڑ پر احتجاج کرنے کا پروگرام طے ہوا،پورا گاؤں روڑ پر نکل آیا ٹریفک کو روک دیا گیا اور ٹرانس فارمر کی مرمت نہ کئے جانے پر احتجاج شروع ہوا۔پہلگام پولیس اسٹیشن سے پولیس پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایس ،پی اسلام آباد بھی موقع پر پہنچ گئے ۔احتجاجیوں نے ایس پی کو دیکھ کر شدید نعرہ بازی شروع کی ،ایس پی نے احتجاجیوں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو اشارہ کیا ،پولیس عوام پر ٹوٹ پڑی ،احتجاجیوں میں پولیس لاٹھی چارج کے نتیجے میں اشتعال بڑھ گیا کہ اچانک’’ بجلی بحالی‘‘کا نعرہ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ میں تبدیل ہوا ۔میں کم عمری کی وجہ سے فوری طور پر یہ نہیں سمجھ سکا کہ بجلی ٹرانس فارمر کی خرابی اور پاکستان زندہ باد کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟یہاں تک کہ محترم سید علی شاہ گیلانی صاحب کا 1987ء میں اسمبلی ممبر منتخب ہونے کے بعد بجبہاڈہ سپر بازار میں ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا ۔گیلانی صاحب کے ساتھ اس جلسے میں یہاں اسٹیج پردو فاتح ممبران اسمبلی شہید عبدالرزاق میر اور محترم غلام نبی سمجھی صاحب بھی تشریف فرما تھے۔گیلانی صاحب کی ولولہ انگیز تقریر کے بعد جماعت اسلامی کے حامیوں نے گیلانی صاحب کو کاندھوں پر اٹھا کر نیشنل ہاوئے عبور کرانے کی کوشش کی کہ اچانک جموں سے سرینگر جانے والی فوجی کانوائے نمودار ہوئی ،نوجوانوں نے جوں ہی فوجی گاڑیوں کو دیکھا تو ’’پاکستان زندہ باد‘‘کے نعرے بلند ہوئے اور پھر تب سے لیکر آج تک اس طرح کے مناظرے باربار دیکھنے کو ملے کہ پاکستان زندہ باد کا تعلق مسئلہ کشمیر کے ایک پہلو سے جڑا ہوا ہے ۔

پرانوں سے معلوم ہوا کہ ’’پاکستان زندہ بادکا نعرہ‘‘مرحوم شیخ محمد عبداﷲ کے دور میں برصغیر کے دو حصوں میں بٹ جانے کے ساتھ ہی کشمیر میں شروع ہوا ہے اور ہر اس موقع پر دیا جاتا ہے جب کشمیری کسی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔پاکستانی نعرہ کا براہ راست مطلب اگرچہ پاکستان سے والہانہ محبت کی بھی عکاسی کرتا ہے مگر ساتھ ہی اس میں بھارت کے برعکس پاکستان سے تعلق جوڑنے کا مطالبہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کے سامنے ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ ’’بے ضمیر انگریز وں کے فارمولہ‘‘کے عین مطابق ’’تقسیم برصغیر‘‘میں اپنا رشتہ اس حصے سے جوڑ لیں جہاں ان کی تہذیب اور مذہب کا تحفظ ہواس پر نیک نیتی سے عمل کیا جاتا تو ’’مسئلہ کشمیرکا دیو ‘‘ سرے سے موجود ہی نہ ہوتا ۔مگر انگریز نے بھارت کو شہہ دیکر سارے خطے کو مصیبت میں ڈالدیا ،بھارت کی’’ ناعاقبت اندیش اور جوع الارضی کے مرض میں مبتلا قیادت‘‘نے بظاہر کمال کرتے ہوئے کشمیر کو فتح کرلیا مگر اب بھارت کی ’’اعتدال پسند قیادت‘‘سر کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ کشمیر کو فتح کر کے ملک کی خدمت کے بجائے ایک ایسے ’’کینسر‘‘کو خریدا گیا جو دھیمی رفتار کے ساتھ برصغیر کے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔

کچھ عرصے سے پاکستانی جھنڈوں کے ساتھ ساتھ اب ’’داعش‘‘کے جھنڈے لہرانے کا بھی سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔بھارت کی سینکڑوں ٹی ،وی چینلز پر بیٹھے اینکرز اور تجزیہ نگار ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت کے جھنڈے کے برعکس پاکستانی اور داعشی پرچم لہرانے کی کا فلسفہ کیا ہے ؟جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ پاکستانی پرچم ’’اظہارِ تنفر کے ساتھ ساتھ ایک نظریے ‘‘کی بھی ترجمانی کرتا ہے ۔داعش کے ساتھ یہاں بہت سوں کو ہمدردی ضرور ہو سکتی ہے مگر اس کا براہ راست یہاں نہ کوئی یونٹ ہے نہ ہی کوئی ترجمان ادارہ ؟تو پھر ’’داعشی پرچم ‘‘لہرانے کا معاملہ کیا ہے ؟حقیقت تلاش کرتے کرتے یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ کشمیری نوجوان ہر وہ طریقہ اختیار کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں جس سے بھارتی حکومت ،پولیس اور انتظامیہ ’’چڑتی‘‘ہے ۔آج کل تو حکومت ،پولیس اور انتظامیہ سے زیادہ مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکرز اور تجزیہ نگار کشمیری نوجوانوں کے ان طریقوں سے بہت ’’جھلن ‘‘محسوس کرتے ہیں ۔گذشتہ ایک برس سے ’’احمقوں کا یہ ٹولہ‘‘رات کی پوری نشریات میں ’’بھنگڑے ڈالتے ہوئے آپ اپنا تماشا بناتے ہیں اور انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ کشمیری عوام پر ان کے شور شرابے سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ ان کے چیخنے ،چلانے اورواویلا کرنے سے انھیں خوشی محسوس ہوتی ہے ۔سب سے حیرت انگیز یہ کہ ’’ان پروگراموں کے تخلیق کار‘‘اچھی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے مگر بھارت بھر کے ’’نام نہاد تھنک ٹینکس‘‘کو یہ نفسیاتی نقطہ کون سمجھائے جن کی موٹی عقل مسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں سے بیزار ہیں مگر اس نہرو خاندان سے نہیں جس کی بد نیتی نے ایک ملت کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے ۔

اس ’’چڑانے کی مہم ‘‘کے واقعات کو اگر آپ اسی کی دہائی میں تلاش کریں تو ایک حیرت انگیز واقع آپ کی آنکھیں کھولدے گا جب کشمیر کے بخشی اسٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز اور بھارت کی بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ شروع ہوا تو اسٹیڈیم کے اندر کشمیریوں کی ساری محبتیں اور ہمدردیاں بھارتی ٹیم کے برعکس ویسٹ انڈیز کے ساتھ وابستہ ہوگئیں ۔خود مہمان ٹیم بھی یہ دیکھ کر ششدر رہ گئی کہ کشمیری بھارتی ٹیم کے برعکس ان سے ’’محبت کا اظہار‘‘ کر رہے ہیں !کشمیری کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں جس میں ’’بھارت بیزاری‘‘کا کوئی پیغام نہیں جاتا ہو، کل کی بات ہے جب 13ستمبر2015ء کو میراتھن ریس میں بھی کشمیری طالب علموں نے پاکستان کے پرچم لہرائے ۔اس کا ایک اور پہلؤ بھی بڑا توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ماضی میں ان باتوں پر ’’مرکزی اور مقامی حکومتیں ‘‘کو ئی سخت نوٹس نہیں لیتی تھیں اس لئے کہ پہلے میڈیا اتنا وسیع نہیں تھا اور دوم حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں جان بوجھ کران باتوں کو نظرانداز کرتی تھیں ،مگر جب سے سنگھ پریوار کا متکبر ٹولہ ’’اکھنڈ بھارت ‘‘کا خواب آنکھوں میں سجائے بر سرِ اقتدار آچکاہے تب سے اس نے ہر چھوٹی بڑی خبر کو اہمیت دیتے ہوئے میڈیا کو بھی بے لگام چھوڑا ہے،ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ یہاں ان واقعات سے بھی بڑے واقعات پیش آئے ہیں ۔یہاں بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو نوجوانوں کی ایک جماعت ڈل جھیل کے کنارے واقع’’ ہوٹل اوبرائے‘‘میں کشتیوں سے تیرتے ہوئے اپنی ناراضگی جتانے ٹھیک اس کمرے کے عقب میں پہنچے جہاں وزیر اعظم قیام کئے ہو ئے تھے اور اس کا بہت ہی گہرا اثر راجیو گاندھی پر بھی دیکھنے کو ملا جب انھوں نے نیشنل میڈیا کو بتا دیا کہ ’’کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ‘‘ہے۔

اب چند روز سے ’’بے چاری گائے ‘‘تختہ مشق بن رہی ہے ۔بڑے گوشت کو کھانے کا جہاں چلن کم تھا اب وہاں بھی اس کا چلن عام ہونے لگا ۔گائے ایک جانور ہے اور اسے جانور ہی جنم لیتے ہیں ۔اس کا انسان سے تعلق صرف دودھ اور گوشت کا ہے ۔لوگ اس کا دودھ پیتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں ۔بھارت میں ہندؤں کا ایک اقلیتی طبقہ اس کا ’’پووتر جانور‘‘مانتے ہو ئے ذبیحہ سے انکار کرتا ہے ۔اسلام کسی بھی جانور کو پووتر کے برعکس ’’حلال اور حرام ‘‘کے خانوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اسلام درندوں کے علاوہ خنزیر، کتے ،بلی اور اسی قبیل کے چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کو حرام جبکہ بھیڑ ،دم،بکری ،گائے،اونٹ اور بھینس اور ان کے نر جانوروں کو حلال قرار دیتا ہے ۔بھارت سیکولر ملک ہے جہاں قانون کے مطابق ہر مذہب کی مذہبی روایات کا احترام تو کیا جاتا مگر کسی بھی مذہب کے ’’جائز اور ناجائز ‘‘کو دوسروں پر تھونپا نہیں جاتا ہے ۔یہ شرمناک کام پہلی مرتبہ سنگھ پریوار نے شروع کیا ہے ۔کشمیر کے بے حس حکمران تماشائیوں کا رول نبھا رہے ہیں ۔جموں میں رِ ٹ داخل ہو ئے کئی مہینے گذرے اور حکومتی اہلکاروں کو اس کے ’’نشیب و فراز‘‘سے بھر پور واقفیت تھی مگر اس کے باوجود ’’سنگھ پریوار کی خوشنودی کے خاطر‘‘خاموشی اختیار کی گئی جو اپنی ذات میں ایک شرمناک فعل ہے ۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر جیسے مسلم اکثریتی ریاست میں سنگھ پریوار باربار یہاں کے مسلم کردار کو چلینج کرنے کی درپے نظر آتا ہے مگر حکومت خوابِ غفلت میں مبتلا رہ کر کشمیر کو 2008ء اور2010ء کی جانب لے جانے کی غیر شعوری کوششوں میں مصروف ہے اور پھر معاملہ جب ہاتھ سے نکل کر ناقابل مندمل ناسور کی شکل اختیار کرتا ہے پھر الزام آزادی پسندوں کے سر تھونپ دیا جاتا ہے ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84184 views writer
journalist
political analyst
.. View More