چور نظام کے چوکیدار

کراچی آپریشن اور خصوصاََبڑے مگر مچھوں کے جال میں پھنسنے کے بعد عوام میں یہ تا ثر عا م ہو چکا کہ وطن عزیز سے کر پشن کا خاتمہ جلد ممکن ہو جائے گا ‘عوام یہ خیال بھی کر رہے ہیں کہ سند ھ کے بعد پنجاب کی باری بھی آئے گی اور یہاں کے وڈیروں سے بھی جواب طلبی کی جائے گی ‘دوسری طرف وہ جماعتیں جن سے تعلق رکھنے والے افراد کو کرپشن اور دہشتگردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا وہ سراپا احتجاج ہیں اور انھیں جمہو ریت خطرے میں نظر آرہی ہے آج میں اس نظام پر تھوڑا سا کیچڑ اچھا لنے کی کو شش کرو ں گا جس نے شریفوں‘زرداریوں‘لغاریوں اور مزاریوں سمیت لاکھوں لوگوں کوامیر سے امیر تر اورعام آدمی کو غریب سے غریب تر بنا دیا ‘لیکن اس سے پہلے میں اس جمہوریت کی بات کر نا چاہوں گا جو اتنی حساس ہے کہ کسی بڑے چور کے پکڑے جا نے سے خطرے میں پڑ جاتی ہے لیکن عام آدمی پر جھوٹی ایف آئی آر درج کر کے برسوں کال کوٹھری میں بند رکھا جائے تو اس پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ ارباب اختیار اسے قانو ن کی پاسداری کا لقب دیتے ہیں۔یہاں سیلاب بھی آتے ہیں اور گر می کی وجہ سے سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہوتیں لیکن جب کوئی اپنے حق کیلئے کھڑا ہوتا ہے اور احتجاج کر تا ہے تب تمام سیاستدان متحد ہو جاتے ہیں‘جب انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے یہ اسے جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں آپ تصور کیجئے نائن زیروہ پر چھاپے‘ایم کیو ایم کے مبینہ دہشتگردوں کی گرفتاری ‘اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے بھلا جمہوریت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے لیکن اسکے باوجود اس سب کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے اور’’ جمہوریت‘‘ کے محافظ بابائے مفاہمت جناب فضل رحمان صاحب اس جمہوریت کو بچانے کیلئے عملی میدان میں کود پڑے کل تک فضل رحمان تحریک انصاف کے استعفوں کی عدم قبولیت کو جمہوریت کیلئے خطرہ گردانتے تھے آج وہی فضل رحمان متحد ہ کے استعفوں کی قبولیت کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جوجمہوریت اور آمریت دو نوں پودوں کی آبیاری کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں بشرطیکہ انہیں پھل کی توقع ہو ‘ہمارے معا شرے میں ایسے سیاستدان بھی بستے ہیں جو جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتے ہوئے ایوان صدر میں داخل ہوئے اور پانچ سال تک قدم جمائے رکھے لیکن یہ جمہوریت انھیں اپنی قائد کے قا تلوں تک نہ پہنچا سکی یا شاہد یہ پہنچنا ہی نہیں چاہتے تھے آج ملک کے دو بڑے سیاستدان ‘میاں نواز شریف اور آصف زرداری ہمیں جمہوریت کیلئے قربانیاں یاد دلاتے ہیں لیکن یہ حقیقت وا ضح ہے کہ انکی قر با نیاں جمہوریت نہیں بلکہ اقتدار کیلئے تھیں انہوں نے تمام تر قر بانیاں ذاتی مقاصد کیلئے دیں انہوں نے اس ملک کی عوام کو ذا تی مقاصد کیلئے استعمال کیا یہ ووٹ عوام سے لیتے ہیں لیکن فیصلے کرتے وقت عوام کو بھول جاتے ہیں آپ حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا دیکھئے یہ پاکستان کے شہریوں کے قا تل بھارت میں اپنے کاروبار کی وسعت کیلئے نر یندر مودی کو آم بھیجتے ہیں اور بدلے میں سرحد پار سے گو لیاں برسائی جاتی ہیں پاکستانی عوام یہ سب کچھ جانتے ہیں لیکن اس کے باوجودہم سب پر انکی حکمرانی قائم ہے تو اسکی صرف ایک وجہ ہے جیسے عوام ویسے حکمران ۔

ٓؓاب آپ اس نظام کا بغور جائزہ لیجئے اور سو چئے کہ جس معاشرے میں اس طرح کا نظام ہو اس معاشرے کو جمہوری معاشرہ کہا جاسکتا ہے ؟یہ وہ نظام ہے جس میں سیاستدان عام آدمی کی سر عام تذلیل کر تے ہیں یہ جہاں سے گزرتے ہیں گیدڑ کی طرح چیختے چلاتے گزرتے ہیں یہ عام آدمی کا راستہ روک کر پرو ٹوکول انجوائے کر تے ہیں ‘یہاں عام آدمی کو روٹی کیلئے در بدر ٹھو کریں کھاتا ہے اور ایوان اقتدار میں بیٹھے مگر مچھ اسی عام آدمی کے لاکھوں روپے روزانہ کی بنیاد پر خرچ کر دیتے ہیں ‘یہ وہ نظام ہے جس میں گریجویشن اور ماسٹر ڈگری ہولڈر سڑکوں پر ریڑھی لگا تے ہیں اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے اسمبلیوں میں بیٹھ کر بے بس عوام کے مستقبل کا فیصلہ کر تے ہیں‘یہاں عوام پر ٹیکسوں کی صورت میں ہا تھی جتنا بوجھ ڈال دیا جا تا ہے لیکن حکمران ٹیکس ادا نہیں کرتے ‘اب آپ اسی نظام کا دوسرا پہلوملاحظہ کریں یہاں پٹواری اور پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ‘ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے اور اسکے بعد سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا یہ معا ملہ صرف نچلی سطح تک محدود ہو تا ہے ہمیشہ کارکنوں کو رگڑا لگا یا جاتا ‘یہاں قانون نافذ کر نے والے ادارے ہی قانون توڑتے ہیں لیکن کوئی نہیں پوچھتا ‘ عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا ‘ظلم کی انتہا ء تو یہ ہے کہ جس کے گھر چوری ہو جائے یا جسکی زمین پر قبضہ کرلیاجائے اسے ایف آئی آر کیلئے بھی رشوت دیناپڑتی ہیں لیکن پھر بھی اسے انصاف میسر نہیں ہوتا ‘نجی عدالتوں کی حالت اتنی بد تر ہے کہ حصول انصاف کیلئے عام آدمی کے جوتے گِھس جاتے ہیں۔اب آپ اس کھو کھلے نظام کا اندازہ سیاستدانوں کی منا فقت سے لگائیں یہ الیکشن سے قبل عوام سے طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان نعروں کو جوش خطابت قرار دیتے ہیں ‘ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اگر ہم موجودہ حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن کی قیادت کے آج کے بیانات اور 11مئی 2013ء سے پہلے کے بیانات پر نظر دوڑائیں تو ہمارے تمام سیاستدانوں کی جمہوریت پسندی کا پول کھل جائے گا ‘حکمراں جماعت نے بجلی لوڈ شیڈنگ ‘بہترین صحت سہولیات کی فراہمی سمیت درجنوں وعدے کئے لیکن کوئی وعدہ وفا نہ ہوسکا ‘ ان سیاستدانوں کی تمام تر توجہ چور نظام کی چوکیداری پر ملحوظ ہے کیونکہ یہ نظام انہیں سوٹ کر تا ہے یہ نظام محض نظام نہیں بلکہ سیاستدانوں کیلئے یہ آکسیجن کی مانندہے میں وثوق سے کہتا ہوں جس دن اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیااس دن مفاد پرست سیاستدانوں کا اس ملک میں دم گھٹنا شروع ہو جائیگا ان کیلئے اس معا شرے میں سانس لینا دشوار ہو جائیگامگر سوال یہ ہے کہ کون اپنے مفادات کا قتل کر کے اس نظام اور اس کے چوکیداروں کو للکارنے کی جسارت کرے گاــ․․․!
Zulqarnain Bashir
About the Author: Zulqarnain Bashir Read More Articles by Zulqarnain Bashir: 16 Articles with 10558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.