سارا قصور اِس نظام کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ جعل ساز، دھوکے باز فراڈیے قومی مجرم ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال:آپ نے اسلامیات میں ایم اے کیا ہے،عدالت کو بتائیں کہ قرآن پاک میں کتنی آیات ہیں؟ جواب:معلوم نہیں، سوال:قرآن کی کل کتنی سورتیں ہیں؟ جواب:خاموشی، سوال:آپ نے مدرسے سے کتنے سال کا کورس کیا ہے؟ جواب:دو دو سال کے چار کورس کئے ہیں، سوال:یہ کل کتنے سال ہوئے؟ جواب:معلوم نہیں، سوال: قرآن کے پندرہ پاروں کے نام بتائیں؟جواب:معلوم نہیں، سوال:اچھا پندرہ پارے چھوڑیں پانچ پاروں کا نام … یا چلیں صرف پانچ سورتوں کا نام ہی بتا دیں؟جواب:معلوم نہیں، سوال:قرآن کی پہلی سورت کونسی ہے؟جواب: الحمد، سوال:دوسری سورت کونسی ہے؟ جواب:آل عمران ہے، سوال:آپ نے اسلامیات میں ایم اے کیا ہے، آپ نے قران پاک کی کونسی تفسیر پڑھی ہے؟ جواب:حضرت یوسف علیہ السلام کی تفسیر، سوال: آپ کے نصاب میں کون کون سے مضامین شامل تھے؟ جواب:معلوم نہیں، سوال:چار دونی کتنے ہوتے ہیں؟ جواب:معلوم نہیں۔

نعوذباللہ من ذالک،یہ مکالمے کسی مزاحیہ ڈرامے کے نہیں اور نہ ہی یہ منظر کسی سنسنی خیز فلم کا ہے، بلکہ یہ منظر 25 مارچ 2010ء کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ میں اُس وقت پیش آیا، جب مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی(جو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کے چیرمین بھی تھے)سے عدالت عظمیٰ کے معزز ججز نے اُن کی اہلیت کے حوالے سے سوالات کئے اور جس کے بعد چیف جسٹس صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ”اپنے دین کے بارے میں آپ کی معلومات کا یہ حال ہے اور آپ کہتے ہیں کہ آٹھ سال کا دینی کورس کر رکھا ہے....آپ کو تو سیدھے جیل بھیجا جانا چاہیے“اِس صورتحال کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ کا بنچ اِس نتیجے پہنچا کہ جمشید دستی نے الیکشن کمیشن میں جعلی ڈگری پیش کی تھی، اِس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہیں۔

قارئین محترم یہ وہی جمشید دستی ہیں جنہوں نے سری لنکا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد ٹیم پر یہ الزام لگایا تھا کہ ٹیم نے سٹہ کھیلا ہے، اِسی الزام کی بنا پر ٹیم کے کپتان یونس خان اور کوچ انتخاب عالم کو سینیٹ کے سامنے پیش ہو کر صفائی دینا پڑی تھی اور توہین آمیز روئیے سے دل برداشتہ ہو کر یونس خان نے کپتانی سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا، یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں جمشید دستی نے کھیلوں کی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے بہت نام کمایا، اُن کی کرکٹ بورڈ کے چئیرمین اعجاز بٹ سے رسہ کشی اکثر اخبارات کی زینت بھی بنتی رہی ہے، یہاں تک کہ ایک موقع پر تنگ آکر عجاز بٹ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ جمشید دستی پاکستانی کرکٹ کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، دوسری طرف جمشید دستی اعجاز بٹ کے خلاف یہ بیان دیتے ہوئے پائے گئے کہ اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو اعجاز بٹ جیل میں ہوتے، تاہم وہ اعجاز بٹ کو تو جیل نہ بھیج سکے، مگر گزشتہ دنوں وہ خود جیل جاتے جاتے بچے، درحقیقت اُن کی قسمت اچھی تھی کہ عدالت نے اُن کے صرف استعفے ہی پر اکتفا کیا، وگرنہ اُن کے خلاف دھوکہ دہی اور جعل سازی کا مقدمہ بھی قائم کیا جا سکتا تھا۔

کہتے ہیں کہ حقیقی زندگی افسانے سے زیادہ ہنگامہ آمیز اور سنسنی خیز ہوتی ہے، کب کیا ہوجائے کسی کو پتہ نہیں ہوتا، ہم میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ جمشید دستی جیسا منہ زور، زبان دراز اور بدتمیز رکن اسمبلی اِس طرح عدالت عظمیٰ کے سامنے اخلاقی اور ذہنی پستی کا مظاہرہ کرے گا، گھگھیائے گا اور اپنی تمام تیزی، طراری اور لن ترانی بھول جائے گا، امر واقعہ یہ ہے کہ فاضل عدالت کے روبرو جو ریکارڈ پیش کیا گیا، اُس کے مطابق جمشید دستی نے شہادة العالمیہ کی جعلی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، جبکہ نذیر جٹ ایم این اے نے سرگودھا سے میٹرک کے امتحان میں فیل ہونے اور تنظیم المدارس آزاد کشمیر سے بی اے کی جعلی ڈگری حاصل کی تھی، پی پی 63 ق لیگ کے محمد اجمل آصف کا بھی یہی معاملہ ہے، اِن تین افراد کے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ڈپٹی کنٹرولر امتحانات نے عدالت میں بتایا کہ پی پی پی259 مظفر گڑھ کے ایم پی اے اللہ وسایا عرف چنوں خاں نے میٹرک اور ایف اے کے امتحانات دیئے بغیر ہی بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

جبکہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطا الرحمان کے خلاف جعلی اسناد پیش کرنے کا کیس بھی زیر سماعت آنے والا ہے، یہ اُن ارکان اسمبلی کی اہلیت کا حال ہے جن کی ذمہ داری قانون سازی ہے، طرفہ تماشا دیکھئے کہ مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے نذیر جٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمال ڈھٹائی سے کہا کہ انہوں نے استعفیٰ جعلی ڈگری پر گرفت کے خوف سے نہیں، بلکہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دیا ہے، اِس پر مستزاد یہ کہ حکومت اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صرف ناخواندہ ہی نہیں بلکہ سنگین جعل سازی اور بے ضابطگیوں ملوث اِن افراد پر مشتمل ایک ایسا پارلیمانی کمیشن بنانے جارہی ہے جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرریاں کیا کرے گا۔

جمشید دستی کی عدالت عظمیٰ میں یہ ڈرامائی پرفارمنس کوئی نئی بات نہیں ہے، وطنِ عزیز میں اِس قسم کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے رہے ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ نوے کی دہائی میں اُس وقت سامنے آیا جب ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے صوبہ سرحد کے رکن اسمبلی یوسف خان ترند (جو 1990ءسے 1993ءتک وزیر تعلیم رہے) نے اپنے خلاف عدالت میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں یہ اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا، میں تو اَن پڑھ ہوں، مجھے کیا معلوم کہ میرے افسر مجھ سے کن کاغذوں پر دستخط کروا کر لے جاتے ہیں، ہماری سماعتوں میں ابھی تک محترمہ کے وہ الفاظ”اذان بج رہی ہے “ گونج رہے ہیں، جو انہوں نے اسمبلی فلور پر اذان کی آواز سن کر کہے تھے، اِسی طرح پرویز مشرف کے دور میں دو برس تک وفاقی وزیر مواصلا ت اور چار برس تک وفاقی وزیر تعلیم کے منصب پر فائز رہنے والے ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی قرآن پاک کے چالیس پارے بتایا کرتے تھے، اسی طر ح موجودہ وزیر قانون کی Ph.dکی ڈگری بھی میڈیا میں موضوع گفتگو رہتی ہے جو کہ ایک ایسی یونیورسٹی سے جاری کی گئی، جس کو اِس بات کا اختیار ہی نہیں تھا، حال ہی میں مسلم ن کی رکن صوبائی اسمبلی کو چوری کے کریڈیٹ کارڈ پر خریداری کرنے کی وجہ سے اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑا، اِسی طرح مسلم لیگ ن کے ایک رکن قومی اسمبلی کو اپنی جگہ ایک رشتہ دار کے امتحان دینے کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اِس تناظر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ایک اَن پڑھ اور انگوٹھا چھاپ شخص، وزارت کے مزے لوٹ سکتا ہے، الفاظ کی ادائیگی میں بے احتیاطی کا مظاہرہ کرنے والی محترمہ دو مرتبہ وزرات عظمیٰ پر فائز ہوسکتی ہیں، قرآن پاک کے چالیس پارے گنوانے والا وفاقی وزارتوں کے مزے لوٹ سکتا ہے اورPh.dکی متنازعہ ڈگری رکھنے والا وزیر قانون رہ سکتا ہے، تو جمشید دستی کا کیا قصور، کسی نے پڑھی ہو یا نہ پڑھی مگر یہ تو جمشید دستی کا کمال ہے کہ اُس نے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی تفسیر پڑھ رکھی ہے، ہمارا ماننا ہے کہ اِس سارے قضیئے میں قصور اُس نظام کا ہے جس کے ذریعے اِس قسم کے نااہل، دھوکے باز اور فراڈیے قسم کے لوگ منتخب ہو کر ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور یہ نظام اِن جھوٹے، دغا بازوں اور فراڈیوں کو تحفظ اور پناہ کی بیساکھیاں فراہم کرتا ہے، قصور ہے تو اُن جماعتوں کا ہے۔

جنہوں نے جانتے بوجھتے جمشید دستی، نذیر جٹ، محمداجمل آصف اور اللہ وسایا عرف چنوں خاں جیسے لوگوں کو جن کا مدارس یا درس نظامی کے کورس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں اور جنھوں نے مدارس کی جعلی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، اپنی پارٹی کے ٹکٹ جاری کئے، قصور ہے تو اُس قومی اسمبلی کا ہے کہ جس نے دو برس تک جعلی ڈگریوں والے جھوٹے فراڈیوں کو اپنی آغوش میں جگہ دی اور وہ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر اُس مقدس ایوان کے رکن رہے کہ جسے پاکستان میں سپریم ہونے کا دعویٰ ہے، کیا یہ ظلم نہیں کہ دو سال تک یہ لوگ نہ صرف ملک میں ہونے والی قانون سازی میں شریک رہے بلکہ قومی خزانے سے ہر ماہ لاکھوں روپے بھی وصول کرتے رہے، ایم این اے کے اسٹیٹس سے خوب مزے اور فائدے اٹھاتے رہے اور انجوائے کرتے رہے؟ کیا دو سال تک جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر پوری قوم کی توہین اور مذاق اڑانے والے یہ لوگ سخت ترین سزاؤں کے مستحق نہیں تھے؟

یقیناً تھے مگر بالعموم عدالتوں کی یہ روایت ہے کہ اُس کے سامنے جس قانونی یا آئینی مسئلے پر کوئی کیس پیش کیا جاتا ہے، وہ اُسی مسئلے پر فیصلہ دے دیتی ہیں، جن تین ارکان نے استعفے دیئے ہیں اُن کی اسمبلیوں کی رکنیت کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا تھا، فاضل عدالت نے اُس کا فیصلہ سنا کر انہیں نااہل قرار دے دیا، مگر اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اِن لوگوں کا جرم نہایت سنگین ہے جس کی ابھی انہیں قرار واقعی سزا ملنا باقی ہے، یہ مجرم ہیں جعل سازی کے، عوام کو دھوکا د ینے کے، غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر اسمبلیوں کے حلف اٹھانے کے، ارکان کے طور پر بھاری تنخواہیں وصول کرنے اور دھوکہ دہی کے ذریعے قوم کے فنڈز اور وسائل استعمال کرنے کے۔

یہ سارے وہ سنگین الزامات ہیں، جس کے مرتکب لوگ قومی مجرم قرار پاتے ہیں، اِس لحاظ سے اُن کے استعفے کوئی سزا نہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ اِن لوگوں سے اسمبلیوں کی رکنیت کے دوران حاصل کی جانے والی بھاری تنخواہوں اور مراعات کی پائی پائی وصول کی جائے، اِن کے خلاف جعل سازی اور مختلف اداروں، عوام اور عدلیہ کو دھوکہ دینے کے سنگین جرم میں مقدمات چلائے جائیں اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے، مگر افسوس اور صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ہمارا موجودہ نظام اِس بات کی اجازت نہیں دیتا، اگر ایسا ہوتا تو یہ افراد کمال ڈھٹائی اور بے شرمی سے عدالت سے اپنی بدکرداری کا نتیجہ سن کر باہر آتے ہی نئی جماعت میں شمولیت اور نئے سرے سے اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلانات نہ کر رہے ہوتے، دراصل یہ ہمارے کرپٹ نظام کی عطا کردہ وہ جراتیں ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ کرپشن کرنے والا سب سے زیادہ معزز اور بااختیار قرار پاتا ہے، یہی وہ معیار ہے جس نے ایسے لوگوں کو جواب دہی، احتساب اور محاسبے کے خوف سے آزاد کیا ہوا ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان کی سیاست کا یہ اخلاقی بحران اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اِس کا ایک مظہر یہ چند ارکان اسمبلی ہی نہیں، نہ جانے مزید ایسے اور کتنے ارکان ہوں گے جن کی تعلیمی اسناد جعلی ہونگی، ہماری دانست میں جعلی اسناد پر رکن اسمبلی بننے کا مطلب فریب اور دھوکے کی بنیاد پر اپنی سیاسی زندگی کی تعمیر کے ساتھ، قوم کے ساتھ دھوکا دہی اور کھلا فریب ہے، گو کہ عدالت عظمیٰ نے ایسے افراد کو استعفیٰ دینے کا اختیار دے کر رعایت دی ہے، لیکن اصل سوال قومی وجود کی بقاء کا ہے جس کی بنیاد دیانت، سچائی اور ایمانداری کے اصولوں پر قائم ہے، لہٰذا اِس لحاظ سے ہونا تو یہ چاہیے کہ قوم کے قائدین کو جو مقننہ کے ارکان بننے جارہے ہیں اخلاقی طور پر صاحب کردار ہوتے۔

لیکن افسوس کہ ایسا نہیں، اور ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ جس ملک میں لوٹ مار، رشوت اور مالی بدعنوانی جیسے سنگین جرائم کو ریاستی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہو، جہاں طاقتور اور بااثر طبقہ جواب دہی اور احتساب کے خوف سے آزاد ہو، وہاں قوم کو اخلاقی پستی اور ذلت میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، جناب من، دیکھا جائے تو اب یہ مسئلہ محض انفرادی نہیں رہا، اِس صورتحال نے ہمارے پورے نظام، قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے طریقہ انتخاب کی اِس حقیقت کو آشکارا کر دیا ہے کہ اُن کے پاس ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے امیدواروں کی اہلیت، دیانت اور اخلاقی معیار کا امتحان لیا جاسکے اور ایک صالح، بے لوث، صاحب کردار اور ایماندار سچی قیادت سامنے لائی جاسکے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357897 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More