30برسوں میں ایم کیو ایم کی پہلی پرامن ہڑتال

12ستمبر بروز ہفتہ ایک کیو ایم کی ہڑتال کتنی ناکام اور کتنی کامیاب ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایک طرف فاروق ستار صاحب نے اہل کراچی کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کی اپیل پر اپنے کاروبار کو بند رکھا دوسری طرف رینجرز حکام نے بھی کراچی کے شہریوں کو مبارک باد دی ہے کہ انھوں نے ہڑتال کی اپیل کو ناکام بنایا اور اپنے کاروبار کو کھلا رکھا انھوں نے اس عزم کابھی اظہار کیا کہ شہر کراچی میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے آخری دہشت گرد تک کا تعاقب جاری رکھیں گے ۔

اہل کراچی خود اس کے بہترین جج ہیں کہ وہ سابقہ ادوار میں اپنی آنکھوں سے ایم کیو ایم کی ہونے والی ہڑتالیں دیکھ چکے ہیں کہ جس دن یہ اعلان ہوتا کہ کل ہڑتال ہے تو اسی دن اعلان سے پہلے اور بعد میں شہر میں بیس پچیس بسیں اور گاڑیاں جلادی جاتی تھیں اور شہر کے مختلف حصوں میں کچھ ہلاکتیں بھی ہو جاتیں اور پھر جس دن ہڑتال ہوتی اس دن دس سے بیس کے درمیان معصوم جانیں نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں ضائع ہوچکی ہوتیں ۔یہ ہڑتال کا وہ کلچر تھا جو ایم کیو ایم نے متعارف کروایا تھا ۔کراچی کی وہ بستیاں جو ایم کیو ایم کے زیر اثر تھیں وہاں کی صورتحال تو اور زیادہ تشویشناک تھی کہ آج کسی کارکن کے قتل کی اطلاع ملی تو جس علاقے کا وہ کارکن ہوتا وہ علاقہ اس دن بند کرادیا جاتا پھر دوسرے دن پورے شہر میں ہڑتال کی جاتی اور تیسرے دن جب اس کارکن کا سوئم ہوتا تو تو پھر پہلے دن کی طرح وہ علاقہ پھر بند کرادیا جاتا ۔اس طرح کے لوگوں کو تین دن کی سزا دی جاتی ۔

ایم کیو ایم کے وجود میں آنے پہلے بھی سیاسی جماعتیں ہڑتال کراتی رہیں ہیں اس لیے کے جب ریاست بات نہ مان رہی ہو تو اپنی بات پوری عوامی قوت کے ساتھ حکومت تک پہنچانے کے لیے ہڑتال سیاسی جماعتوں کا سیاسی حق ہوتا ہے لیکن یہ تمام ہڑتالیں پرامن ہوتی تھیں ۔اس میں گلی محلوں کی دکانیں کھلی رہتی تھیں کے عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔صرف شہر کی بڑی بڑی مارکٹیں اور ٹرانسپوٹ کی بندش پر توجہ مرکوز کی جاتی تھی اور اس ہڑتال کو پر امن رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔لیکن پچھلے تیس برسوں میں اہل کراچی جس طرح کی ہڑتال دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ کسی غریب سبزی والے نے اس دن اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محلے میں ٹھیلا لگایا تو سبزی سمیت اس کا ٹھیلا الٹ دیا گیا اس پر تشدد کیا اور جاتے وقت یہ دھمکی بھی دے جاتے کہ اگر آئندہ کسی ہڑتال میں ٹھیلا لگایا تو دنیا میں نظر نہیں آئے گا دودھ والوں کے دودھ سڑک پر الٹ دیے جاتے تھے ۔ایسے بھی واقعات ہوئے کہ کسی بس والے نے شام کے وقت مغرب سے تھوڑا پہلے بس روڈ پر نکال لی اس کی دیکھا دیکھی اور بھی گاڑیاں روڈ پر آگئیں اس بس ڈرائیور کو نظر میں رکھ لیا گیا ،کچھ عرصے کے بعد کچھ لڑکے گئے اور اس سے کہا کہ ہمیں شادی کے لیے گاڑی چاہیے کچھ ایڈوانس دے کر دن اور مقام طے کرلیا گیا مقررہ دن اور وقت پر وہ اس مقام پر گاڑی لے کر گیا ،کچھ مسلح لڑکے اسے پکڑ کر ایک کنارے لے گئے اور دیوار کے ساتھ کھڑا کرکہا کہ ہماری ہڑتال میں تم گاڑی روڈ پر نکالتے ہو اب تم آئندہ ایسا نہیں کرسکو گے اور یہ کہہ کر اس کے سر اور گردن پر گولیاں مار کر اسے ہلاک کر دیا ۔اسی طرح کا ایک واقعہ یو سی
8لیاقت آباد ٹاؤن کے ایک کونسلر کے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا تھا ۔

12ستمبر کی ہڑتال ایم کیویم کے نکتہ نظر سے اس لیے بھی کامیاب ہے کہ اس کے ہڑتال کرانے والے لوگ زیادہ تر گرفتار ہیں یا روپوش ہیں فون اور سینہ گزٹ اور خواتین کے ذریعے یہ بات کہلوائی گئی کہ یہ رینجرز وغیرہ تو تھوڑے دن کی کہانی ہے یہ جب چلے جائیں گے تو ہم ہی ہم ہوں گے تو پھر تیرا کیا بنے گا کالیا ۔اس بچے کھچے خوف کے نتیجے میں ضلع وسطی کے کچھ علاقوں میں مین بازار بند رہے ۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس دفعہ اندر کے بازار کھلے تھے کے اب ایم کیو ایم اس چیز کو افورڈ نہیں کرسکتی کہ وہ آبادی کے لوگوں سے بلا وجہ کا پنگا لینے کی کوشش کرے کہ عید الضحیٰ بھی قریب ہے لوگوں سے خاموشی اور پیار محبت سے اور معصوم بن کرکھالیں بھی وصول کرنا ہے۔عوام کے نزدیک اور بالخصوص ایم کیو ایم کے مخالفین کے نزدیک یہ ہڑتال اس لیے ناکام سمجھی جائے گی کہ ایک تو یہ اس طرح پورے شہر میں نہیں ہوئی جیسے پہلے ہوتی تھی دوسرے یہ کہ ٹرانسپورٹ مکمل طور پر سڑک نظر آرہی تھی تیسرے یہ کہ تما م پٹرول پمپس کھلے تھے ،تعلیمی ادارے اور دفاتر میں حاضری معمول کے مطابق تھی ،عوامی حمایت تو پہلے بھی کسی ہڑتال میں ان کو نہیں ملتی تھی لیکن اس دفعہ تو لوگ اس بات پر خوش تھے کہ پہلی بار ایم کیو ایم کی ہڑتال ناکام ہوئی ہے ۔عوام نے جو ہڑتالیں بھگتی ہیں اور جس طرح کا پر تشدد ماحول دیکھا ہے اس کے مقابلے میں یہ ہڑتال پر امن تھی لیکن ایم کیو ایم کیہڑتالی کلچر حوالے سے یہ مکمل ناکام ہڑتال سمجھی جائے گی ۔

اس ہڑتال کی ناکامی پر جہاں لوگ کچھ خوش ہیں تو بہت کچھ اندیشوں کا شکار بھی ہیں ،اس تنظیم کے بارے میں عام لوگوں کی رائے یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کینہ رکھتا ہے بالکل یہی کیفیت اس تنظیم کی بھی ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی چاہے کوئی نائن زیرو سے معافی نامہ بھی لے کر آجائے ۔پھر جو کچھ بھی کارروائی ہو رہی ہے وہ رینجرز کی طرف سے ہو رہی پولیس جو مستقل ریاستی ادارہ وہ اس سارے معاملے سے الگ تھلگ ہے ۔رینجرز کے بارے میں عام لوگ ان خدشات کا شکار ہیں پتا نہیں کب سیاسی حالات پلٹا کھاجائیں پی پی پی اسمبلی سے کوئی قانون منظور کرائے اور رینجرز سے سارے اختیارات واپس لے لیے جائیں اور اگر سیاسی صورتحال ایم کیو ایم کے حق میں جاتی ہے تو پھر بپھرے ہوئے جذبات کس کس کو اپنی لپیٹ میں لیں گے کچھ پتا نہیں۔لوگ یہ خبریں تو روز پڑھ رہے ہیں کہ فلاں کے قتل کا ٹارگٹ کلر گرفتار ہو گیا فلاں نے بیس قتل کا اعتراف کرلیا لیکن ان گرفتاریوں کے بعد کی مزید Furtherکارروائی کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ آگے کیا کارروائی ہونے جارہی ہے ہمارے یہاں کا عدالتی نظام اتنا کمزور ہے کہ سو قتل کے جرم کا اعتراف کرنے والوں کو بھی ضمانت مل جاتی ہے اب یہ عدالتی سسٹم کمزور ہے یا خوف زدہ ،اﷲ بہتر جانتا ہے اسی لیے تو ایم کیو ایم کہتی ہے جن لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے انھیں عدالت میں پیش کیا جائے اب تک عدالتی کارروائی سے صرف صولت مرزا کو پھانسی ہوئی ہے ۔ابھی پچھلے دنوں دو صحافیوں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا گیا اگر اس کے جواب میں یہ ہوتا کہ روزنامہ جنگ کے صحافی ولی خان بابرکے دو قاتلوں کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی ایک فرار ہے اور ایک رینجرز کی تحویل میں ہے ۔تو جو رینجرز کی تحویل میں ہے اسے جیل کے پھانسی گھاٹ پہنچایا جا سکتا تھا ۔یہ سب وہ حالات ہیں جنھیں عوام غور سے دیکھ رہے ہیں اس لیے اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے دل سے خوف ختم ہوگیا تو وہ شدید غلط فہمی میں ہیں دوسری طرف لوگ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ جب تک راحیل شریف ہیں اس وقت تک یہ سب کچھ ہو رہا ہے کراچی میں امن و امان قائم کرنے کا حل یہ ہے کہ اس شہر میں جو بڑے بڑے سانحات ہوئے ہیں ان کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں اور شہری اداروں کو اتنا مضبوط اور فعال بنایا جائے کہ ان پر کوئی سیاسی دباؤ نہ ہو اور یہ کہ اس شہر میں بلدیاتی انتخاب رینجرز کی نگرانی میں کرائیں جائیں دہشت گرد تنظیموں سے کوئی سیاسی جماعت کوئی سیاسی یا انتخابی اتحاد نہ کرے تو ان تمام اقدامات کے بعد عوام کے دلوں سے خوف کے ختم ہونے کا سفر شروع ہو گا۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.