سانحہ بلدیہ فیکٹری اور شہادت ڈاکٹر پرویز محمود

ستمبر 2012میں دو ایسے سانحات ہوئے ہیں جن کی گونج بہت طویل عرصے تک سنی جاتی رہے گی۔11ستمبر کو بلدیہ کی فیکٹری کا ایسا اندوہناک سانحہ ہوا جس کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں دی جاسکتی کہ ایک تنظیم نے بیس کروڑ بھتا نہ ملنے کی خاطر اس فیکٹری میں باہر سے تالا ڈال کرایک ایسے کیمیکل کے ذریعے آگ لگائی گئی جس نے آن واحد میں پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 260مزدوروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کو زخمی کی حیثیت سے اسپتال پہنچایا گیا ہو ۔

دوسرا سانحہ 17ستمبر کو پیش آیا جب قائد تحریک جناب الطاف حسین صاحب کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے تو اس دن شہر کراچی کی ابھرتی ہوئی آواز جاندار نوجوان قیادت اور سابق ناظم ٹاؤن جناب ڈاکٹر پرویز محمود کو شہید کر دیا گیا ۔ڈاکٹر پرویز محمود جو کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے مشن میں دن رات اپنی جان گھلا رہے تھے ،جب بلدیہ کی فیکٹری کا واقعہ ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت سے لوگوں کو بتانا شروع کردیا تھا کہ اس میں ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے بلکہ وہ تو اخباری بیان بھی دینے جارہے تھے لیکن ان کے قریبی ساتھیوں نے منع کیا کہ ایسا بیان نہ دیں ابھی تحقیقات سے کوئی بات سامنے آئے گی تو پتا چلے گا ۔ڈاکٹر پرویز صاحب نے کہا کہ جب تک ایم کیو ایم حکومت میں شریک ہے اس کیس کی اول تو تحقیقات ہی نہیں ہوگی اور اگر ہوگی بھی تو پورے کیس کو کسی اور رخ پر ڈال کرفائلوں میں دبا دیا جائے گا ۔پھر وہی ہوا جیسا کے ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں کہتے تھے بلدیہ کی فیکٹری میں آگ لگنے کی وجہ الیکٹرک شارٹ سرکٹ بتا کر فائل کو دبا دیا گیا ۔

ڈاکٹر صاحب تو ویسے ہی دہشت گرد وں کے نشانے پر تھے اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف ایم کیو ایم کے خلاف سخت بیانات دیتے تھے بلکہ اس تنظیم یا الطاف حسین کے خلاف اپنے ہاتھ سے سخت قسم کا پمفلٹ لکھ کر اسے پرنٹ کروا کے خود سگنل اور چوراہوں پر تقسیم کرتے تھے اس پمفلٹ کو لینے والے بھی خوف کا شکار ہو تے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب کے قریب سے بھی خوف کا شائبہ نہیں گزرا تھا وہ اہل کراچی کی توانا آواز تھے جب دہشت گردوں کے خلاف کوئی بول نہیں پاتا تھا ڈاکٹر صاحب گرجتے تھے اور اب تین سال بعد ان کے گرجنے کی گونج سب کو سنائی دے رہی ہے کہ جب ڈاکٹر پرویز نے اپنے دوستوں سے یہ کہا کہ بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی ان ہی لوگوں کا کام ہے تو ہم نے اسے ڈاکٹر صاحب کا نفسیاتی مسئلہ سمجھا کہ یہ تو ہر معاملے میں ایم کیو ایم کو گھسیٹتے ہیں ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھتا نہ ملنے پر غریب مزدوروں کو جلا کر رکھ کردیا جائے پھر جواب آتا کہ یہ اس طرز کی مافیا ہے جس سے آپ ہر طرح کے ظلم کی امید رکھ سکتے ہیں ۔لوگوں نے کہا اب تک تو ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ جس دکاندار نے بھتے کی رقم دینے سے انکار کیا اسے ہی ٹارگٹ بنایا جاتا ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس دکان کے کسی مزدور کو مار کر چلے گئے ہوں ۔

ظاہر ہے جب ڈاکٹر صاحب یہ بات اپنے دوستوں سے کہہ رہے ہوں گے کہ بات تو جہاں تک پہنچنا چاہیے تھی وہاں تک تو پہنچ رہی ہوگی کہ مافیا طرز کی تنظیموں کی خاصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ ان کی مخبری کا نظام(Information system)بہت چوکس ہوتا ہے ۔ہر وقت اور ہر بات کی اطلاع بر وقت پہنچتی رہتی ہے،برسبیل تذکرہ ایک بات یاد آگئی کہ ایک صاحب کے پریس کوئی لڑکا کام کرتا تھا جو تنظیم کے اس گروپ سے کوئی تعلق رکھتا تھا یا کوئی اس کا دوست تھا جو اس گروپ میں تھا جس کا کام مخالفین کو یا پولیس اہلکار کو اغوا کرکے اس گروپ کے حوالے کرنا ہوتا جس کا کام اس متعلقہ مطلوب مغوی کو ٹارچر کرنا یا اس کی بوری بنانا یاجو بھی اوپر سے حکم آجائے ۔اس نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسا ٹرانسسٹر سسٹم تھا کہ پولیس تھانے کی وائر لس سے جو اطلاعات جاری ہوتیں وہ ہم کیچ کر لیتے تھے اس لیے جب کوئی پولیس کی موبائل کہیں جارہی ہوتی تو ہمیں پہلے ہی معلوم ہوجاتا تو ہمیں کہیں فرار ہونا ہوتا تو ہو جاتے یا اگر اس موبائل پر کوئی کارروائی کرنا ہوتا تو ہمیں پتا چل جاتا وہ اس وقت کہاں ہوگی اسی طرح ہر تھانے میں کچھ افراد لازمی ایسے ہوتے جو ہمیں ان پولیس والوں کی مخبری کرتے جو ہماری ہٹ لسٹ پر ہوتے ایک تھانے کے مطلوب پولیس اہلکار کو اسی طرح پکڑا تھا کے جب وہ گھر جانے کے لیے نکلا ہم نے ایک مقام پر اسے پکڑلیا۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میں پھر یہی سوچا گیا ہو گا کہ اب وہ وقت آگیا کہ اس آواز کو ختم کردیا جائے ورنہ وہ یہ بھی جانتے تھے ڈاکٹر پرویز محمود کی اپنی مخبری بھی بہت جاندار ہے انھوں نے اگر پریس میں یہ بیان دے دیا اور ان لوگوں کے نام بھی بتا دیے تو تحقیقات کارخ تبدیل ہو سکتا ہے اور جس رخ پر وہ لے جانا چاہتے ہیں کہ اسے شارٹ سرکٹ کا شاخسانہ بتایاجائے وہ منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے ۔اس لیے 17ستمبر کی منصوبہ بندی کی گئی کہ اب اس آواز کو خاموش کر دیا جائے ۔

دوسری وجہ ایک یہ بھی لگتی ہے کہ اخبارات میں بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی کی خبریں اور بحث زوروں پر تھیں ، اس لیے لوگوں نے سوچا کہ میڈیا کو بھی ایک ایسی بڑی خبر کی ضرورت ہے کہ بلدیہ فیکٹری والا معاملہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دب جائے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ 18ستمبر کے خبارات ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبروں سے بھرے پڑے تھے ،اس لیے کہ اس وقت ڈاکٹر صاحب اہل کراچی کے امید کی ایک کرن کے طور پر ابھر رہے تھے ۔اپنی شہادت سے شاید دو سال قبل ڈاکٹر صاحب نے ایک خطرناک بیان دیا تھا جس کو پڑھ کے ہم بھی ڈر گئے تھے کہ جب کراچی میں ایک بین الاقوامی جرائم کی دنیا کی فیگر شعیب خان کی جیل میں خود کشی کا تحفہ ایک بہت بڑے پولیس آفیسر نے اپنی جاں بخشی کے عیوض کسی کو دیا تھا تو دوسرے دن ڈاکٹر پرویز محمود کا اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا تھا کہ اب الطاف حسین جرائم کی دنیا کے تنہا بادشاہ ہو گئے شعیب خان کا بڑا جرم یہ تھا اس نے ایم کیا ایم سے منحرف ہونے والوں کو چھتری فراہم کرنا شروع کردی تھی اس کا یہ ناقابل معافی جرم تھا۔اس وقت اس بیان کو سیاسی مخاصمت کے زمرے میں لیا اور سمجھا گیا لیکن آج تین سال بعد پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کون ہے جوبہت بڑی منی لانڈرنگ کے الزام میں الجھا ہوا ہے اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں کون سب سے زیادہ پریشان ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح آج تین سال بعد بلدیہ فیکٹری کے مزدوروں کے زندہ جلائے جانے کے ملزمان کے نام سامنے آرہے ہیں اسی طرح یہ بھی امید ہے کہ بہت جلد ڈاکٹر پرویز محمود کے قاتل بھی سامنے آجائیں گے ۔بلدیہ فیکٹری کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دوسرے دن کے اخبارات میں ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی تھی کہ جس وقت فیکٹری میں آگ لگی ہوئی تھی ایک ٹینکر والے نے دیکھا تو اس نے کہا کہ میں اپنا ٹینکر فیکٹری کی دیوار پہ مارتا ہوں تاکہ یہ دیوار ٹوٹے تو جو لوگ اندر چلا رہے ہیں ان میں سے کچھ تو بچ سکتے ہیں لیکن وہ کون پولیس اور پبلک کے لوگ تھے جنھوں نے اس ڈرائیور کو ڈانٹ کر وہاں سے بھگا دیا اس کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے ۔

ایک اور اہم بات یہ کہ کسی تنظیم کی دہشت گردی سے ہٹ کر ،اس زمانے میں اخبارات میں یہ بھی بحث چلی تھی فیکٹریوں کے لیبر قوانین اور فیکٹری کے اندر آگ بجھانے کے آلات اور کسی حادثے کے موقع پر فیکٹری کے باہر جانے کے محفوظ راستوں کے حوالے سے دیگر فیکٹریوں کو چیک کیا جائے اور انھیں ان تمام چیزوں سے آراستہ کیا جائے ورنہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ خدا نہ خواستہ کسی الیکٹرک شارٹ کیوجہ سے کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو ہمارے پیشگی انتظامات اس ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہونے چاہیےں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اس پر کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.