آن لائن قربانی کا شرعی حکم

آن لائن قربانی کا شرعی حکم
سوال:
بعض ویب سائٹس پر آن لائن (on line) قربانی کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، اور ٹی وی چیانلس میں بھی اس سلسلہ میں اشتہارات آرہے ہیں،کسی بھی ملک میں رہتے ہوئے انٹرنٹ کے ذریعہ اس سہولت سے استفادہ کیا جاسکتاہے، ذمہ دار ادارہ اپنی ویب سائٹ پر بنک اکاؤنٹ نمبر دیتے ہیں ، قربانی کا آڈر دینے والے اس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کرتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا آن لائن قربانی کی اس سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے قربانی کا آرڈر دینادرست ہے اور دوسرے ملک میں ان کی جانب سے قربانی کرنے سے کیا قربانی ادا ہو جائے گی؟

جواب:
شریعت اسلامیہ نے قربانی کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنانے کی اجازت دی ہے ،آدمی بذات خود قربانی کرے یا کسی اور کو قربانی کرنے کیلئے وکیل بنائے ،خواہ وہ فرد ہو یا ادارہ، دونوں صورتیں بھی جائز ہیں، آن لائن (on line) قربانی کی صورت، دراصل وکالۃً قربانی کے حکم میں ہے، اس سلسلہ میں چند باتیں ذہن نشین رہنی چاہئے : (1)آن لائن قربانی کا طریقہ اُسی وقت اختیار کیا جاسکتا ہے جب کہ اس امر کا کامل اعتماد ووثوق حاصل ہو کہ ویب سائٹس کے ذمہ داران اسی جانور کی قربانی کرتے ہوں جس میں شریعت مطہرہ کی مطلوبہ تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔ (2)لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی لازم وضروری ہے کہ جہاں قربانی دی جارہی ہو وہاں کا لحاظ کرتے ہوئے قربانی کے مقررہ ایام 10،11،12 ذی الحجہ ہی میں دی جائے، اگر اس مقام پر یہ ایام گزرچکے ہوں تو قربانی جائز نہیں ہوگی، بلکہ جانور صدقہ کردینا ضروری ہوگا‘جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔ (3)تاہم صاحبین اور امام حسن بن زیادرحمۃ اللہ علیہم کے قول کے پیش نظر ہردو مقام کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے قربانی کی جائے، چنانچہ بربناء احتیاط جس کی جانب سے قربانی دی جارہی ہے اور جہاں دی جارہی ہے ہر دو مقام پر جب ایام قربانی ہوں تب قربانی دی جائے تو بہترہے۔ اس سلسلہ میں دو فقہی جزئیے ذکر کئے جاتے ہیں: (الف)اگرشہر میں موجود شخص نے ایسے دیہات والے شخص کو اس کی جانب سے قربانی کر نے کیلئے کہا جہاںجمعہ اور عیدین نہیں ہوتیں تو مقام قربانی کا اعتبار کرتے ہوئے طلوع فجرکے بعد قربانی کرناشرعاً درست ہے اگر چہ صاحب قربانی کے شہر میں ہنوز نماز ادانہ کی گئی ہو ،امام محمد وامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہما نے یہی فرمایا، امام حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیکہ صاحب قربانی کے مقام کا اعتبار کیا جائے۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری ج5 ،کتاب الاضحیۃ ،الباب الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان ،ص296 میں ہے: ولوان رجلا من اہل السواد دخل المصرلصلوۃ الاضحی وامر اہلہ ان یضحوا عنہ جاز ان یذبحواعنہ بعد طلوع الفجر قال محمد رحمہ اللہ تعالی انظر فی ہذا الی موضع الذبح دون المذبوح عنہ کذا فی الظہیریۃ وعن الحسن بن زیاد بخلا ف ہذا والقول الاول اصح وبہ ناخذ کذا فی الحاوی للفتاوی،ولو کان الرجل بالسواد واہلہ بالمصر لم تجز التض۔حیۃ عنہ الا بعد صلاۃ الامام وہکذا روی عن ابی یوسف رحمہ اللہ تعالی۔ (ب)اگر کوئی شخص کسی ایسے ملک میں مقیم ہو جہاںقربانی کا وقت شروع نہ ہوا ہو اور اس کی جانب سے قربانی ایسے ملک میں کی جارہی ہو جہاں قربانی کا وقت شروع ہوچکا ہے یا قربانی دینے والے کے یہاں وقت شروع ہو چکا ہو اور جس ملک میں قربانی کی جارہی ہے وہاں ابھی وقت شروع نہ ہوا ہو تو صاحبین کے قول کے مطابق اسی مقام کا اعتبار رہے گا جہاں قربانی کی جارہی ہے اور امام حسن بن زیادرحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق صاحب قربانی کے مقام کا اعتبار ہوگا۔ جیساکہ فتاوی عالمگیری ج5، ص296 میں ہے : وروی عنہما ایضا ان الرجل اذا کان فی مصر واہلہ فی مصرٰاخر فکتب الیہم لیضحوا عنہ ، فانہ یعتبر مکان التضحیۃ ،فینبغی ان یضحوا عنہ بعد فراغ الامام من صلاتہ فی المصر الذی یضحی عنہ فیہ۔ ترجمہ : امام ابو یوسف وامام محمد رحمۃ اللہ علیہما سے مروی ہے کہ کوئی شخص ایک شہر میں ہو، اس کے اہل وعیال دوسرے شہر میں ہو ں اور وہ اپنے رشتہ داروں کی جانب اپنی طرف سے قربانی کر نے کیلئے مکتوب ارسال کرے تو اس کی قربانی اسی وقت کی جاسکتی ہے جبکہ قربانی ادا کی جانے والے شہر میں نمازادا ہوجائے۔ واللہ اعلم بالصواب –
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 321200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.