ہمارے قیمتی ووٹ اور جمشید دستی جیسے حکمران

ہم عجیب لوگ ہیں، عجیب قسم کی قیادت ہمیں ملی، عجیب لوگوں نے عجیب لوگوں کو منتخب کیا، ہمارے ملک کے قوانین بھی عجیب، عملدرآمد کا طریقہ کار بھی عجیب اور نظام انصاف بھی عجیب و غریب قسم کا ہے۔ اگر مجرم عام شہری ہو جو کسی ایم این اے، ایم پی اے کا کارندہ، وزیر، مشیر، سیاستدان کا کارخاص، کسی بڑے وکیل کا ملنے والا، کسی جج سے تعلق، کسی جرنیل سے رشتے داری، اعلیٰ افسر یا کسی پولیس والے سے جس کا میل ملاپ نہیں ہے۔ تو قانون ہر وقت کوڑا بن کر اس کی ننگی پیٹھ پر برستا ہے۔ عدالت میں اس کے ساتھ بھر پور انصاف ہوتا ہے، فوری سزا بھی ملتی ہے۔ لیکن قانون شکن اگر کوئی زبردست، با اثر اور صاحب رسوخ ہے تو اسے لاڈلے بیٹے کی طرح سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔

تھانے میں کیس کا اندراج ہو بھی جائیگا۔ تو عدالت اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق خود تفویض کر دیتی ہے۔ پاکستانی نظام میں میچ فکسنگ اور بال ٹمپرنگ کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی حالیہ اننگ بھی میثاق جمہوریت اور بعد کے زبانی اور تحریری معاہدوں کے تحت فکس ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے عہد کر رکھا ہے کہ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کیلئے وقت دیا جائیگا۔ حکومت گرانے کی کوشش ہوگی تو حکومت گرانے والی کسی قوت کے ساتھ تعاون کیا جائے گا نہ ہی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائینگی۔ خواہ اس دوران حکومت کی کارکردگی کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو۔ اس کے اقدامات چاہے ملک و قوم دشمنی پر مبنی ہوں۔ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی لاقانونیت میں خواہ کتنا اضافہ ہو جائے، حکومت غیر ملکی قرضوں کا جس قدر بوجھ ملک و قوم کے ناتواں کندھوں پر لاد دے۔ تاہم حکمران اپنا عرصہ اقتدار عیش و عشرت میں گزار کر با عزت رخصت ہوں گے۔ اور پھر بڑے وقار کے ساتھ بیرون ملک جا کر لوٹی قومی دولت سے پرتعیش زندگی بسر کرینگے۔ اور اپنی باری کا انتظار کرینگے۔ آئین نے کہا کہ جمہوریت پر شب خون، منتخب حکومت کی تحلیل، آئین سے ماورا اقدامات غداری کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کی سزا موت ہے۔ پرویز مشرف نے آئین، منتخب حکومت اسمبلیاں تحلیل کیں، نو سال تک غیر آئینی احکامات کے ذریعے اپنی مرضی سے حکم چلاتے رہے، مگر انہیں ایوان صدر اور آرمی ہاﺅس سے گارڈ آف آنر دے کر بہت ہی عزت و احترام سے رخصت کیا گیا۔ اور آج وہ لندن میں اپنی عالی شان محل میں بیٹھے دوبارہ اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ عبد الحمید ڈوگر نے سپریم کورٹ کے واضح آئینی حکم کی موجودگی میں حلف اٹھایا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بن کر دو سال تک تنخواہ اور مراعات لیتے رہے، مگر انہیں پورے اعزاز کے ساتھ مدت ملازمت پوری کرنے کا موقع دے کر تمام مراعات کے ساتھ ریٹائر کر دیا گیا۔ اور آج وہ حکومت سے ملنے والی پنشن کے سہارے خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں۔

شوکت ترین نے قومی خزانے کا بھرکس نکال دیا۔ اپنے ذاتی بنک کو فائدہ دینے کیلئے بینکنگ سیکٹر، سٹاک مارکیٹ، کمیوڈٹی، کنزیومنگ، ٹریڈ اور صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا، اور پھر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپنا بنک چلانے لگے۔ کسی نے ان سے سوال نہ کیا کہ دو سال کے مختصر عرصے میں آپ نے قوم کو 12 ارب ڈالر کا مقروض کر دیا، تو یہ قرض آپ نے کس کی اجازت سے کن شرائط پر حاصل کیا تھا؟ آصف زرداری نے ہر عہد پامال کیا۔ مگر وہ صدر مملکت ہیں۔ نواز شریف نے موجودہ جمہوری حکومت کے ہر غیر جمہوری حکم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی، اور وہ مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ اعجاز بٹ اور ان سے قبل نسیم اشرف نے قومی کرکٹ ٹیم کو ذلت و زوال کی اندھی اور گہری کھائی میں دھکیل دیا۔ مگر آج نسیم اشرف قومی دولت سے امریکا میں تھنک ٹینک چلا رہے ہیں اور اعجاز بٹ آج بھی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں۔ اس لیے کہ نسیم اشرف مشرف کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے جب کہ اعجاز بٹ وزیر دفاع چودھری احمد مختار کے قریبی عزیز ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ عدلیہ نے پانچ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی تعلیمی ڈگریوں کو جعلی قرار دے کر ان کے انتخاب کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی رکنیت منسوخ کی ہے۔ مگر کسی جعل ساز رکن کو سرکاری دستاویزات میں جعل سازی، تعلیمی اداروں کی ڈگریوں میں ہیر پھیر، قوم کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر دھوکہ دینے، مخالف امیدوار کو نمائندگی سے محروم کرنے اور ضمنی الیکشن پر آنے والے قومی اخراجات کی بابت کسی کو سزا ہوئی نہ کسی کو جرمانہ کیا گیا اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں سوال کیا گیا۔ حالانکہ یہ لوگ قومی مجرم ہیں۔ جو دو سال تک جعل سازی کی بنیاد پر منتخب اداروں میں بیٹھ کر بال ٹمپرنگ کر کے ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع اور سرمایہ ہڑپ کرتے رہے۔ مگر عدالت نے ان سے وہ تنخواہ بھی واپس نہیں لی۔ جو انہوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر قومی خزانے سے وصول کی تھی۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کے سربراہ جمشید دستی کی ڈگریاں بھی جعلی قرار دے کر ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔

جمشید دستی نے کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی اور ہر میدان میں ناکامی کے بعد ہیروز کی قائمہ کمیٹی میں طلبی کر کے شہرت حاصل کی تھی۔ ان دنوں جمشید دستی قومی کھلاڑیوں اور بورڈ حکام کی دوران اجلاس اور میڈیا کے سامنے تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ جس کے باعث ان کو تنقید کا بھی سامنا رہا۔ جمشید دستی کی تعلیمی اسناد کو ان کے مخالف نے چیلنج کر رکھا تھا۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جب عدالت نے ان سے تعلیمی اسناد اور متعلقہ تعلیمی ادارے کے حوالے سے سوالات کئے تو موصوف نے فرمایا کہ انہوں نے دینی مدارس سے ڈگری حاصل کر رکھی ہے، معزز جج نے قرآن پاک کے پہلے دو سپاروں کے نام بارے سوال کیا۔ تو دینی ادارے سے اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کرنے والے، قومی اسمبلی میں دو سال تک قانون سازی میں شریک کار، جواب نہ دے سکے۔ پہلی دو سورتوں کا نام بھی ان کو معلوم نہ تھا۔ عدالت نے سوال کیا ،دوران تعلیم آپ نے قرآن پاک کی کون سی تفسیر کا مطالعہ کیا تو جواب تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی، یعنی نزول قرآن سے دو ہزار سال قبل حضرت موسیٰ اردو میں قرآن کی تفسیر لکھ چکے تھے۔ اور اہل اسلام اس سے بے خبر رہے۔ مگر جمشید دستی اس تفسیر کا مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔ حیرت ناک طور پر جمشید دستی دو کا ٹیبل بھی نہ سنا سکے۔ پناہ، اے خدا، پناہ مانگتے ہیں آپ کی ہم پاکستانی شہری ایسی مردود، جھوٹی، جعلساز قیادت سے، ایسے سیاسی نظام سے جو ان خون آشام بھیڑیوں، چمگادڑوں اور گدھوں کا نگہبان ہے، ایسے نظام انصاف سے جو غریبوں ، بے آسرا، بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ پورا اور بڑے مجرموں کے بارے میں ادھورا انصاف کرتا ہے۔

انصاف کا تقاضا تھا کہ جمشید دستی سے محض استعفیٰ طلب کر کے انہیں بال ٹمپرنگ کے جرم سے بری نہ کیا جاتا۔ بلکہ سرکاری دستاویزات میں ہیر پھیر، ڈگری کے حصول میں جلعسازی پر قانون کے مطابق سزا بھی دی جاتی۔ دو سال کے عرصہ تک بطور قومی اسمبلی اور بحیثیت چیئرمین قائمہ کمیٹی انہوں نے اب تک جتنی تنخواہ اور مراعات حاصل کی وہ رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی۔ ان کی جعلسازی کی وجہ سے خالی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے تمام اخراجات ان سے وصول کئے جاتے۔ بڑے لوگوں کے جرائم معافی تلافی سے معاف کر کے نقصان کا سارا بوجھ قومی خزانے پر ڈالنے اور کسی مگر مچھ کو سزا نہ دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ با اثر لوگ کھل کر ہر جرم کر جاتے ہیں۔ انہیں نہ تو قانون کا ڈر ہے اور نہ سزا کا خوف، اس لیے کہ انہیں خبر ہے۔ وہ جانتے ہیں، کہ زیادہ سے زیادہ ان سے وہ چیز واپس لے لی جائیگی۔ جو ان کی نہیں ہے، بلکہ انہوں نے جعلسازی سے غاصبانہ حربے استعمال کر کے یہ سب کچھ حاصل کر رکھا ہے، اور اگر وہ چیز جو ان کی ہے ہی نہیں ان سے واپس لے لی گئی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جمشید دستی کو پوری سزا دی جاتی اس کے تمام جرائم کو بے نقاب کر کے اس سے ایک ایک پیسہ وصول کیا جاتا تو شائد مستقبل میں کوئی اس قسم کی جعلسازی کی جرات نہ کرتا، لیکن میچ فکس کر کے سیاسی اننگ کھیلنے والا ہمارے ملک کا حکمران طبقہ دراصل ایسے ہی قوانین کا محافظ و نگہبان ہے جو ان کے گریبان کو ہر قسم کی پکڑ، احتساب اور انصاف سے محروم رکھے۔

لیکن کوئی وقت جاتا ہے کہ ان کے اقتدار کا بیڑہ ڈوبنے کو ہے، زرداری، نواز شریف کے تعاون سے میچ فکسنگ کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ نواز شریف اپنی حالیہ اننگ اور بار بار بال ٹمپرنگ کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں، چودھریوں نے آمر کا ساتھ دینے کا جو گناہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اپنے آبائی شہر گجرات سے بھی دھتکارے گئے۔ اب عجیب لوگوں کو عجیب قیادت سے نجات ملنے کا وقت قریب ہے، مگر عجیب لوگوں کو اس کیلئے جدوجہد کے مرحلے سے گزرنا ہوگا کہ بغیر جدوجہد کے ملنے والی کامیابی عارضی ہوتی ہے، غیر فطری طریقے سے ملنے والے عروج کا فطری زوال بہت بھیانک ہوتا ہے۔ اور ہماری بودی قیادت ادھورے انصاف اور ناقص قوانین کی جس بیساکھی پر کھڑی ہے۔ اسے دیمک چاٹ چکی ہے۔ یا شائد اعلیٰ عدالت ہی ان قوانین کا جائزہ لے اور ان کو غیر قانونی قرار دے کر پورا انصاف کرنے کی راہ پر چل پڑے، پناہ، اے خدا، ایسے ادھورے انصاف اور قوانین سے پناہ۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.