کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو بنانے والا گرفتار: حقائق تو یہ ہیں

پانچ لاکھ روپے لے کر سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو تیار کی۔ گرفتار ملزم کا اعتراف
٢٩ مارچ بروز پیر قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی۔ اس خبر کو پڑھ کر میں میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے اور میں سوچ میں گم ہوگیا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟۔ یہ خبر قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہے پہلے آپ یہ خبر پڑھیں خبر کے مطابق آپریشن راہ راست سے قبل خاتون کو کوڑے مرنے کے جعلی ویڈیو فلم تیار کرنے والے سوات کے شہری نے اسے ڈرامہ قرار دیتے ہوئے ایک این جی او سے پانچ لاکھ روپے لینے کا انکشاف کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویڈیو تیار کرنے والے سوات کا شہری جس کی عمر پچیس سال ہے اسلام آباد کی ایک این جی او میں کام کرتا ہے، اس کو کوہاٹ کی انتظامیہ نے گرفتار کیا ہے اس نے بتایا کہ یہ فلم اس نے مذکورہ این جی او سے پانچ لاکھ روپے لیکر بنائی ہے اور اس فلم کا مقصد وفاقی اور صوبائی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا تھا تاکہ ملک کے وار کو دھچکا لگے، ذرائع نے مزید بتایا کہ اس فلم میں جس لڑکی کو کوڑے لگائے گئے ہیں اس لڑکی کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے،اور ویڈیو تیار کرنے کے ملزم نے انکلشاف کیا ہے اس نے مذکورہ لڑکی کو ایک لاکھ جب کہ دونوں کم عمر بچوں کو ( جنہوں نے ویڈیو میں لڑکی کو دبوچا ہوا تھا ) پچاس پچاس ہزار روپے دیے تھے، اور ان لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ ہم ایک ڈرامہ بنا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس گرفتاری اور تفتیش کی رپورٹ وفاقی حکومت کو روانہ کردی ہے اور مذکورہ این جی او کے خلاف باقاعدہ کاروائی کی اجازت طلب کی ہے یہ خبر کئی قومی روزناموں میں شائع ہوئی ہے اور اس خبر کو آن لائن نامی خبر رساں ادارے نے جاری کیا ہے خبر میں کہیں بھی اس این جی او کا نام نہیں دیا گیا ہے حالانکہ یہ گھناؤنا کام کرنے والی اس این جی او کا نام بھی دینا چاہئے تھا تاکہ عوام اس سے ہوشیار ہوجاتے۔

بہرحال اب یہ پوری خبر پڑھنے کے بعد آپ کے ذہنوں میں کیا کوئی سوال نہیں پیدا ہو رہا؟ میرے ذہن میں تو کئی سوال پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جب یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تھی تو تمام ہی میڈیا نے اس کو بریکنگ نیوز کے طور پر جاری کیا تھا اور تمام ہی چینل پر یہ ویڈیو پورے دن دکھائی جاتی رہی۔ اب اصولی اور اخلاقی طور پر تو ان تمام ہی چینلز کو یہ خبر بھی اسی طرح بریکنگ نیوز کے طور پر چالنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہر خبر پر نظر رکھنے والوں نے بھی اس خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، خبروں سے آگے جانے والے بھی یہاں پیچھے ہی رہے ایسا کیوں نہیں ہوا یہ ایک سوال ہے؟ دوسرا سوال یہ جو میرے ذہن میں آیا کہ جب یہ ویڈیو جاری کی گئی تو کراچی سے خیبر اور پاکستان سے لندن تک اس اس کے خلاف مذمتی بیانات دئے گئے اور اس کی آڑ میں اسلامی تعلیمات کو بدنام کیا گیا، یوم سیاہ منائے گئے، یوم احتجاج منائے گئے، کراچی حیدرآباد اور کئی شہروں میں سیاہ بینر لگا کر قوم کی ایک مظلوم بیٹی سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس اس خبر کے نشر ہونے بعد یہ ان تمام ہی لوگوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اس جعلی ویڈیو بنانے والے مجرم کی بھی مذمت کرتے؟ اس کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتے؟ ملکی وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی اس این جی او کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جاتا۔ لیکن افسوس کہ ایسا بھی نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ یہ کیوں نہیں ہوا؟

یہ ویڈیو جاری ہونے کے بعد اخبارات میں کئی روز تک کالمز لکھے گئے، اسلام کو وحشیانہ نظام کے تحت پیش کیا جاتا رہا، نام نہاد طالبان ( جن کے بارے میں ہماری حکومتوں کو بھی پتہ ہے کہ طالبان کے نام پر یہ امریکی اور بھارتی ایجنٹ ہیں ) کو معطون کیا گیا اوران کی آڑ میں دین اسلام کی شرعی سزاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہ خبر جاری ہونے کے بعد میں نے آج کے ٣٠ مارچ کے اخبارات میں اور بالخصوص جنگ اخبار میں بھی دیکھا لیکن کسی بھی کالم نگار نے اس خبر کو اپنے کالم کا موضوع نہیں بنایا۔ یہ ایک سوال ہے کہ کیوں نہیں بنایا؟

ذرا غور کریں کہ یہ ویڈیو اس وقت سامنے لائی گئی تھی جب صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت نے صوفی محمد سے امن معاہدہ کیا تھا اور اس حصے میں شرعی قوانین نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے فوراً بعد یہ مشکوک ویڈیو سامنے لائی گئی اور اس ویڈیو ہی کی بنیاد پر سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن شروع کئے گئے، اس ویڈیو ہی کی بنیاد پر صوفی محمد سے کیا جانے والا معاہد ختم کیا گیا، اس ویڈیو ہی کی بنیاد پر دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کیا گیا۔ اور آپ کی اطلاع کے لئے یہ بھی عرض کردوں کہ اخباری اطلاعات کے مطابق سوات اور مالاکنڈ میں آپریشن کے دوران اب تک چھے ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے ہیں یہ تعداد حکومت کے بیان کردہ “ دہشت گردوں “ کی ہلاکتوں کے علاوہ ہے۔ یعنی چھے ہزار سے زائد بے گناہ شہری ان آپریشنوں میں جاں بحق ہوئے ہیں ان میں جماعت اسلامی کے سابق ممبر قومی اسمبلی ہارون الرشید کی معمر والدہ اور کم عمر بھانجی بھی شامل ہے جن کو گھر میں بارود فٹ کر کے قتل کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ گزشتہ ہفتے اورکزئی ایجنسی کی جس مسجد پر میزائل حملہ کر کے باسٹھ سے زائد مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ان کے بارے میں اطلاع یہ ہے کہ وہ مسجد بھی تبلیغی جماعت کے زیر انتظام تھی اور اس حملے میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد بھی کسی عسکریت پسند گروپ کے نہیں بلکہ تبلیغی جماعت کے لوگ تھے۔ بین الاقوامی میڈیا ان کو تبلیغی جماعت کے ارکان قرار دے رہا ہے لیکن ہماری اپنا میڈیا اور حکومت ان کو دہشت گرد قرار دے رہی ہیں۔ ان چیزوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سوات اور مالاکنڈ وغیرہ میں جاری آپریشن میں بڑی تعداد میں بے گناہوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں لیکن ان کو چھپایا جا رہا ہے۔

لیکن کب تک یہ حقائق قوم سے چھپائے جائیں گے جس طرح یہ جعلی ویڈیو بنانے ولا فرد پکڑا گیا ہے، اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ حقائق قوم کے سامنے آتے رہیں گے لیکن اس وقت تک کئی بے گناہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے خلاف نفرتوں کی خلیج ناقابل بہت وسیع ہوجائے گی۔ آخر میں میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس جعلی ویڈیو کی بنیاد پر ایک واویلا مچایا تھا، اسلامی تعلیمات کو بدنام کیا تھا، اور یوم سیاہ منائے تھے کیا اب وہ اس ویڈیو کے جعلی ثابت ہونے پر اپنے اس طرز عمل کی قوم سے معافی مانگیں گے؟
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520057 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More

Sawat Flogging Found To Be Fake - A few days ago in MINGORA, Sawat, footage appears to show a 17-year-old girl being beaten in public by Taliban in Pakistan’s northwestern region of Swat. But after the few days later the people came to know that that was a fake video. The captured prisoner accepted that he took 500 thousand rupees from N.G.O. This video has been provided to media to defame the name of Pakistan.