اُردو کا نفاذ ،آئینی تقاضا

پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں

اُس دبنگ شخص نے لگی لپٹی رکھے بغیرکہہ دیاکہ پاکستان کاموجودہ نظامِ انصاف لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکاجس کی ذمہ داری ججوں ،وکیلوں اور معاشرے کے منفی رویوں پر عائدہوتی ہے۔ انصاف کی سب سے اونچی مسندپر بیٹھے محترم جوادایس خواجہ کونظامِ انصاف کی بہتری کے لیے صرف بائیس دِن ملے جنہیں وہ بائیس سالوں میں تونہ ڈھال سکے لیکن پھربھی کچھ فیصلے ایسے کرگئے جو اُنیں تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’’امر‘‘کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اُردوکو تین ماہ کے اندربطور قومی وسرکاری زبان اختیارکرنے کاحکم بھی انہی فیصلوں میں سے ایک ہے ۔یہ فیصلہ محترم جوادایس خواجہ کی ذاتی خواہش نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضاتھا جوگزشتہ 42 سالوں سے کسی ایسے ہی حکم کامنتظرتھا ۔73ء کے آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق1988ء تک اُردوکا بطورقومی وسرکاری زبان نفاذہو جاناچاہیے تھالیکن ہمارا آئین تواشرافیہ کے گھرکی باندی اورافسرشاہی کے گھرکی لونڈی ہے۔ یہ توموم کی وہ ناک ہے جسے نظریۂ ضرورت کے تحت جس طرف چاہیں ،موڑا جاسکتا ہے۔ اگرآئینی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو73ء کے آئین کو عشروں پہلے اسلامی قالب میں ڈھل جاناچاہیے تھالیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات آج بھی جوادایس خواجہ جیسے دبنگ شخص کے حکم کی منتظرہیں ۔ہوسکتا ہے موجودہ چیف جسٹس انورظہیر جمالی ایساکر جائیں کہ دینِ مبیں اُن کا مطلوب اوربہت مرغوب۔

قائدِاعظم نے 21 مارچ 1948ء کوڈھاکہ میں اپنی گرج دارآواز میں کہا’’میں آپ کوواضح طورپر بتاناچاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردوہوگی ،صرف اُردو اوراُردو کے سواکوئی زبان نہیں ہو گی‘‘۔ حضرتِ قائدنے یہ الفاظ اُس ماحول میں اداکیے جب اُنہیں باربار یہ مشورہ دیاجا رہاتھا کہ چونکہ مشرقی پاکستان میں’’بنگالی ‘‘کوقومی زبان کادرجہ دینے کے لیے شدیداحتجاج ہورہا ہے اِس لیے مصلحت سے کام لیاجائے لیکن قائدؒ نے ایسے مشوروں کو پرکاہ برابربھی حیثیت نہ دیتے ہوئے دبنگ لہجے میں اُردوکے سرکاری زبان قراردیا اورتاریخ بتاتی ہے کہ جب حضرتِ قائدؒکے مُنہ سے یہ الفاظادا ہورہے تھے تب پورے مجمعے پر گھمبیرخاموشی طاری تھی اوراُن کی تقریرکے بعدبھی کسی قسم کاکوئی احتجاج نہ ہوا ۔اگر قائدکے اِ اعلان کومدِنظر رکھاجائے توپھر42 نہیں68 سال گزرنے کے بعد اُردوزبان کی آبروکے ایک محافظ نے قائدؒکے فرمان کی بجاآوری کرتے ہوئے حاکمانِ وقت کواُردوکے نفاذکا حکم دیالیکن سلگتاہوا سوال یہ ہے کہ کیاقائدؒکے فرمان اور آئینی تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہوگی؟۔۔۔مرکزی حکومت نے 6 جولائی 2015ء کوسپریم کورٹ میں اُردوکے نفاذ سے متعلقہ کیس کے سلسلے میں یہ جواب جمع کروایاتھا کہ 3 ماہ کی مدت میں اُردو کا بطورقومی وسرکاری زبان مکمل نفاذکر دیاجائے گا۔سپریم کورٹ نے بھی اسی جواب کومدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنایااور حکومت کواپنے عہدکی پاسداری کاحکم دیا۔ اگراِس لحاظ سے دیکھاجائے تو ’’عہدکی پاسداری‘‘ میں صرف 18 دن باقی ہیں۔ کیاحکمران اِن اٹھارہ دنوں میں اُردوزبان کامکمل نفاذکر پائیں گے؟۔ اگرنہیں تو پھرکیا موجودہ چیف جسٹس محترم انور ظہیرجمالی حکمرانوں کی جواب طلبی کریں گے یاپھرکوئی نیا’’نظریۂ ضرورت‘‘ گھڑلیا جائے گا؟۔

جب سے سپریم کورٹ کافیصلہ سامنے آیاہے تہذیبِ مغرب کے ذہنی غلاموں کہ نوحہ خوانی جاری ہے ۔ سب سے بڑااعتراض یہ کہ عصرِحاضر میں ساری سائنس اورٹیکنالوجی اقوامِ مغرب کاورثہ ہے اوراُن کی زبان انگریزی ۔ اِس لیے سائنسی اصطلاحات کااُردو ترجمہ ممکن نہ اِن کاکوئی متبادل۔ اُردوکی تاریخ سے ناواقف یہ’’ ذہنی غلام‘‘ شاید نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے کہ اردو ترکی زبان کالفظ ہے جس کامطلب’’ لشکر‘‘ہے اسی لیے اِس کو’’لشکری زبان‘‘ بھی کہاجاتا رہا۔یہ وہ زبان ہے جو عربی ،فارسی ،ترکی ،سندھی ،بلوچی ،پشتو ،پنجابی ،برج بھاشا ،کھڑی بولی ،سنسکرت اورانگریزی زبانوں کا ملغوبہ ہے اور اِس زبان میں بہرحال یہ گنجائش موجودہے کہ یہ کسی بھی زبان کاکوئی بھی لفظ بغیرکسی ترمیم واضافے کے اپنے دامن میں سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ذہنی غلام اگرتھوڑی سی توجہ فرماتے ہوئے اردوزبان کامطالعہ کرنے کی کوشش کریں تواُنہیں ٹیکنالوجی اورسائنسی اصطلاحات سمیت انگریزی کے ایسے بیشمار الفاظ مِل جائیں گے جوبغیر کسی ترمیم واضافے یاتلفظ کی تبدیلی کے اردو زبان میں موجود اورمستعمل ہیں۔اِس لیے یہ اعتراض انتہائی بیہودہ اوربے بنیادہے کہ سائنسی اصطلاحات کامتبادل تلاش کرناممکن نہیں کیونکہ بحالتِ مجبوری ایسی اصطلاحات کوبعینہٰ اردومیں شامل کیاجا سکتاہے ۔1981ء میں’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ نے جو سفارشات پیش کی تھیں وہ آج بھی اپنے نفاذکی منتظرہیں اور مقتدرہ قومی زبان کے مطابق تمام علوم کواردومیں ڈھالناکوئی مسٔلہ ہی نہیں۔ اگرجرمنی ،فرانس ،روس ،چین ،جاپان ،اٹلی ،ناروے ،سپین حتیٰ کہ ایران تک اپنی اپنی قومی زبان میں درس وتدریس کاسلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں تو آج سے سو سال پہلے سائنسی اورمیڈیکل علوم اُس وقت اردومیں پڑھائے جاتے تھے جب اِس کاذخیرۂ الفاظ موجودہ دَور کی نسبت انتہائی محدودتھا ۔اگر تب ایساممکن تھاتو اب کیوں نہیں؟۔

تبصرہ نگاروں کے اِن تبصروں سے کلی اتفاق کیاجا سکتاہے کہ نفاذِ اردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری ’’افسرشاہی‘‘ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ افسرشاہی کی تربیت ہی کچھ اِس ڈھب سے کی جاتی ہے کہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی اپنے آپ کوحاکم اورعامیوں کو محکوم سمجھناشروع کردیتی ہے۔ میاں شہباز شریف بھلے اپنے آپ کوخادمِ اعلیٰ کہتے پھریں لیکن اُن کی چھترچھایہ میں پلنے والی افسرشاہی کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو’’خادم‘‘ سمجھنے کوتیار نہ جذبۂ خدمت سے سرشار۔ یہ المیہ صرف پنجاب تک محدودنہیں بلکہ پورا پاکستان ہی حاکمیت کاشوق رکھنے والی خودسَر افسرشاہی کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔یہ افسرشاہی بھلاسرکاری سکولوں کے پڑھے ’’عامیوں‘‘کی زبان کا نفاذ کیسے ہونے دے گی؟۔ اُن کے تو ذہنوں میں یہ خناس سماچکا ہے کہ اردوگھٹیا درجے کی زبان ہے جو صرف عامیوں کے لیے ہے ،افسروں کے لیے نہیں اور یہ خوف بھی دِل میں جاگزیں کہ اگراردو زبان کانفاذ کردیا گیاتو پھرکیا فرق رہ جائے گاخادم اورمخدوم میں؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643424 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More