معروف افسانہ نگار مشتاق احمد نوری سے ایک مکالمہ
مشتاق احمد نوری ایک بالغ نظر افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے تقریباًنصف صدی
قبل افسانہ نگاری شروع کی ۔ملک وبیرون ملک کے معیاری رسالوں میں ان کے
افسانے شائع ہوتے رہے ہیں۔اب تک ان کے سو سے زائد افسانے رسائل وجرائد کی
زینت بن چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کا خاصہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی اپنی
زندگی میں محسوس کیا اسے ہی فنی پیرایہ میں پیش کر دیا۔ انہوں نے سیاسی،
معاشی اور معاشرتی مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ ان کے چند افسانے
انسانی نفسیات کے مسائل پربھی مبنی ہیں۔ مشتاق احمد نوری کی افسانوی نثر
بہت ہی چست اور گٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ زبان و بیان کی روانی اور دلکشی ان کے
افسانوں کا خاصہ ہے۔ جملوں میں الفاظ کی نشست و برخاست ان کی فنکارانہ
چابکدستی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ’’تلاش‘‘، ’’بند
آنکھوں کا سفر‘‘ اور لمبے قد کا بونا‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہو کر داد و
تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے افسانے ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘، ’’ وہ ایک
لمحہ‘‘، ’’شہر کا خدا‘‘، ’’ خود کشی‘‘، ’’حرف آخر‘‘، ’’زندگی اے زندگی‘‘،
’’نوک‘‘ ، کانٹے کی خوشبو کو قارئین کی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔افسانہ کے
علاوہ انہوں نے شاعری بھی کی، خاکے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ ان کی
تنقید میں نئے نکات پیدا کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ ان کی علمی وادبی خدمات کو
دیکھتے ہوئے مختلف ادبی تنظیموں نے ان کی فکر سے استفادہ کیا ہے۔ حال میں
ان کو بہار اردو اکیڈمی کا سکریٹری بنایا گیا ہے جو ان کے شایان شان عہد ہ
ہے اور امید ہے کہ ان کی مدت کار میں اردو اکیڈمی نئے جوش اور نئی امنگ کے
ساتھ کام کرے گی۔ اردو اکیڈمی کا سکریٹری بنائے جانے کے بعد راقم نے ان سے
ایک انٹرویو کیا جس سے ان کے فکر وخیال اور فن کے تئیں ان کے احساسات
وجذبات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
خوشتر:آپ نے کب سے لکھنا شروع کیا؟ پہلی کہانی کب اور کہاں شائع ہوئی؟
مشتاق احمد نوری:میں 1966 سے کہانی لکھ رہا ہوں۔بچوں کے لئے بھی بہت لکھا۔
پہلی کہانی ’’دو روپ‘‘ 1967 میں ’’دین دنیا‘‘ دہلی میں شائع ہوئی۔کہانی کے
ساتھ شاعری کی بھی ابتدا ہوئی لیکن رجحان افسانہ کی طرف ہی رہا۔
خوشتر: مشتاق صاحب آپ ایک عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ آپ کے کئی افسانے ملک و
بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ایک شاعر یا ادیب کیوں لکھتا
ہے؟ اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
مشتاق احمد نوری:انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو تجسس بھری
نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے محسوس بھی کرتا ہے۔ ایک فنکار کی سوچ، ایک عام
آدمی سے تھوڑی سے الگ ہوتی ہے۔ جو چیزیں یا واقعات اس کے ذہن میں در آتے
ہیں، اس کا اظہار بھی ضروری ہوتا ہے۔ فنکار کے ذہنی اظہار کو ہی ہم اس کی
تخلیق کے نام سے جانتے ہیں۔ اگر اس کے اظہار پر پابندی لگا دی جائے تو وہ
اپنے ذہن کی اتھل پتھل کو خود بھی نہیں سنبھال سکے گا۔ایک عام آدمی بھی
اظہار کی آزادی کا استعمال کرتا ہے لیکن فنکار جب اسی بات کو اپنے طور سے
سوچ کر ایک عام آدمی تک پہنچاتا ہے، تو یہی اس کی تخلیق ہوتی ہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر: آپ نے شاعری بھی کی ہے لیکن افسانہ نگاری کی طرف آپ کا
رجحان زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اس تعلق سے آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
مشتاق احمد نوری:میں بنیادی طور پر فکشن کا آدمی ہوں۔میں نے درجن بھر شخصی
مضامین بھی لکھے ہیں۔کبھی کبھی شاعری کا بھی مزہ لے لیتا ہوں لیکن ہوں
کھلاڑی فکشن کا۔ اس لئے زیادہ توجہ میری اسی جانب رہتی ہے۔ اس کے علاوہ میں
نے فکشن پر تنقید بھی لکھی ہے اور جو انداز میں نے اپنایا ہے وہ میرا اپنا
ہے۔
خوشتر:کیا یہ صحیح ہے کہ نئی نسل نثری ادب سے دور ہوتی جا رہی ہے؟
مشتاق احمد نوری:اس سے جزوی اختلاف کرتا ہوں۔ سوشل سائٹ فیس بک وغیرہ پر
لوگ شعری پوسٹ کی طرف اس لئے لپکتے ہیں کہ اس میں وقت کم لگتا ہے لیکن
انھیں سائٹس پر لمبی لمبی کہانیاں بھی پوسٹ ہوتی ہیں اور لمبے کومنٹس بھی
کئے جاتے ہیں۔ نئی نسل نثر سے ہی کیوں، اس نے ادب سے ہی اپنا رشتہ ڈھیلا
ڈھالا رکھا ہوا ہے۔ اس کی دو وجہ ہے۔ ایک تو اردو پڑھنے والے لوگ اس میں
دلچسپی کم لیتے ہیں اور ادب کی طرف ان کا رجحان کم ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر: نئے لکھنے والوں میں کون سے ایسے نام ہیں جن سے آپ کو
مستقبل کی امیدیں ہیں؟
مشتاق احمد نوری:میں کبھی نا امیدی کا شکار نہیں ہوا۔’اردو زبان مر رہی ہے
یا مرنے والی ہے‘ یہ بات میں پچھلے 35 سالوں سے سن رہا ہوں لیکن آج بھی یہ
زبان پوری آن بان کے ساتھ زندہ ہے اور آئندہ بھی زندہ رہنے کے امکانات ہیں۔
آج کی نوجوان نسل ادب کی ساری صنفوں پر طبع آزمائی کر رہی ہے اور کامیابی
کے ساتھ منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
خوشتر:کیا وجہ ہے کہ افسانہ کی زبان اور اسلوب میں پہلے جیسی وہ بات اب
نہیں پائی جاتی ہے؟ غیاث احمد گدی، ضمیر الدین احمد، نیئر مسعود اور اقبال
مجید کے بعد افسانہ میں سحر کاری اور فضا آفرینی تقریباً معدوم ہے۔ اس کے
اسباب کیا ہیں؟
مشتاق احمد نوری:ہر دور کا فکشن اپنا اسلوب لے کر آتا ہے۔ہر رائٹر کا اپنا
ڈکشن ہوتا ہے۔ ایک جیسے ڈکشن کی امید تو ہم عصر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی
نہیں کی جا سکتی ہے۔ اب کرشن جیسی زبان تو آج کے لوگ لکھنے سے رہے۔ ہر دور
میں الگ الگ فنکار پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی زبان دانی کا سکہ چلایا۔
ایک دور کو دوسرے دور سے مقابلہ کرنے کے بجائے آپ یہ دیکھئے کہ آج جو فکشن
لکھا جا رہا ہے، اس کی زبان کی چاشنی اپنی ہے۔ کئی سطح پر زبان میں بھی
تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ لوگوں کی سوچ بھی بدلتی ہے۔ ہمیں سوچنا صرف یہ ہے کہ
ہماری زبان خوب صورت ہے یا نہیں اور آپ اطمینان رکھیں کہ اس کے بعد کا بھی
جو دور آنے والا ہے اس دور میں بھی زبان کی خوب صورتی قائم رہے گی۔
خوشتر:آپ نے ادب اطفال پر بھی کام کئے ہیں۔ کیا موبائل ، اسمارٹ فون اور
ٹکنالوجی کے اس عہد میں ادب اطفال اپنی اہمیت کھو چکا ہے؟
مشتاق احمد نوری: آپ کی بات سے انکار کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک زمانہ
تھا کہ گھروں میں ’’کھلونا‘‘، ’’مسرت‘‘،’’نور‘‘، ’’پیام تعلیم‘‘ یا
’’ٹافی‘‘ جیسے بچوں کے رسالے آتے تھے۔ جنہیں بچے شوق سے پڑھتے تھے۔ بڑوں کے
لئے بھی انہیں گھروں میں مختلف رسائل منگائے جاتے تھے۔ عورتوں کے لئے خاص
طور سے لکھنؤ سے ’’حریم‘‘ منگوایا جاتا تھا۔ لیکن اب گھروں میں رسائل کی
آمد بند ہو گئی ہے۔ ان گھروں کے بچے یا تو اردو میڈیم سے تعلیم نہیں پا رہے
ہیں یا پھر واجبی سی تعلیم رکھتے ہیں۔آج کے اس الکٹرانک میڈیا کے دور میں
پڑھنے کی دلچسپی دھیرے دھیرے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ہر گھر میں بچے موبائل
رکھنے لگے ہیں، لیپ ٹاپ پر وقت سرف کرتے ہیں۔گلوبل ولیج ان کے سامنے ہے۔
ایسی حالت میں وہ بچے رسائل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول
رسالہ ’’کھلونا‘‘ تھا۔ اس کا بند ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ بچوں کی
دلچسپیاں اب مختلف ہونے لگی ہیں۔
خوشتر:ادیبوں کا ایک بڑا طبقہ اب سائبر ورلڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ برقی ادب
Cyber Literature سے اب کس حد تک مطمئن ہیں؟ کیا برقی ادب کی وجہ سے رسائل
و جرائد کی اہمیت پر اثر پڑ رہا ہے؟
مشتاق احمد نوری:رسائل اور برقی ادب کا فیلڈ الگ الگ ہے۔ پڑھنا تو دونوں
میں پڑتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ برقی ادب کے آنے سے رسائل کی اہمیت پر تھوڑا
سا حرف تو ضرور آیا ہے۔ پھر بھی رسائل کی اپنی اہمیت ہے۔ جس سے ہم انکار
نہیں کر سکتے۔
خوشتر:آپ کو ایک ناقد کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ تخلیق اور تنقید میں
آپ کسے اوپر رکھیں گے اور کیوں؟
مشتاق احمد نوری:تخلیق اگر نہیں ہوگی تو تنقید بھی نہیں ہو سکتی۔ تخلیق کے
بعد ہی تنقید کا وجود ہوتا ہے۔ تخلیق کو ہر حال میں فوقیت حاصل ہے۔
خوشتر:اگرچہ میرے آنے والے سوال کا تعلق پورا پورا آپ سے نہیں ہے لیکن اس
وقت اردو کے فروغ، نشو ونما، ترویج و اشاعت میں آپ کے علاوہ خورشید اکبر
اور امتیاز احمد کریمی ہیں۔ کئی برسوں سے بہارحکومت کے ذریعہ شرف الدین
احمد یحییٰ منیری ایوارڈ کا جو سلسلہ تھا وہ پچھلے تین چار برسوں سے ختم ہو
چکا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
مشتاق احمد نوری:چونکہ اس معاملہ کا تعلق مجھ سے یا اکادمی سے نہیں ہے۔ اس
لئے اس کا جواب مکمل طور سے میں نہیں دے سکتا۔ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
کہ سرکاری فیصلے میں تو دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔
خوشتر:خاکہ نگاری سے بھی آپ کا تعلق رہا ہے۔ اس صنف کا فروغ کما حقہ نہیں
ہو سکا۔ کیوں؟
مشتاق احمد نوری:خاکہ نگاری بہت آسان فن نہیں ہے۔ عام طور سے لوگ ہر شخصی
مضمون کو خاکہ کہہ دیتے ہیں جبکہ شخصی مضامین الگ ہوتے ہیں، خاکہ الگ ہوتا
ہے۔خاکہ کا انداز، اس کی بنت اور اس کا اسلوب مختلف ہوتا ہے۔ کوئی ایسا طے
شدہ فریم نہیں ہے جس میں ہر تحریری کو کسا جا سکے۔ ہر شخص کا اپنا رنگ ہوتا
ہے۔اس کی زندگی کے الگ الگ زاویے ہوں گے جو کسی اور شخص میں نہیں بھی ہو
سکتے ہیں۔ خاکہ اڑانا اور خاکہ بنانا الگ الگ چیز ہے۔ خاکہ نگاری کے فن پر
صحیح معنوں میں جتنی توجہ دی جانی چاہئے تھی، نہیں دی جا سکی ہے۔ اس لیے یہ
صنف آج کے فکشن کے دور میں مکمل طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ پا رہی ہے۔
خوشتر:بہار کی سرزمین سے ابھرنے والے تخلیق کاروں/شاعروں/ادیبوں کے ساتھ
قومی سطح پر جو تعصب کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ کہاں تک مناسب ہے؟
موجودہ ادبی نسل بین الاقوامی سطح پر اپنی جو شناخت رکھتی ہے اس میں زیادہ
تعداد بہار کے لکھنے والوں کی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
مشتاق احمد نوری:آپ اس تعصب کو صوبائی تعصب سمجھ سکتے ہیں لیکن ہر دور میں
ادب کے معاملہ میں امامت بہار کے سر ہی رہی ہے اور اسے دوسرے صوبے کے لوگ
بھی تسلیم کرتے ہیں۔ فکشن ہو، تنقید ہو، تنقید ہو یا شاعری بہار ہی ہمیشہ
سر فہرست رہا ہے۔ ابھی ناولوں کا دور ہے اور ہندوستان میں جو بھی ناول لکھے
جا رہے ہیں اس میں اکیلے ساٹھ فیصد بہار کے ہی فنکار نمایاں کردار ادا کر
رہے ہیں۔ چاہے وہ بہار میں رہتے ہوں یا دلی میں یا کہیں اور۔
خوشتر:ادبی مسودوں پر اشاعتی امداد دئیے جانے سے پہلے ان مسودوں کی سخت
چھان پھٹک کی جانی چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
مشتاق احمد نوری:بالکل! میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں اور اس بات کا یقین بھی
دلاتا ہوں کہ اکادمی سے ان ہی مسودوں پر مالی تعاون دیا جائے گا جو معیاری
ہوں گے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر:ادب زبان سے بنتا ہے۔ آج اردو زبان اپنی معیاری سطح سے
بہت نیچے جا چکی ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آج نئے لکھنے والے گمراہیوں کا
شکار ہو رہے ہیں؟
مشتاق احمد نوری:مکمل طور پر نہیں کہا جا سکتا۔جب آپ زبان سے دور ہوں گے تو
ادب آپ سے دور ہو جائے گا اور اگر یہ حالت برقرار رہی تو ادب بھی ہمارے بیچ
سے دور ہو جائے گا۔ زبان زوال پذیر نہیں ہے، ہمارا رویہ زوال پذیر ہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر: اردو افسانہ میں جو گراوٹ آئی ہے اس کے کیا اسباب آپ کے
نزدیک ہو سکتے ہیں؟
مشتاق احمد نوری:گراوٹ کا دور کبھی لمبا نہیں ہوتا۔ ایک فنکار اچھی کہانی
بھی تخلیق کرتا ہے لیکن اسی سے کچھ کمزوریاں بھی وابستہ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں
مایوس نہیں ہونا چاہئے اور یہ امید رکھنی چاہئے کہ فکشن کا بہترین دور
ہمارا منتظر ہے۔
|