عالمی یومِ جمہوریت

بی بی جمہوریت کاعالمی دِن خاموشی کی ’’بُکل مارے‘‘آیا اور گزربھی گیا۔چونکہ ہم اورہمارے حکمران ’’ انتہائی‘‘ جمہوریت پسندہیں اِس لیے جہاں ہمارے ’’کھُنّے سِکنے‘‘ کاڈر ہوتاہے وہاں ہم جمہوریت کی زُلفِ گرہ گیرکے اسیرہو کرجمہوریت ،جمہوریت چلانے لگتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو بھی تحریکِ انصاف کے 126 روزہ دھرنوں میں جمہوریت کی یادنے بہت ستایااور وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کواکٹھا کرکے جمہوریت کی گھنی سیاہ زلفوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جونہی دھرنوں کا موسم ختم ہواتو پھر’’تُوں کون تے مَیں کون‘‘ ۔جمہوریت بہترین انتقام کہنے والی پیپلزپارٹی کے سربراہ زرداری صاحب کسی کی’’ اینٹ سے اینٹ‘‘ بجاتے بجاتے باہر کھسک لیے اوراب دوربیٹھے جمہوریت کاراگ الاپ رہے ہیں۔مجنونِ جمہوریت نے کہا ’’جمہوریت انتخاب کرواکر اقتدارسیاسی پارٹیوں اور افرادکو منتقل کرنے کانام ہی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ،آئین کی حدودکا احترام ،شفاف اورمساویانہ احتساب ،برداشت اورسیاسی مخالفین کی رائے کے احترام کانام ہے‘‘۔ اپنے پانچ سالہ دَورِحکومت میں تو زرداری صاحب کویہ سب کچھ یادنہیں تھاکہ تب تووہ اقتدارکے نَشے میں دھت تھے۔تب توبیچاری جمہوریت ’’نِیر‘‘ بہاتی پھرتی تھی اورغالباََیہ اُنہی کادَورِ حکومت تھاجب عدلیہ کے فیصلوں کو پرکاہ برابر بھی حیثیت نہ دی جاتی۔ سیاسی برداشت اورسیاسی مخالفین کی رائے کے احترام کایہ عالم کہ پنجاب میں گورنرراج اُنہی کے حکم پرلگا۔ شفاف اورمساویانہ احتساب کااُن کی لغت میں یہ مطلب کہ ’’لُٹّو تے پھُٹّو‘‘۔ اب جب آہنی ہاتھ اُن کے گریبان تک پہنچ گئے تواُنہیں بھی ’’بی بی جمہوریت‘‘ کاحسن یادآگیا ۔وہ خودتو الطاف حسین کی طرح محفوظ جگہ پہ جابیٹھے اوراب ’’حسنِ جمہوریت‘‘ سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے ’’گلِ نوخیز‘‘ بلاول بھٹوزرداری کو سیاسی اکھاڑے میں اتاردیا ۔بلاول نے لاہورمیں ’’کھڑاک‘‘ کرنے کی کوشش توبہت کی لیکن بات بنی نہیں۔سچی بات ہے کہ ہم تو بلاول کی تقریرسے اُسی طرح لطف اندوزہوتے رہے جیسے ’’گلِ نوخیزاختر‘‘ کے کالموں کو پڑھ کر ۔بلاول جوکہتااُس کے چہرے کے تاثرات اُس کاساتھ نہ دیتے ۔وجہ یہ کہ اُس کے سامنے ’’رومن‘‘ میں لکھی اُردوتقریر تھی جس کے ہرجملے کو اُسے تین ،تین باردیکھنا پڑتا۔ اسی لیے وہ اپنی ’’اداکاری‘‘ کارنگ جمانہ سکا۔ آکسفورڈکا تعلیم یافتہ بلاول اگراسی تقریر کو’’رَٹّا‘‘ لگاکر فی البدیہ تقریرکا تاثٔر قائم کرنے کی کوشش کرتا تویقیناََ رنگ چوکھاہوتا اورجیالوں کوبھی بی بی شہیدیاد آجاتی ۔اُس نے اپنی تقریر کے خاتمے پرسٹیج سے جیالوں کے درمیان چھلانگ لگاکر اپنے نانابھٹو مرحوم کاسا تاثر قائم کرنے کی کوشش تو ضرورکی لیکن وہ صرف آصف زرداری کا ساتاثٔرہی قائم کرسکا ،جن کانامِ نامی اسمِ گرامی یادآتے ہی نہ صرف غضب کرپشن کی ساری عجب کہانیاں یادآ جاتی ہیں بلکہ اُن کامسٹرٹین پرسینٹ سے مسٹرسینٹ پرسینٹ تک کاسفر بھی ۔شنیدہے کہ بلاول اپنے نام کے ساتھ لگا ’’زرداری‘‘ کالاحقہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے ۔دروغ بَرگردنِ راوی ، اُسے ناہیدخاں اورصفدر عباسی نے قائل کرلیا ہے کہ جیالے ’’بلاول بھٹوزرداری‘‘ کونہیں صرف ’’بلاول بھٹو‘‘ کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اب توزرداری صاحب کی کرپشن کی داستانیں گلی گلی میں ، جن سے جیالے بھی بیزار۔

بلاول نے کہا’’پنجاب پرایسے حکمران مسلط کردیئے گئے جوبابا بُلھے شاہ کی دھرتی پرکسی سزا سے کم نہیں‘‘۔ بالکل بجا کہا اُس نوجوان نے ، ہم توخود کافی عرصے سے ’’اندرکھاتے‘‘ یہ تحریک چلارہے ہیں کہ پنجاب کوکسی ’’خادم‘‘ کی ضرورت ہے نہ ’’اعلیٰ‘‘ کی۔ ہمیں تو سیّد قائم علی شاہ جیسا وزیرِاعلیٰ چاہیے جس کامشیرِ خصوصی ڈاکٹرعاصم اورمشیرانِ عمومی محمدعلی شیخ ،منظورکاکا ،انورمجید اورسومروجیسے لوگ ہوں۔ اگراِن سب پرفریال تالپور کو’’نگرانِ اعلیٰ ‘‘مقررکر دیاجائے تو سونے پرسہاگہ۔ اگرہماری تجویزکردہ ٹیم پنجاب کاانتظام وانصرام سنبھال لے تویہ جوخادمِ اعلیٰ ’’ایویں خواہ مخوا‘‘ اپنی انگشتِ شہادت لہراتے پھرتے ہیں ،ایک تواِس ’’انگشت ‘‘سے نجات مِل جائے گی اوردوسرے وہ افسرشاہی بھی ہمیں دعائیں دے گی جو ’’وَخت‘‘ میں پڑی ہوئی ہے۔بلاول نے یہ بھی بالکل درست کہا ’’میرے پنجاب کودہشت گردوں کے یاروں کے حوالے کردیا گیا‘‘۔ ہمارے ایجنڈے میں تو ہمیشہ یہ رہاہے کہ پنجاب کے ’’انتظامی امور‘‘ جمہوریت پسندایم کیوایم کے حوالے کردیئے جائیں کیونکہ جس طرح سانپ کے کاٹے کاتریاق بھی سانپ کازہر ہی ہوتاہے اسی طرح ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ دہشت گردوں کا علاج صرف دہشت گردی سے ہی ممکن ہے اوریہ کام ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ ایم کیوایم کے ’’ٹارگٹ کلرز‘‘ بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ کتنامزہ آئے جب پنجاب کی سڑکوں پر ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ ٹارگٹ کلرز دندناتے پھریں اور یہ ’’موئے‘‘دہشت گرداُن کے خوف سے کونوں کھدروں میں چھپتے پھریں۔ اِس سلسلے میں اگر محبِ وطن پیپلزپارٹی کی خدمات بھی حاصل کرلی جائیں توکوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اُن کے پاس بھی عزیربلوچ اوربابا لاڈلا جیسی ’’عظیم ‘‘جمہوریت پسندشخصیات موجودہیں۔

بلاول نے کہا ’’6 مہینے میں بجلی لانے کے وعدے کہاں گئے؟۔ میاں صاحب ! بتائیں بجلی نہ لاسکنے والوں کو کس نام سے پکاراجائے؟‘‘۔ بلاول پریشان نہ ہو ،اُس کے ’’انکل‘‘ خودہی اپنے لیے کسی اچھّے سے نام کی تلاش میں ہیں کیونکہ ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ بہت پراناہو چکا۔ ویسے بھی اگراگلی باروہ صرف پنجاب کی بجائے ملکی خدمت کا بِیڑااُٹھانے کوتیارہو جاتے ہیں تو پھرخادمِ اعلیٰ تواُنہیں ’’سُوٹ‘‘ ہی نہیں کرے گاکیونکہ جس طرح کرپشن کی داستانیں سنتے ہی پیپلزپارٹی کے ’’سنہری اَدوارِحکومت‘‘ یادآ جاتے ہیں اُسی طرح خادمِ اعلیٰ نہ صرف پنجاب بلکہ جاوبیجا سڑکوں، پُلوں ،میٹروبسوں اورگرین لائین منصوبوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیاہے ۔ہمارا مشورہ تویہ ہے کہ جیسے ایٹمی دھماکوں کی مناسبت سے اُس دن کا نام ’’یومِ تکبیر‘‘ رکھاگیااور آجکل اُسی کی دیکھادیکھی ملک ریاض بحریہ ٹاؤن لاہوراور کراچی کی عظیم مساجدکے نام کی تلاش میں ہیں، خادمِ اعلیٰ بھی اپنے لیے کوئی اچھّاسا نام تجویز کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار دے دیں تاکہ ہم بھی ’’قسمت آزمائی‘‘ کرتے ہوئے اُن کانام ’’خادمِ ملّت‘‘رکھ سکیں۔ اگراُنہیں ہمارا مجوزہ نام پسند آگیا تو پھر ہمارے ’’وارے نیارے‘‘ ہوجائیں گے اور’’بلّے بلّے‘‘ بھی۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643263 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More