ہمارے ہاں آسمان کو چھوتی
مہنگائی کی وجہ سے ادویات غریب مریضوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں جبکہ
بیرونی ممالک میں حتیٰ کہ انڈیا میں بھی انہی ادویات کی قیمتیں 1/4حصہ سے
بھی کم ہیں میٹریل وہی ہے جسے ہم بھی انہی ممالک سے درآمد کرتے ہیں جہاں سے
انڈیا کرتا ہے پھرہمارے ہاں یہ کئی گناقیمتیں کیوں زیادہ ہیں کبھی ان
حکمرانوں نے نہ نام نہاد سیاستدانوں نے اور نہ ہی عوام نے ادھر توجہ دی
ہے۔کہ خون چوسنے والی جونکیں ہمارے ساتھ کہاں سے چمٹی ہوئی ہیں آپ سن کر
حیران و پریشان ہو جائیں گے کہ اگر کسی دوائی کی قیمت بڑھانی مقصود ہوتو یہ
اختیار مرکزی وزارت صحت کے پاس ہے اور وہاں ادویات بنانے والوں کی جس طرح
درگت بنتی ہے اور وہاں جو کرپشن ہے وہ الامان و الحفیظ۔اگر آپ کو کسی دوائی
کی قیمت20 پیسے زیادہ کروانی ہے تو اس کی رشوت بمعہ تمام سٹاف اور صاحبان
اقتدار کا حصہ بقدر جسہ ملا کر5کروڑ روپے سے کم نہیں ہوگا۔اب جبکہ اتنی
رشوت دیکر دوائی کی قیمت بڑھے گی تو یہ ساری رقوم غریب مریض خریداروں کی
جیب سے ہی نکلوائی جاتی ہیں یعنی اصل اجالے کی ڈاکو وزارت صحت ہے بعد میں
جیب تراشی ،دنیا کے پلید ترین نظام سود کے علمبردارادویات ساز سرمایہ
دارصنعتکار کرتے ہیں ۔حضرت علی ؑکے فرمان کے مطابق اگر بھوک سے
بلبلاتا،مرتاشخص چوری کرتا پکڑا جائے گا تو ہاتھ چورکا نہیں بلکہ حکمران کا
کاٹا جائے گا۔اور یہ بھی فرمایاکہ جوبھوکوں مرتے ہیں وہ غلہ گوداموں پرپل
کیوں نہیں پڑتے روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ فلاں غریب شخص یا عورت
دوائیوں سے محروم یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھی یا خود کشی کرلی تو ان کا
مقدمہ قتل حکمرانوں اور مرکزی وزیر صحت و سیکریٹری ہیلتھ پر کیوں درج نہیں
ہو تا؟اس لیے نہیں ہو سکتا کہ کرپشن کے بدبو دار حمام میں سبھی ننگے نہاتے
ہیں اب ان اوباش،بدمعاش،کرپٹ بیوروکریٹوں اور اسلام آبادکے تخت پر متمکن
حکمرانوں پر ہاتھ کون اور کیسے ڈالے گا؟ویسے تو اگرتھانیدار حصہ دار نہ ہو
تو چوری ہو ہی نہیں سکتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔تھانے بکتے ہیں
اور غریبوں کی جیبوں سے ان کی خون پسینے کی کمائی جو نکلوائی جاتی ہے وہ
اوپر تک جاتی ہے اس لیے آوے کا آواہی بگڑا ہوا نہیں بلکہ کرپشنی شیطان الف
ننگا ناچ رہا ہے۔اور ہم اس کا ناچ دیکھ کرمحظوظ ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی حصہ
مل ہی جاتا ہے غریب خود کشیاں نہ کریں تو پھر کیا کریں۔میڈیکل سٹورزاور
فارموسوٹیکل انڈسٹری کا بحران کیوں ہے ؟ کیوں ا یسے آرڈیننس جاری کیے گئے
ہیں صرف اسلئیے کہ اب ضیاء الحق کے دور والے اسلامی قوانین کے تحت تھانوں
میں پرچوں کے اندارج والا معاملہ ہو گا کہ اس دور میں تھانیدار مدعیوں
کومطمئن اور ملزموں کو ڈراتے دھمکاتے تھے۔مدعیوں سے اسلامی دفعات لگانے
کابھتہ لیتے اور ملزموں سے اسلامی دفعات کے تحت چالان مرتب کرنے کی دھمکی
کارگر ہوتی تھی۔ملزم کوڑے مارنے جانے کے ڈر سے جیب کٹواتا تھاغرضیکہ غریب
مدعی اور ملز م دونوں سے مال بٹورا جاتا تھا اسی طرح سے اب ڈرگ آرڈیننس کی
دھمکی دے کرڈرگ انسپکٹر اور متعلقہ ضلع و اوپر والے افسران صحت کے وارے
نیارے ہوگئے ہیں رشوت کا ریٹ کئی گنا بڑھ جائے گااسطرح ادویات کی جو قیمتیں
آسمان سے باتیں کریں گی تو غریبوں کو علاج کروانے کے لیے اپنی کھال ہی
کھچوانی پڑے گی۔ آجکل تو میرے بھائی ڈاکٹر صاحبان ادویات کے سیمپل تک بیچ
کرمال ہڑپ کرجاتے ہیں مزید یہ کہ اسی کمپنی کی دوائی مریض کو نسخہ میں لکھ
کر دیں گے جس نے حج ،عمرہ کروانے ،ائیر کنڈیشنڈ گاڑی لے کر دینے نئی کوٹھی
بنوانے میں وافر حصہ ڈالنے یا دیگر مراعات کا وعدہ وعید کر رکھا ہو گا۔مصر
کے بازار اور ہمارے" اُس بازار"کی طرح بولیاں لگتی ہیں ہماری کمپنی کی
دوائی لکھو تو یہ یہ عنایت کریں گے دوسری کمپنی والاکچھ بڑھا کراور اعلیٰ
لا لچ دیکر ایڈ جسٹمنٹ کروالیتا ہے بقول میرے لگ رہا ہے مصر کا بازار
دیکھو ۔ہر ڈاکٹر کو کرپشن کا یار دیکھو۔آجکل تو پرائیویٹ ہسپتال انڈسٹری کا
روپ دھار چکے ہیں یعنی ان کی گھی یا شوگر مل ہی لگی ہوئی سمجھیں یہ تو
مسیحاؤں کا حال ہے۔تو زرداری ، شریف برادران ،الطاف اور عمرانی ساتھی وغیرہ
اور کٹھ ملائیت کے علمبردارکیوں پیچھے رہیں وہ بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو
رہے بلکہ ڈبکیاں لگا اور نہارہے ہیں حکمران بمعہ وزارت صحت میڈیکل سٹورز پر
تو حملہ آور ہو گئے ہیں مگر جعلی اور دو نمبر ادویات بنانے اور آگے سپلائی
کرنے والوں کو کوئی نہیں پو چھتا کہ وہ منسٹری کولمبا مال لگاتے رہتے ہیں
یہ تو وہی ہوانہ کہ چرس پینے والا گرفتار اور بیچنے والے کو کوئی نہیں پو
چھتا کہ اس کا مک مکا ہوا ہوتا ہے،کسی گھاس کے پلاٹ اور بازار میں تاش
کھیلتے اور وقت کاٹتے غریب آدمی تو جوئے میں دھر لیے جائیں گے مگر افسران
کے کلبوں میں رات گئے تک جوا کھیلنے والوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کہ
وہاں " قانون " نافذ نہیں ہوتا۔اب تو اﷲ ا کبر تحریک ہی آئے گی اور بھتہ
خور بدمعاشوں سے جان چھڑائے گی وفا توفیق باﷲ۔
|