گلگت بلتستان میں آئینی صوبے کے
نام پر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے،اور لوگ اب
بھی اسی نعرے کی بنیاد پر اپنی سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں ،مگر تلخ حقیقت
یہی ہے کہ ایسا مسئلہ کشمیر کے حل تک ممکن نہیں ہے ۔چند روز قبل دفتر خارجہ
نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہاہے کہ’’مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو
پاکستان کے لیے اپنا آئینی یا عبوری صوبہ بنانا ممکن نہیں ہے‘‘۔دراصل اس
نئی بحث کا آغاز جون 2015کے انتخابات سے قبل اس وقت ہوا جب وزیر اعظم میاں
محمدنوازشریف نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے تعین کے لئے مشیر خارجہ
سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیااور مختلف اوقات
میں لیگی رہنما اس کمیٹی کے حوالے سے متضاد دعوے بھی کرتے رہے تاہم اصل
صورتحال اگست میں ہی واضح ہوگئی کہ دفتر خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں نے
حکومت پاکستان پر واضح کردیاہے کہ تنازعہ کشمیر کی عالمی اور علاقائی
صورتحال اور قانونی پوزیشن کو مدنظررکھتے ہوئے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر
کو کلی یا عبوری طور پر پاکستان کا حصہ بنانا ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد اگرچہ مسلم لیگ(ن)کی قیادت کھل کر عوام کے سامنے اس کا اظہار
کرنے سے گریزاں ہیں، تاہم دفتر خارجہ نے ایک سے زائد مرتبہ نہ صرف اصل
صورتحال سے آگاہ کیاہے بلکہ حال ہی میں انکشاف ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف
نے جس کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیاتھا وہ چیپٹربھی کلوزہوچکا ہے ۔ جس کے
بعد گلگت بلتستان میں (ن)لیگ مخالف قوتیں ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوئی ہیں، اس
ضمن میں 13ستمبر کو پیپلزپارٹی کے تحت گلگت میں ہونے والی آل پارٹیز
کانفرنس اہمیت کی حامل ہے۔ اگرچہ کانفرنس میں خود پیپلزپارٹی کی اعلی
صوبائی قیادت شریک نہیں ہوئی تاہم جمعیت علما اسلام ، اسلامی تحریک پاکستان
،جماعت اسلامی ، قوم پرست رہنما نواز خان ناجی ، سابق نگراں اطلاعات وزیر
عنایت اﷲ خان شمالی، سمیت دیگر رہنماؤں کی شرکت اہمیت کی حامل ہے ۔ کانفرنس
کے میزبان پیپلزپارٹی کے امجد حسین ایڈوکیٹ کی تقریر اگرچہ پرجوش تھی لیکن
اس میں واضح تضاد تھا موصوف کہتے ہیں کہ ’’گلگت بلتستان مکمل طور پر ریاست
جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور نہ ہی مکمل طور پر اس سے الگ ،گلگت بلتستان کے
عوام نے خود آزادی حاصل کی اور پاکستان میں شامل ہوئے ‘‘۔موصوف ایک جملے
میں گلگت بلتستان کے ریاست جموں وکشمیر سے تعلق سے انکاری ہیں تو دوسری
جملے میں اقراری۔ اپنی مدد آپ کے تحت آزادی کی بات توتاریخی مسلمہ حقیقت ہے
تاہم پاکستان میں شمولیت یا الحاق کی دستاویز موصوف کے پاس ہی موجود ہو
سکتی ہے ،تاریخ اور حکومت پاکستان کے پاس کے اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔
آل پارٹیز کانفرنس میں بیشتر رہنما ء ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے حکومت پر
برس پڑے ،تاہم قوم پرست رہنما نواز خان ناجی کا موقف جاندار اور حقیقت بر
مبنی تھا، جن کا کہنا ہے کہ’’ہم رعایتی قیمتوں پر گندم تو مانگتے ہیں لیکن
ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں ،حکومت پاکستان کی امداد پر انحصار کرنے کے
بجائے ہمیں اپنے پاں پر کھڑے ہونے کے لئے ٹیکسوں کا نفاذ کرناہوگا‘‘۔
مجموعی طور بیشتر شرکاء نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مخالفت کی اور ان کا
کہناتھاکہ’’آئینی حقوق دیئے بغیر ٹیکس نہیں دیں گے ‘‘۔کانفرنس کا خلاصہ تھا
کہ’’بھارتی زیر انتظام کشمیرکی طرح گلگت بلتستان کو بھی نظام دیا جائے‘‘۔
اس طرح کے مطالبات سے قبل ہمیں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370، پاکستانی آئین
کے آرٹیکل2اور آرٹیکل 257اور اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے ایک سے زائد
قرار دادوں پر غورکرنا اور تاریخی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔درحقیقت
مطالبہ کرنے والوں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ موجودہ صورتحال میں گلگت
بلتستان کو پاکستان کا کلی آئینی یا عبوری حصہ قرار دینا نہ صرف انتہائی
مشکل بلکہ ناممکن ہے لیکن عوامی ہمدردی اور جذبات سے فائدہ اٹھانے کیلئے اس
طرح کے ایشوز اٹھائے جاتے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے حکومتی، سیاسی،قومی اور علاقائی
قیادت عالمی حالات ،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ،پاکستان کا کشمیر کے حوالے
سے موقف ، اقوام متحدہ کی قراردادوں ،1947کی ریاست جموں و کشمیر کی قانونی
حیثیت اور پاک چین اقتصادی رہداری منصوبے کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی مشاورت
اور مفاہمت سے کوئی ایسا حل پیش کرے جوقابل عمل اورسب کو قابل قبول ہو۔
جذباتی نعرے مسائل پیداتو کرسکتے ہیں،لیکن حل نہیں۔اس ضمن میں مسلم
لیگ(ن)کی صوبائی قیادت بالخصوص وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن پر
ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تن واحد کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے علاقائی قیادت
کو اعتماد میں لیکر عوامی مطالبات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں اسی ٹھوس
تجاویز مرتب کریں جوقابل عمل ہوں۔ جہاں تک حافظ حفیظ الرحمن کا یہ
کہناکہ’’(ن)لیگ کی حکومت اور قیادت نے عوام سے آئینی حقوق دینے کا کوئی
وعدہ نہیں کیا ہے ‘‘یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ انتخابات سے قبل کے وزیر
اعظم کے اعلانات پر ایک مرتبہ پھر غور کریں تو انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ
ان اعلانات میں آئینی حقوق کا وعدہ موجودہے یانہیں ۔
گلگت بلتستان کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے اب خطے کے تمام شعبہ ہائے زندگی
اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں کو’’چونکہ ،چناچہ ،اگر اور مگر‘‘کے
بجائے متحد اور متفق ہوکر ایسا حل پیش کرنا ہوگا جو سب کیلئے قابل قبول اور
قابل عمل ہو۔ معروف دانشور اور قومی رہنما عنایت اﷲ شمالی کی یہ بات درست
ہے کہ ہم جن مسائل کا شکار ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ آپس کا انتشار ہے ۔غالباً
اس کا ادراک وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن کو بھی ہے ۔اسی لئے انہوں نے اعلان
کیا ہے کہ’’اب قوم کو’’چار‘‘اور’’پانچ نمبر‘‘میں تقسیم نہیں کرنے دیں
گے‘‘۔بدقسمتی سے ماضی میں فرقہ وارانہ بنیادوں باقی چیزیں تقسیم ہوئی وہیں
گاڑیوں کے روٹ تک کو مذہبی رنگ دیکر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک
مکتبہ فکر نے مذہب کے نام پر 5نمبر(پنجتن)روٹ کا آغاز کیاتو ،دوسرے
نے4نمبر(چار یار)روٹ کاآغاز کیا۔اس تقسیم نے قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا
۔ہم ان نمبروں کو اپنے عقائد ونظریات تک رکھتے ہوئے قومی اتحاد کی بات کریں
تو خطے بڑی مثبت تبدیلی کا امکان ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے
فوائد بھی اتحاد کی صورت میں ہی ممکن ہیں ،بصورت دیگر یہی منصوبہ خطے کی
تباہی کا سبب بھی بن سکتاہے کیونکہ عالمی قوتوں کو اس منصوبے کی افادیت اور
پاک چین تعلقات ہضم نہیں ہورہے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہورہاہے کہ ریاست
جموں وکشمیر بالخصوص گلگت بلتستان کی عوام نے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو
خطہ عالمی سرد اور گر م جنگ کا نیا میدان بن سکتاہے۔
وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف نے 14ستمبر کو گلگت بلتستان کا ایک مختصر دورہ
کیا جس میں انہوں نے ضلع ہنزہ میں عطا آباد کے مقام پر 24کلومیٹر شاہراہ
قرارقرم کی تعمیر نو اور7کلو میٹر طویل پانچ مختلف ٹنلز کا افتتاح کیا۔وزیر
اعظم نے گلگت بلتستان کے لئے تقریبا 10ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان بھی
کیا ہے تاہم وزیر اعظم کو ماضی کے اعلانات پر عمل نہ ہونے پر عوامی رد عمل
یا سوالات سے بچانے کے لئے مقامی میڈیا کے نمائندوں ، عوام اور یہاں تک کہ
ن لیگ کی صوبائی قیادت سے بھی سے دور رکھا گیااوروزیر اعظم نے بھی حسب
معمول اسلام آباد کے چند افسران اورمیڈیا والوں پر انحصار کیا،جن میں سے
اکثر وزیر اعظم کے اندرون اور بیرون ملک دوروں میں ہمیشہ ساتھ ہوتے
ہیں۔وزیر اعظم نے جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان میں سے بیشتر کا اعلان وہ
پہلے بھی کرچکے ،اس لئے اب عمل پر توجہ کی ضرورت ہے
|